مزید خبریں

عید الفطر… مسلمانوں کا جشن آزادی

یوں تو ہر قوم اور مذہب کے ما ننے والے کسی نہ کسی انداز میں کوئی نہ کوئی مذہبی و قومی تہوار مناتے چلے آئے ہیں اور اس دن وہ اجتماعی طور پر خوشی کا اظہار کر تے ہیں اسی طرح اسلام جو دین فطرت ہے اس میں بھی بندگان خدا کی مسرت و شادمانی کے مواقع رکھے گئے ہیں۔ جس طرح دنیا کے دیگر تہواروں کے پس منظر ہوتے ہیں۔ عید الفطر کا تہوار بھی اپنے جلو میں عظیم الشان پس منظر رکھتا ہے۔ یہ تہوار اہل اسلام رمضان المبارک کے مقدس و پاکیزہ مہینے کے اختتام اور شوال المکرم کی پہلی تاریخ کو رب تعالیٰ کے حضور ماہ رمضان المبارک میں رکھے گئے روزں راتوں کے قیام تلاوت و سماعت قرآن مجید زکوۃ صدقات خیرات اور نیکی و بھلائی کے کاموں کی انجام دہی پر سجدہ شکر بجا لانے پر خوشی و مسرت کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن مسلمانان عالم کے لیے جشن آزادی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چونکہ یہ وہ دن ہے کہ جب ہمارا خالق حقیقی ہماری رمضان المبارک میں کئی گئیں عبادتوں و ریاضتوں پر خوش ہو کر اپنے مومن بندوں کی گردنوں کو جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلے کی سند فضیلت عطا فرما تا ہے۔ آج کا دن بڑا ہی بابرکت اور خوشیوں سے بھرا ہے چونکہ آج مزدوروں کو ان کی اجرت ملنے والی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ! شب عید (یعنی چاند رات) کا نام لیلۃ الجائزہ یعنی انعام والی رات ہے۔ عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ بہت سارے فرشتوں کو شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ گلیوں کوچوں اور راہ گزاروں میں کھڑے ہو کر پکارتے ہیں جن کی پکار کو جن وانس کے سوا تمام مخلوقات سنتی ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں اے محمدؐ کے امتیو! تم اپنے رب کریم کی طرف نکل چلو جو بہت انعام دیتا اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جب روزہ دار عید گاہ کے اندر پہنچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے درمیان (اپنے ان بندوں پر فخر کرتا اور) فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! ذرا یہ تو بتلاؤ کہ ان مزدوروں کا بدلہ کیا ہونا چاہیے جنہوں نے اپنی مزدوریاں ٹھیک ٹھیک طور پر پوری کردی ہوں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اے ہمارے معبود و آقا ایسے مزدوروں کا بدلہ تو یہی ہونا چاہیے کہ ان کی پوری پوری اجرت دے دی جائے۔ جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے فرشتوں! تم گواہ رہو کہ ان (یعنی اہل ایمان) کے رمضان کے روزوں اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہوگیا اور ان کو بخش دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نظر رحمت کر تے ہوئے اپنے بندوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم ہے کہ اس اجتماع میں دنیا و آخرت کی جو بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں عطا کروں گا اور تمہارا خاص خیال رکھوں گا اور جب تک تم میری خشیت اختیار کیے رکھو گے میں تمہاری خطاؤں اور لغزشوں سے در گزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے کہ نہ تمہیں ذلیل و رسوا کروں گا اور نہ (قیامت والے دن) مجرموں کے درمیان تمہیں سر زنش کروںگا۔ تم سب کو میں نے معاف کردیا، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی تو میں تم سے راضی ہوگیا۔ امت مسلمہ پر رب تعالیٰ کی یہ انعامات و بخشش کی بارش دیکھ کر فرشتے خوشیاں مناتے ہیں۔ (الترغیب و الترہیب)
معلوم ہوا کہ یوم عیدالفطر جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کا دن ہے اور یقیناً جسے اتنی عظیم نعمت غیر مترقبہ حاصل ہوجائے تو اس کی خوشیوں کا کیا ٹھکانہ ہوگا۔ لیکن بقول شاعر ؎
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ؐ

