مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

ایمان کے ثمرات کب حاصل ہوتے ہیں؟
اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات و تندرستی، قوت کار اور لذت زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے، لیکن یہ نتائج اس تغذیے کے نہیں ہوتے جو محض کھالینے کے معنی میں ہو، بلکہ اْس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہوکر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقوف ہے، مگر یہ نتائج ان عقائد کے نہیں ہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہوکر اندازِ فکر اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی کی صورت میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانونِ طبعی میں وہ شخص جو کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے، اْن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اْس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اْن انعامات کا مستحق ہوسکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟
(تفہیم القرآن، تفسیر سورہ یونس، آیت : 9)
٭…٭…٭

دعوت دینے کا سلیقہ
حضرت یوسفؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا، اس میں ہم کو حکمتِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمھیں ضرور بتاؤں گا، مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمھیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغ حق کی دھن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔ مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑپن اور جھگڑالوپن سے انھیں الٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسفؑ چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کردیتے، بلکہ ان کے سامنے دین کے اس نقطہ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقل عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اتر گئی ہوگی، کیوں کہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاؤں کا، اور سارے جہاں کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجاؤ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا، مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔
(تفہیم القرآن، سورۃ یوسف، حاشیہ نمبر 43)