مزید خبریں

اسلام میں تہوار ثواب کا باعث اور فطرت کے مطابق ہیں

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) اسلامی معاشرے پر تہواروں کے اثرات اور ان کے امتیازات اسلامی معاشرے پر تہواروں کے بڑے دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوئے ہیں اور انہی اثرات کی وجہ سے وہ اقوام عالم کے تہواروںسے ممتاز ہیں، عیدین تو مسلمانوں کی عالمی وحدت کی علامت اور اسلامی شعار کی حیثیت رکھتی ہیں، تصورِ تہوار انسانی فطرت ہے‘ عیدین اللہ کے حضور سجدئہ بندگی و شکر بجالانے کا نام ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی اپنے مقبول بندوں پر اَن گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹانے کو عید کہتے ہیں‘ اسلامی عقائد، خالص دینی فکر اور شرعی مزاج مسلمانوں سے جاہلانہ رسوم کو یکسر ختم کرتا ہے‘ تہواروں میں سادگی اور قناعت کے یہ مظاہر اسلامی معاشرے میں نجی اور انفرادی خوشی کے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ شعور اجاگر کرتے ہیں کہ خوشی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو بے دریغ لٹایا اور ضائع کیا جائے بلکہ ان کا شکر ہی خوشی کی اصل روح ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما، چترال سے قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا عبدالاکبر چترالی‘ جماعت اسلامی کراچی پبلک ایڈ کمیٹی کے صدر سیف الدین ایڈووکیٹ‘ معروف مذہبی اسکالر، تجزیہ نگار وکالم نویس اشفاق اللہ جان ڈاگیوال اور کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کے ایمبیسڈر‘ پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر، ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال : اسلام میں تہواروں کا کیا تصور ہے؟ کے جواب میں خصو صی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ قومیں اپنے مضبوط تہذیب وتمدن سے پہنچانی جاتی ہیں اور تہذیب کے نشو و ارتقا میں مذہبی تصورات کے ساتھ ساتھ مذہبی تہواروں کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے‘ زندہ قومیں اپنے تہوار بڑی گرم جوشی اور جوش وخروش سے مناتی ہیں کیونکہ یہ تہوار ان کی ثقافتی وحدت اور قومی تشخص کا شعار سمجھے جاتے ہیں‘ عیدین تو مسلمانوں کی عالمی وحدت کی علامت اور اسلامی شعار کی حیثیت رکھتی ہیں‘ اسلامی تہواروں میں جہاں عید الفطر کو ایک غیر معمولی تہوار کی حیثیت حاصل ہے‘ ہر قوم اور مذہب کی کوئی نہ کوئی عید ہوتی ہے جس کا پس منظر اور مقصد بھی ہوتا ہے، اس دن قومیں جشن مناتی اور خوشیوں کا اظہار کرتی ہیں‘ دوسرے لوگ و اقوام اپنے تہواروں کو انسانیت و شرافت کے لبادے سے باہر نکل کر شراب نوشی، قمار بازی اور دوسرے لہو و لعب میں مشغول ہو کر ایسے ایام گزارتی ہیں، جب کہ ان سب کے برعکس اسلام ہی ایسا پاکیزہ نظام حیات ہے کہ جس میں دین ودنیا دونوں کی خاطر مذہبی و قومی شعائر میں مابہ الامتیاز خصوصیات رکھی گئی ہیں اور اسلامی تہواروں میں نہ شراب وقمار ہے، نہ لہو ولعب ہے اور نہ انسانیت سوز نظارے ہیں، بلکہ تواضع، انکساری وخاکساری اور خشیت الٰہی کے جلوے ہیں۔ اسلامی تہواروں میں ایثار و محبت کے مجسمے، ہم دردی وغم خواری کے نمونے ہیں‘ اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویریں ہیں۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ تصورِ تہوار انسانی فطرت ہے‘ عیدین اللہ کے حضور سجدئہ بندگی و شکر بجالانے کا نام ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی اپنے مقبول بندوں پر اَن گنت نعمتیں اور برکتیں لوٹانے کو عید کہتے ہیں‘ اسلامی عقائد، خالص دینی فکر اور شرعی مزاج مسلمانوں سے جاہلانہ رسوم کو یکسر ختم کرتا ہے‘ عیدالفطر کو منانے سے قبل روزے اور عیدالاضحی میں قربانی کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی نفسیات کا خاص خیال رکھا ہے، انسان کی طبعی تفریح پسندی کے ناتے مخصوص حدود و قیود کے ساتھ اسے خوشی کے مواقع عنایت کیے گئے ہیں۔ ان حدود وقیود کی پاس داری ہر مسلمان پر لازمی اور ضروری ہے‘ اسلام میں ان خوشی کے مواقع کو ’’عید‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور ان کو آداب و شرائط کے ساتھ منانا باعث ِثواب اور مستحسن ہے، لیکن آداب وشرائط کی پامالی سے یہی خوشی روزِ قیامت غم واندوہ کا باعث بنے گی‘ اسلامی تہوار تہذیب ِاسلامی میں 2 تہوار ہیں: ایک عیدالفطر اور دوسر ا عیدالاضحی۔ آنحضرت کا ارشاد ہے: بے شک ہر قوم کی عید ہے اور یہ (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہماری عیدیں ہیں‘‘۔ اس حدیث مبارک میں جہاں مسلمانوں کے لیے’’عید‘‘ کا تعین کر دیا گیا ہے‘ وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے تہواروں میں نمایاںفرق موجود ہے۔اشفاق اللہ جان ڈاگیوال نے کہاکہ اسلامی تہواروں کے بڑے دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انہی اثرات کی وجہ سے وہ اقوام عالم کے تہواروں سے ممتاز ہیں، ان میں سے چند ایک کا تذکرہ پیش خدمت ہے‘ اسلام نے تہواروں کو عیش و طرب کا نمونہ نہیں رکھا جو اخلاقی قدروں کو بہا لے جائے اور انسان کے روحانی تقاضوں سے متصادم ہو،بلکہ ان میں عبادت کے ایسے پرجوش مظاہر رکھے ہیں ، جو روحانیت وللہیت اور صدق وخلوص کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں‘ وضو، غسل، صاف ستھرا لباس، خوشبو، مسواک اور دیگر نظافت انسان کے ظاہر کو نکھارتی ہیں جبکہ ظاہر کی صفائی کا تزکیہ باطن پر نمایاں اثر پڑتا ہے‘ اتحاد ویگانگت اسلامی تہواروں میں اجتماع و مجامع کے مظاہر رکھتے ہیں، دونوں تہواروں میں نماز عید کو بڑے مجمع کے ساتھ ادا کرنا واجب رکھا گیا ہے، ایک طرف یہ اجتماعی عبادت رحمتِ الٰہی کی توجہ کا باعث بنتی ہے تو دوسری طرف اسلامی معاشرے کے تمام طبقات کو اکٹھا ہونے اور اتحاد ویگانگت کے مظاہرہ کا سنہری موقع بھی بہم پہنچاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں تہواروں سے پہلے جن عبادات کی تکمیل ہوتی ہے، ان میں بھی اجتماع کی شان نمایاں ہے۔ محمد فاروق افضل نے کہاکہ سادگی، زہد و قناعت اسلامی تہواروں میں دیگر مذاہب کے تہواروں کی طرح عیش وطرب اور لہو و لعب کی ممانعت ہے، خوشی کی آڑ میں اسراف و تبذیر اور تضیع و تعیش کی ہر گز اجازت نہیں کیونکہ ان چیزوں کا التزام و رواج مالاً خوشی کو وبال میں بدل دیتا ہے اور معاشرے کے لا چار اور غریب طبقات میں احساسِ کمتری و کہتری کا باعث بنتا ہے۔ اسلام نے خوشی کے ان مواقع میں سادگی و زہد و قناعت کا بنیادی اصول بر قرار رکھا ہے‘ نئے لباس یا عمدہ و مہنگے کھانوں کا کوئی التزام نہیں ہے‘ بس صاف ستھرا لباس پہننا مسنون ہے‘ اگرچہ پرانا ہو۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ کھانے پینے میں بھی اپنی وسعت و گنجائش کو مدِ نظر رکھا جائے اور ان مادی اشیا سے نفس کو طراوت بخشنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے استحضار اور ذکر و عبادت سے جی خوش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال اور اظہار کوئی امرِ ممنوع نہیں‘ مقصود یہ ہے کہ سادگی و قناعت کا جوہر ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، ضروری راحت و آرام اور تسکین و تفریح کے سامان سے شرعی حدود میں رہ کر مستفید ہوا جائے اور اغیار کی طرح آرام و آسائش اور تفریح و تسکین کے لیے اسراف و تبذیر کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ تہواروں میں سادگی اور قناعت کے یہ مظاہر اسلامی معاشرے میں نجی اور انفرادی خوشی کے مواقع پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں اور یہ شعور اجاگر کرتے ہیں کہ خوشی منانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی نعمتوں کو بے دریغ لٹایا اور ضائع کیا جائے بلکہ ان کا شکر ہی خوشی کی اصل روح ہے۔