مزید خبریں

رمضان کے بعد

رحمتوں اور مغفرتوں سے بھرا رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہوگیا، اس کے با برکت لمحے گیارہ ماہ کے لیے ہم سے رخصت ہوگئے، اس ماہ مبارک میں جنہیں رب العالمین نے توفیق عطا فرمائی، سارا مہینہ روزہ رکھا، راتوں میں عبادت کی، دن اور رات کی ہر گھڑی تلاوت قرآن کی، اپنے مال کو رب کی رضا کے لیے غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواوں میں لٹایا، ہلال عید دیکھ کر فطرانہ تقسیم کیا۔ اور رب العالمین کے اس فرمان:
’’اور تاکہ تم روزے کی گنتی پوری کرلو، اور روزے پورے کرلینے کی توفیق وہدایت پر اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرو اور شکر ادا کرو‘‘۔ ( البقرہ: 185) پر عمل کرتے ہوئے روزے پورے کرلینے کی توفیق پر وہ رب کی بڑائی، کبریائی اور تعریف کے گیت گائے، اور اس کے شکرانے میں نماز عید پڑھی۔

عید کے بعد بھی ان کی عبادت میں کوئی فرق نہیں آیا، بلکہ رمضان المبارک میں نماز کی باقاعدہ ادائگی کے ساتھ ساتھ، روزوں، تلاوت قرآن کریم، زکوٰۃ، صدقات وخیرات اور قیام اللیل کی جو عبادتیں انہوں نے شروع کی تھیں، اس کے لیے رب العالمین سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنے لگے کہ وہ انہیں ان عبادتوں پر استقامت عطا فرمائے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں نہ مبتلا کردے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے‘‘۔ (آل عمران: 8)
اور اپنی کی ہوئی عبادتوں پر انہیں تکبر وغرور نہیں ہوتا۔ سفیان ثوریؒ فرمایا کرتے تھے: ’’وہ عبادت جس سے انسان غرور وتکبر میں مبتلا ہوجائے، اس سے وہ گناہ بہتر ہے جسے کرنے کے بعد انسان کو پشیمانی لاحق ہو‘‘۔
بلکہ انہیں خوف لاحق رہتا ہے کہ مبادا یہ عبادتیں رب العالمین کے دربار میں شرف قبولیت پائی بھی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ ان کا حال یہ ہوتا ہے:

’’اور جو اس کے لیے جو کچھ دیتے ہیں، اسے دیتے ہوئے ان کے دل خائف ہوتے ہیں کہ بے شک انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔ (مومنون: 60)
اسلاف کرام کے متعلق آتا ہے کہ وہ رمضان المبارک گزرنے کے چھ ماہ تک گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے رمضان میں کی ہوئی عبادتوں کی قبولیت مانگا کرتے تھے، اس لیے کہ عمل دیکھنے میں چاہے کس قدر ہی شاندار کیوں نہ ہو اگر رب کے دربار میں شرف قبولیت نہ پاسکا تو سب بیکار ہے۔

عبادات کی قبولیت کا معیار
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’اگر دیکھنا ہوکہ کسی کی رمضان المبارک کی عبادت قبول ہوئی ہے یا نہیں؟ تو اس کے رمضان کے بعد والے اعمال دیکھو، اگر رمضان بعد بھی نیک اعمال پر اس کی استقامت اسی طرح باقی ہے جیسے ماہ رمضان میں تھی تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی رمضان میں کی جانے والی عبادتوں اور اطاعتوں کو قبول فرمالیا، جس کی وجہ سے اسے ان اعمال کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور جس کو دیکھو کہ رمضان کے بعد اس کے اعمال میں یک لخت فرق آگیا ہے، وہ راہ ہدایت سے بھٹک کر پھر اسی راہ کا راہی ہوگیا جس پر کہ وہ ماہ رمضان المبارک سے پہلے گامزن تھا، تو سمجھ لو کہ اس کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہے، جن کے متعلق رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’کتنے ہی ایسے روزے دار ہیں جن کے نصیب میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ہے، کتنے ہی ایسے رات میں قیام کرنے والے ہیں جن کے نصیب میں سوائے رات جاگنے کے کچھ نہیں‘‘۔ (ابن ماجہ، احمد، دارمی)
چنانچہ ہم دیکھتے تھے کہ رمضان مبارک میں مسجدیں تنگ ہوگئیں تھیں، مسجد کے اندر تو اندر بلکہ باہر بھی جگہ مشکل سے ہی مل پاتی تھی، لیکن افسوس کہ رمضان کیا گیا ان کی یہ عبادتیں بھی ہوا ہوگئیں، اور اب بھول کر بھی ان کے قدم مسجدوں کی طرف نہیں اٹھتے۔
فضیل بن عیاضؒ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو اپنے رب کو سوائے رمضان کے اور کسی مہینے میں نہیں پہچانتے‘‘۔ (نضرۃ النعیم)
شوال کے چھ روزے

