مزید خبریں

جھوٹ: امّ الامراض

جھوٹ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے وہ روزہ بھی قبول نہیں ہوتا جس میں انسان سخت گرمی اور جھاڑے میں دن بھر فاقہ پیاسا رہتا ہے۔ آگ برساتی دھوپ میں پیاس لگنے کے باوجود ایک گھونٹ پانی بھی حلق سے نہیں اتارتا۔ کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ نو بیاہتا جوڑا دن بھر اپنے جنسی جذبات پر قابو رکھتا ہے، رات میں تھکاوٹ سے چْور بدن کے باوصف نماز تراویح کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک حدیث ہے جس میں رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’جس شخص نے (روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا؛ تو اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔ قرآن نے جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’لعنت کریں اللہ کی اْن پر جو کہ جھوٹے ہیں‘‘۔ (آلِ عمران: 61)

جھوٹ سے کیا مراد ہے؟ جھوٹ کسی شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق قصداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا ہے۔ احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں: ’’جان بوجھ کر کوئی ایسی بات کہنا جو جزوی یا مجموعی طور پر خلاف واقعہ ہو؛ جھوٹ ہے۔ جھوٹ مذاق میں بھی ویسا ہی گناہ ہے جیسے سنجیدگی سے‘‘۔ (ترک رذایل)

اسلام جس معاشرے کی تعمیر کرتا ہے اس میں باہمی محبت وخلوص پر مبنی تعلقات ہوتے ہیں، جھوٹ کی وجہ سے باہمی اعتماد ویقین ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں فساد کو ہوا ملتی ہے، بدقسمتی سے جب گناہوں کی بات ہمارے ذہن میں آتی ہے تو وہی گناہ ذہن میں آجاتے ہیں جن کا تعلق ظاہر سے ہے۔ ان میں کمی بیشی ہمیں گناہ نظر آتی ہے لیکن اسلام اپنے ماننے والوں میں بنیادی اخلاقیات پیدا کرتا ہے اور یہی بنیادی اخلاقیات کسی بھی مثالی معاشرے کی اساس ہوتے ہیں۔ ان بنیادی اخلاقیات میں اہم خلق؛ سچ بولنا ہے۔

ہمارے معاشرے میں سچ بولنے کو اچھا عمل سمجھا ہی نہیں جاتا یا پھر ہم جھوٹ کی سنگینی سے واقف نہیں ہیں حالانکہ دین اسلام میں جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے۔ صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابوبکرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بارفرمایا۔ پھر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول!۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپؐ بیٹھ گئے، جب کہ آپؐ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)‘‘۔
اتنا ہی نہیں جھوٹ منافقین کی صفت بتائی گئی ہے، hypocrisy یا منافقت بدترین صفت ہے۔ بخاری شریف میں درج ایک حدیث میں جن چار خصلتوں کو محمد عربیؐ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، اس قدر سخت وعید کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا چلن ہے۔

کاروبار میں معمولی فائدے میں اضافے کے لیے، نوکری میں چھوٹی چھوٹی مراعات کے لیے جھوٹ بولنا ہمیں برا محسوس ہوتا ہی نہیں ہے۔ پہلے جھوٹ صرف لسانی آفت تھی لیکن آج کل لسانی کے ساتھ ساتھ جھوٹ کی شکلیں کچھ ایسی ہے جو ہمارے نزدیک جھوٹ ہے ہی نہیں جیسے سوشل میڈیا میں کیا جانے والا پروپگنڈا، فیک آئی ڈی بنانا، اس میں کوئی شک نہیں اسلام میں ناگزیر حالات میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے، مگر اسلام نے صرف چند صورتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے جیسے دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے کی اجازت دی ہے اور جنگ میں؛ لیکن اگر اس جھوٹ کے اثرات برے پڑھ سکتے ہیں تو جنگ میں بھی اجازت نہیں۔ اس اجازت کے ہوتے ہوئے تب حیرانگی ہوتی ہے جب کوئی دین دار انسان فیک آئی ڈی بناتا ہے اور اس کے ذریعے سے نیک کام کرنا چاہتا ہے دین اسلام جہاں ذرائع ختم کرتا ہے وہی سد ذرائع پر بھی روک لگاتا ہے، حد یہ ہے کہ مرد خواتین کی فیک آئی ڈی اور خواتین مردوں کی فیک آئی ڈی بناتے ہیں۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب دین دار بھی جھوٹ بولتے ہیں۔

مشاہدہ ہے کہ برسرِ منبر بھی جھوٹ بولا جاتا ہے، غلط بیانی کی جاتی ہے، بدنام کیا جاتا ہے، بنا تحقیق کے بات پھیلائی جاتی ہے۔ کبھی لوگوں کو ثواب کمانے کی نیت سے، کبھی لوگوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے اور کبھی ترغیب دینے کے نام پر۔ اگرچہ اس سلسلے میں کچھ لوگوں کی نیت درست ہو سکتی ہے لیکن ہمیں جاننا چاہیے کہ بحیثیت امت مسلمہ ہم داروغہ نہیں، ہم پر صرف کوششوں کے متعلق پوچھا جائے گا ہم پر ابلاغ کی ذمے داری ہے بس، حد تو یہ ہے کہ حضور اکرمؐ کے نام پر بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔ حدیت میں اس پر سخت وعید ہے۔

بخاری شریف کی روایت ہے حضورؐ نے فرمایا: ’’میرے اوپر جھوٹ بولنا کسی عام شخص پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے، جو شخص جان بوجھ کر میری جانب جھوٹی بات منسوب کرے تو اس کو چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے‘‘۔ حالانکہ محبت رسول کا ہم دم بھرتے ہیں اور اس کے باوجود اس بدترین گناہ میں شامل ہیں۔ نبی اکرمؐ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چنانچہ آپؐ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپؐ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپؐ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔ (مسند احمد) اتنا ہی نہیں ترمذی کی ایک روایت ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تو رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہوجاتے ہیں: ’’جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے‘‘۔

مجھے اس وقت حیرت ہوتی ہے جب یہ دیکھتا ہوں کہ ایک دین دار انسان فیک آئی ڈی بنا کر دوسرے مسالک، یا دوسری تنظیم سے وابستہ افراد پر تنقید کرتا ہے اور اس کو کار ثواب سمجھتا ہے، حالانکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مومن بخیل ہو سکتا ہے، بزدل ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے۔ مؤطا امام مالک میں سیدنا صفوان بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسولؐ سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ’’ہاں‘‘۔ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ’’ہاں‘‘۔ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ’’نہیں (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)‘‘۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر کوئی بھی چیز ملتی ہے۔ بلا تحقیق اس کو پھیلاتے ہیں۔ یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے‘‘۔ (صحیح مسلم)
جھوٹ کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں اگر جھوٹ پر قابو نہ پایا جائے تو یہ عادت زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ جھوٹ کے معاشرے پر بہت ہی خطرناک منفی اثرات پڑتے ہیں۔ جھوٹ ام الامراض ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ بغض، حسد، غییبت، ٹوہ لگانا، الزام تراشی، بہتان ان سب کے پیدا ہونے میں جھوٹ ہی اہم وجہ ہوتی ہے۔ جھوٹ اجتماعیت کے لیے سمِ قاتل ہے۔ کسی بھی اجتماعیت میں یہ جذبہ خیر ختم کر دیتا ہے، رسول اکرمؐ نے جھوٹ کو فسق وفجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: ’’یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اللہ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے‘‘۔ (بخاری)
رب العزت ہمیں اس شنیع فعل سے حفاظت فرمائے۔ آمین