مزید خبریں

ملک کی معاشی صورتحا ل بہتری کب آئے گی عوام انتظار میں ہیں ؟

کاروباری رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ تمام اشیاء اور مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا، جس سے تمام صنعتی پیداوار کی لاگت میں 5 فیصد اضافہ ہوگا۔ بزنس مین فورم کے مرکزی رہنما اور ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر کیپٹن عبدالرشید ابڑو،سابق چیئرمین پاکستان شپس ایجنٹس ایسوسی ایشن اورسابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی طارق حلیم،معروف بزنس مین اورایف پی سی سی آئی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ندیم احمدکشتی والا نے خدشہ ظاہر کیا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے عائد کی گئی سخت شرائط سے حکمرانوں اور بیوروکریسی کو متاثر کرنے

کے بجائے مزید بوجھ پڑے گا جو طویل عرصے سے عیاشیوں کے مزے لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ پندرہ دن کے دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کی قیمت میں معمولی کمی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کیا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضا فے سے تمام سماجی طبقوں کے لوگوں پر منفی اثر پڑتا ہے، خاص طور پر صنعت کار جو پہلے ہی گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے متعدد چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں، تمام صنعتی پیداوار کی لاگت میں 5 فیصد اضافہ ہو گا، جس سے مسابقت کم ہو گی، مقامی صنعت پہلے ہی علاقائی ہم منصبوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔معاشی حکمت عملیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صنعتکار اور صنعتی کارکن دونوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، ملک کے تمام صنعتی زونز میں بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے بند ہونے سے صنعتی کارکن بے روزگار ہو رہے ہیں۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اس اضافے سے مہنگائی کی شرح میں 2فیصد یا 3فیصد تک اضافہ ہو سکتا

ہے۔
حکومت سخت کفایت شعاری کے اقدامات نہیں کرتی، ملک میں معاشی چیلنجز کم نہیں ہوسکتے، اگر کچھ حکمران اپنی ماہانہ تنخواہ لینے سے باز آجائیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ پہلے ہی عالیشان محلات، گاڑیوں اور نوکروں کے ٹولے میں عیش و عشرت کرتے ہیں،افسوس تو یہہے کہ مرکزی سڑکوں پر سفر کرنے والے ٹیکس دہندگان کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا۔

ملک میں یہ صورتحال تو ہر جگہ ہی نظر آتی ہے کہ مختیارکار، سب رجسٹرار، اسسٹنٹ کمشنرز، پولیس افسران، ڈپٹی کمشنرز، ڈویڑنل کمشنرز، سیکرٹریز، وزراء اور دیگر سرکاری افسران مراعات اور خصوصی الاؤنسز سے مستفید ہونے والے طبقات مہنگائی زدہ قوم کی جیبوں پر مزید بوجھ ڈالتے ہیں۔ندیم کشتی والا نے کہا کہ روزانہ کمانے والے، صنعتی کارکن، اور دیگر متوسط طبقے کے افراد غربت اور معاشی تنگی کی وجہ سے سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ، دیگر سماجی بہبود کی تنظیموں اور مخیر حضرات کے ساتھ مل کر کھانے کی تقسیم کی تقریبات کا سہارا لے رہے ہیں،شہر کراچی سمیت ملک میں جرائم کی شرح بھی روز بروز بڑھ رہی ہے کیونکہ غربت مجرمانہ سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے۔ حکومت کو تمام تاجروں اور صنعت کاروں کو سہولیات اور تحفظ فراہم کرنے کو ترجیح دینی چاہیے، جو کہ بیرونی ممالک میں روایات کی طرح ہے۔

علاقائی ہم منصبوں کے ساتھ پاکستان کے تجارتی خسارے میں نمایاں اضافہ پر تشویشناک ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق نو علاقائی ممالک کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ 10.98 فیصد بڑھ کر رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں 5.415 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا، جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران 4.879 بلین امریکی ڈالر تھا۔تجارتی خسارے میں اضافے کی بنیادی وجہ چین اور بھارت سے درآمدات میں اضافہ ہے۔

یو بی جی کے صدر زبیرطفیل نے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں روشنی کہا ہے کہ پاکستان کی چین کو برآمدات میں 42 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا، جو کہ جولائی سے فروری 2024 تک 1.895 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی، جو پچھلے سال کی اسی مدت کے دوران 1.334 بلین امریکی ڈالر تھی۔ تاہم 2023 میں چین کو پاکستان کی برآمدات میں 27.3 فیصد کی کمی دیکھی گئی، جو 2.78 بلین امریکی ڈالر سے کم ہوکر 2.02 بلین امریکی ڈالر رہ گئی۔

اسی طرح چین سے درآمدات میں بھی 14.72 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا، جو کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں مجموعی طور پر 8.105 بلین امریکی ڈالر رہی، جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 7.065 بلین امریکی ڈالر تھی۔ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں ہندوستان سے درآمدات 10.47 فیصد بڑھ کر 238.72 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں، جب کہ ہندوستان کو برآمدات 0.23 ملین امریکی ڈالر پر جمود کا شکار رہیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 0.161 ملین امریکی ڈالر تھی۔انکا کہنا تھا کہ افغانستان کو برآمدات میں 7.68 فیصد کی کمی ہوئی جو کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں 319.88 ملین امریکی ڈالر تھی، جبکہ بنگلہ دیش کو برآمدات 525.02 ملین امریکی ڈالر سے کم ہو کر 421.94 ملین امریکی ڈالر رہ گئیں۔یو بی جی کے رہنماؤں زبیرطفیل،خالدتواب،حنیف گوہر اور مظہر علی ناصر نے مزیدکہا کہ علاقائی شراکت داروں کے ساتھ تجارتی خسارے کو بڑھانا ایک اہم اقتصادی چیلنج ہے، اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے فوری توجہ اور اسٹریٹجک اقدامات کی ضرورت ہے۔یونائٹیڈ بزنس گروپ کے رہنمائوں نے علاقائی ممالک کے ساتھ زیادہ متوازن اور پائیدار تجارتی تعلقات کو فروغ دینے، برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کے راستے تلاش کرنے کی اہمیت پر زوردیا ہے۔

اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کا کہناہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت میں جاری مالی سال کے دوران عمومی اضافہ کارحجان دیکھنے میں آیا ہے، مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں چین کوپاکستان کی اشیاء اورخدمات کی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر42.02 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیاہے۔اسٹیٹ بینک اورپاکستان بیوروبرائے شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں چین کو اشیاء￿ اورخدمات کی برآمدات سے ملک کو1.895 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہواجوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 42 فیصدزیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں چین کو اشیاء اورخدمات کی برآمدات سے ملک کو1334.804 ملین ڈالرکازرمبادلہ حاصل ہواتھا۔

فروری میں چین کو اشیاء اورخدمات کی برآمدات کاحجم 169.041 ملین ڈالرریکارڈکیاگیا جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 20.60 فیصدزیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں چین کو اشیاء￿ اورخدمات کی برآمدات سے ملک کو140.16 ملین ڈالرکازرمبادلہ حاصل ہواتھا۔اعدادوشمارکے مطابق مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں چین سے درآمدات پر8.105 ارب ڈالرکازرمبادلہ خرچ ہواجوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 14.72 فیصدزیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں چین سے درآمدات پر7.065 ارب ڈالرکازرمبادلہ خرچ ہواتھا۔فروری میں چین سے درآمدات میں سالانہ بنیادوں پر90.63 فیصدکی نموہوئی، فروری 2024 میں چین سے درآمدات پر 1.146 ارب ڈالرکازرمبادلہ خرچ ہواجوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت مین 601.18 ملین ڈالرتھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ میں بعض حکومتوں نے کسی شعبہ میں حقیقی اصلاحات کی کوشش نہیں کی بلکہ زبانی جمع خرچ سے کام چلایا ہے۔ آئی ایم ایف کوبھی کئی دہائیوں سے مسلسل دھوکہ دیا گیا ہے جسکی وجہ سے اسکا رویہ بہت سخت ہوگیا ہے۔ اب حقیقی اصلاحات کے بغیرنہ توقرض ملے گا اورنہ ہی ملک چلایا جا سکتا ہے۔ کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کا فوکس ایف بی آرمیں اصلاحات پررہا ہے اورکئی دہائیوں سے اربوں روپے خرچ کرکے بھی اس میں قابل اطمینان حد تک اصلاحات نہیں کی جا سکی ہیں مگراب ایسا ممکن نہیں رہا ہے اوراس ادارے میں اصلاحات اورمعیشت کی دستاویزبندی مجبوری بن گئی ہے جوموجودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والوں کو منظورنہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف نئے ٹیکس گزاروں کی تلاش اورٹیکس چوری روکنے کے بارے میں پاکستان پردباؤ بڑھا رہا ہے جوملکی مفادات کے عین مطابق ہے کیونکہ اسکے بغیرملک کوقرضوں کی دلدل سے نکالنا ناممکن ہے۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی اورعسکری قیادت نے مل کرٹیکس نیٹ پھیلانے کے لئے مختلف اقدامات کئے ہیں جو قابل تعریف ہیں۔ اس سلسلہ میں تھوک وپرچون فروشوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا اور ان پرٹیکس عائد کرنا سب سے مشکل مرحلہ ہے جس کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔

میاں زاہد حسین نے مزیدکہا کہ ماضی میں اس طرح کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں مگراب کوئی اورآپشن باقی نہیں رہا ہے۔ اکتیس لاکھ ریٹیلرزکوٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے اوراس سلسلہ میں ابتدائی طورپرملک کے پانچ بڑے شہروں میں مہم کا آغازکردیا گیا ہے۔ دکانداروں کے لئے کم ازکم ایڈوانس انکم ٹیکس کی حد بارہ سوروپے رکھی گئی ہے جبکہ یکمشت ادائیگی پرپچیس فیصد رعایت بھی ملے گی۔ اگریہ اسکیم کامیاب رہی تواس کے نتیجہ میں ملکی آمدنی میں پانچ سوارب روپے تک کا اضافہ متوقع ہے جس سے ملکی معیشت کو کچھ حد تک سہاراملے گا۔ مگر ہماری معیشت کے سائز کے تناسب سے پاکستان کا ٹیکس ریونیو 14 ہزار ارب روپے ہونا ضروری ہے۔ اگر نان فائلرز اور ٹیکس نہ دینے والے طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا سلسلہ جاری رہا توچند سالوں میں حالات بہترہوجائیں گے اورحکومت عوام کو بہتر صحت، تعلیم، لا اینڈ آرڈر، انفراسٹرکچر اور سماجی تحفظ فراہم کر سکے گی۔ جبکہ بارباربجلی، گیس اورایندھن کی قیمت بڑھانے سے اجتناب کے لیے انرجی کے شعبے میں بنیادی اصلاحات اور پرائیویٹائزیشن کی شدید ضرورت ہے۔