کے مصداق اہل اسلام اس جشن آزادی کے موقع پر دیگر اقوام کی طرح غیر شائستہ غیر اخلاقی حرکات کا ارتکاب نہیں کرتے جیسا کہ غیر مسلم اقوام کا وطیرہ ہے۔ جیسا کہ وہ اپنے تہواروں کے جشن شراب نوشی قمار بازی اور دیگر لہوو لعب کے کاموں میں دھینگا مشتی کرتے ہوئے مناتے ہیں اس کے برعکس اسلام کے ماننے والے اتنی عظیم خوشخبری کے حصول پر بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے بلکہ اپنے اس جشن آزادی جہنم و حصول جنت پر دن کی ابتداء و انتہا رب تعالیٰ کی عبادت اور خوشنودی کے حصول میں صرف کر تے ہیں۔ یقیناً یوم عیدالفطر خوشی اور کھانے پینے کا دن ہے۔ آج کے دن روزہ رکھنا اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ اہل ایمان سارا ماہ رمضان بھوک و پیاس کی شدت برداشت کر تے رہے اور دن رات مشقت اٹھا کر رب کی رضا جوئی تلاش کر تے رہے تو اب مزدوری کی تقسیم کا دن ہے۔ لہٰذا اب بھوکا پیاسا نہیں رہنا بلکہ حسب توفیق خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں پلائیں۔ آج کے دن ایک دوسرے سے عید ملنا اور خوشیاں بانٹنا سنت رسولؐ ہے۔ سارا مہینہ آپ نے اپنے نفس کی اصلاح و تربیت میں گزارا، لہٰذا آج آپ کا رب آپ کو اپنی رضا مندی کی اسناد عطا فرما رہا ہے۔ اس لیے آج کا دن مسرت و شادمانی اور سجدہ شکر بجا لانے کا ہے کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان اس عظیم دن کو بھی رب کی یاد میں گزارتے اور ہر طرح کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں چونکہ مومن کا وصف تو یہ ہے کہ جب اسے کوئی خوشی حاصل ہو تی ہے تو اس پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے دونوں مواقع پر حد اعتدال سے نہیں گزارتا بلکہ ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس لیے عید کے موقع پر بھی اہل ایمان رب تعالیٰ کے حضور اظہار عبودیت کرتے ہوئے معافی کے طلب گار ہو تے ہیں۔ اس انداز بندگی کو سراہتے ہوئے ان کا رب انہیں عید گاہ سے اس حال میں رخصت کرتا ہے کہ سب کو مغفرت و رحمت کے پروانے جاری ہو جاتے ہیں اور ان کی گردنیں جہنم سے آزاد کر دی جاتی ہیں۔ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎

ترجمہ! عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا
عید تو ان کی ہے جو اللہ کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے
عید ان کی نہیں جنہوں نے آج بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا
عید تو ان کی ہے جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے
عید ان لوگوں کی نہیں جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے پکائے
عید تو ان کی ہے جنہوں نے حتی المقدور سعادت حاصل کی اور نیک بننے کا عہد کیا
عید ان کی نہیں ہے جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے
عید تو ان کی ہے جنہوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کا توشہ بنا لیا
عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ سواریوں پر سواری کی
عید تو ان کی ہے جنہوں نے گناہوں کو ترک کر دیا
عید ان کی نہیں جنہوں نے اعلیٰ درجے کے فرش سے اپنے مکانوں کو آراستہ کیا
عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے

قارئین کرام! عید الفطر جہاں جہنم سے آزادی کا نوشتۂ جاںفزا ہے۔ وہیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ جس طرح ماہ رمضان المبارک میں ہم نیکیاں کرتے ہوئے گناہوں سے دامن بچاتے رہے بعینہ سارا سال بلکہ بقیہ پوری زندگی تقویٰ و پرہیز گاری کے ساتھ رب کی مرضیات و رحمت عالمؐ کی پاکیزہ سیرت کے مطابق گزاریں تب تو ہماری عید حقیقی عید ہے وگرنہ محض کھانے پینے نئے لباس پہن لینے کا نام عید نہیں۔ یہی عیدالفطر کا فلسفہ ہے کہ بندہ پوری زندگی اپنے خالق و مالک کے احکامات پر کاربند رہتے ہوئے سنت مصطفویؐ پر عمل پیرا رہے۔ یہی عید کا پیغام ہے۔ اس کی نظریاتی اساس یعنی اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے گا اور ہم من الحیث القوم صحیح معنوں میں اسلامی اقدار اور نظام حیات کو جاری و ساری کریں گے۔ ان اقدامات اور کاوشوں سے رب کی رضا اور اس کے فیوض وبرکات حاصل ہونگے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بنائے۔ آمین یارب العالمین۔