ماہ شوال کے چھ روزوں کی بڑی اہمیت ہے، اس سے اللہ تعالیٰ ایک سال مکمل روزہ رکھنے کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔ سیدنا ابو ایوبؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے رکھے گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھے‘‘۔ (مسلم)
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ’’جو شخص ایک نیکی کرے گا اسے اس کا دس گنا ملے گا‘‘۔ (الانعام: 160)
اس قانون الٰہی کے مطابق ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے برابر اور چھ دن کے روزے دو ماہ کے برابر، تو یہ کل بارہ ماہ یعنی پورے سال کے برابر ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ روزے شوال کے پورے مہینے میں ایک ساتھ بھی اور وقفے وقفے سے بھی رکھے جاسکتے ہیں کیونکہ حدیث پاک میں ایک ساتھ رکھنے یا ابتدا میں رکھنے کی کوئی قید نہیں۔

نفلی صدقہ وخیرات
بندہ مومن رمضان میں زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کرتا ہے، اور اس ماہ مبارک میں اپنی داد ودہش سے غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں کی دست گیری کرتا ہے، اور ننگوں، بھوکوں، بیماروں اور محتاجوں کا خیال رکھتا ہے، اور یہ ایک اہم فریضہ ہے جس سے تغافل پر قیامت کے دن رب کے دربار میں اس کی گرفت ہوسکتی ہے، حدیث قدسی کے الفاظ ہیں کہ قیامت کے دن ایک بندے کو رب العالمین اپنی بارگاہ میں طلب کرے گا اور اس سے کہے گا: ’’اے ابن آدم! میں بیمار تھا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری عیادت کیسے کرسکتا ہوں جب کہ تو رب العالمین ہے؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن تو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو نے اس کی عیادت کی ہوتی تو اس کے پاس تو مجھے ضرور پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا؟ بندہ کہے گا: میں تجھے کیسے کھلاسکتا ہوں جب کہ تو دونوں جہانوں کا پالنہار ہے؟ تو اللہ تعالیٰ فرما ئے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا، اگر تونے اسے کھلایا ہوتا تو اس کا ثواب آج ضرور میرے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے پانی نہیں پلایا؟ بندہ کہے گا: میرے پروردگار! میں تجھے کیسے پلاسکتا ہوں جب کہ تو رب العا لمین ہے؟ تو اللہ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہیں پلایا، اگر تو نے اس کو پلایا ہوتا تو اس کا ثواب ضرور میرے پاس پاتا‘‘۔ ( مسلم)

بندہ مومن رمضان ہو یا غیر رمضان، رب کی راہ میں برابرخرچ کرتا ہی رہتا ہے، جیسا کہ فرمان باری ہے: ’’اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں، اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے رہنمائی کرتی ہے، جو غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور ہم نے ان کو جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہی رہتے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 2۔3)

نیز متقیوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: ’’اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف دوڑ لگاؤ جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے، جو لوگ خوشی اور غم ہر حال میں (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کردینے والے ہوتے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے‘‘۔ (آل عمران: 134)