مزید خبریں

حکومت اور تاجروں کی مصنوعی مہنگائی نے عید سیل سیزن تباہ کر دیا

حکومتی اور تاجروں کی مصنوعی مہنگائی نے تاجروں کا عید سیل سیزن تباہ کر دی ،سروے کے مطابق تاجروں کا 2024 عید سیل سیزن گزشتہ سال سے بھی زیادہ مایوس کْن رہا، مارکیٹوں میں ملکی تاریخ کی بدترین مندی نے تاجروں کے ہوش اڑادیئے، اعصاب شکن مہنگائی سے خریداروں کی قوتِ خرید شدید متاثر ہوئی، بازاروں میں چہل پہل، گہما گہمی اور رونقوں کے باوجود حسبِِ روایت خریداری نہ ہوسکی، خریداری 40فیصد تک محدود رہی، ملک کے سب سے بڑے شہر میں بمشکل سوا کروڑ افراد عید پر نئے کپڑے خرید سکے، عید سیل سیزن اعصاب شکن مہنگائی کی نذر ہوگیا تاجر 15تا 18 ارب روپے کا مال فروخت کرنے میں کامیاب ہوسکے، عید پر فروخت کیلئے گوداموں میں جمع کیا گیا 70فیصد سے زائد سامان دھرا کا دھرا رہ گیا، آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے پریس و میڈیا کو بتایا کہ تباہی سے دوچار کاروبار، محدود آمدنی اور تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہوئی ہوشربا اور ناقابلِ برداشت مہنگائی عوام کی عید کی خوشیاں بھی نگل گئی۔

مارکیت سروے کے مطابق80فیصد خریداری خواتین اور بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کیلئے کی گئی، تاجروں نے 2024 ء کو کاروباری لحاظ سے گذشتہ 75سالوں کا سب سے مایوس کْن سال قرار دیا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی،عید شاپنگ کے حوالے سے مخصوص اور معروف تجارتی علاقوں کلفٹن، صدر، طارق روڈ، حیدری، گلشنِ اقبال، ناظم آباد، ملیر، لانڈھی، گلستانِ جوہر، لیاقت آباد، بہادر آباد، جوبلی، جامع کلاتھ، اولڈ سٹی اور دیگر علاقوں کی مارکیٹیں خریداروں کی منتظر رہیں۔
عوام کی استطاعت کم ہونے کے سبب 90فیصد خریداروں کی دلچسپی سستے مال میں زیادہ رہی، تجارتی حب کراچی کا کاروبار سال کے سب سے بہترین سیل سیزن میں اجڑ گیا، انھوں نے کہا کہ ملک میں کسی غیرمتوقع سیاسی و معاشی بحران کے اندیشوں کا شکار تاجر مال منجمد ہوجانے کے خوف سے زیادہ اسٹاک جمع کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے، بنیادی ضروریاتِ زندگی، بجلی، گیس، پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے غریب اور متوسط طبقے کو حواس باختہ کردیا،تاجروں کیلئے کاروباری و گھریلو اخراجات پورا کرنا مشکل اور ادھار پر لیئے گئے مال کی ادائیگیوں کے لالے پڑگئے۔

معاشی حب کراچی کی تجارت کا چمن موسم بہار میں اجڑگیا، موجودہ صورتحال کو ملکی معیشت اور تجارت کیلئے تباہ کْن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عید سیزن کی تباہ حالی نے دکانداروں کے حوصلے پست اور ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، انھوں نے کہا کہ خریداروں کا رحجان خواتین اور بچوں کے کم قیمت ریڈی میڈ گارمنٹس، جوتے، پرس، کھلونے، ہوزری، آرٹیفیشل جیولری، زیبائش کا سامان وغیرہ کی جانب رہا،بیشتر خریداروں کے برعکس صرف ایک سوٹ خریدنے پر اکتفا کیا، مارکٹوں میں درآمدی اشیاء کے اسٹاک کم ہونے سے مقامی مصنوعات کی فروخت میں تیزی رہی۔

حسبِ روایت رواں سال بھی مصنوعی مہنگائی مافیا اور موقع پرستوں نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچاکر غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ دی اور ان کیلئے زندگی کی بنیادی سہولیات کا حصول مشکل ترین بنادیا، غریب اور متوسط طبقہ کچن کے مسائل میں پھنس کر عید جیسے مذہبی تہوار کی خوشیاں منانے سے بھی محروم رہا، شہر میں امن و امان کے ذمے دار اداروں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک میں پولیس،ڈاکو اور لٹیرے ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے جو لٹیروں سے بچ گیا وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا، پارکنگ مافیا نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے پولیس کی مدد سے بدمعاش اور غنڈہ عناصر پارک کی گئیں گاڑیوں کی فیس وصول کرتے رہے، مقامی و غیر مقامی گداگروں کی فوجِ ظفر موج شہر میں دندناتی رہی جن کی روک تھام کیلئے سرکاری سطح پر کوئی بھی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی، پولیس کے ہاتھوں کاغذات کی جانچ پڑتال کے بہانے بھی رشوت ستانیوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا، مارکیٹوں میں جرائم پیشہ خواتین بھی مال، نقدی، موبائل فونز اور پرس پر ہاتھ صاف کرتی رہیں۔

ہوشربا مہنگائی،معاشی،سیاسی بحران،بازار ویران،دکاندار پریشان،عید کی خوشیاں ماند پڑی ہوئی ہیں۔مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ عام طور پر عید میں اتنا کما لیتے تھے جتنا پورا سال نہیں کما پاتے، لیکن اس بار بازاروں میں رونق ہی نہیں،رمضان کے اختتام پر آنے والی چھٹیاں پاکستان کی چھوٹی دکانوں اور ٹھیلہ فروشوں کے لیے کمائی کی ضمانت ہوا کرتی تھیں۔ اس آخری ہفتے میں اتنی کمائی ہو سکتی ہے، جتنی پورے سال میں نہیں ہوتی لیکن اس سال صورت حال مختلف ہے۔ بہت سے دکانداروں کو یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنی دکانوں کا ماہانہ کرایہ تک ادا نہیں کر پائیں گے۔ ملک میں مہنگائی کئی دہائیوں کی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے اور سیاسی انتشار نے ملک کو غیر یقینی کی کیفیت میں ڈال رکھا ہے۔ مارکیٹوں میں گاہک نہیں ہے، کوئی خریدار نہیں ہے،بس مایوسی راج رہا ہے ۔