مزید خبریں

صحرائے چولستان

بہاول پور ڈویژن میں واقع’’صحرائے چولستان‘‘ ایک جہان طلسمات ہے۔ اس صحرا کا اپنا من موہنا سا حسن ہے جو لوگوں پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ اگر کوئی چولستان کے طلسم کا اسیر ہو جائے تو صحرا اس کو بار بار بلاتا ہے۔ معروف شاعر ’’خواجہ فرید‘‘نے اپنی زندگی کے سترہ قیمتی سال اس صحرا کی نذر کردیے۔

اس صحرا کا فلورا اور فانا بھی بہت دلکش ہے۔ یہاں قسم قسم کے پرندے اور جانور ملتے ہیں کچھ تو شکاریوں کی مہربانی سے ختم ہوچکے۔ تلور، باز، مرغابی اور تیتر اب بھی موجود ہیں جبکہ ہرن، مور، گیدڑ، لومڑی اور
صحرائی جہاز اونٹ اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔

جغرافیائی اعتبار سے یہ صحرا بہت اہم ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 25000 کلو میٹر ہے۔ جنوب میں یہ سندھ کے صحرا تھر سے ملتا ہے اور مشرق میں بھارت کی سرحد راجھستان تک پھیلا ہوا ہے۔ بہاول پور ڈویڑن
کے 3 اضلاع رحیم یارخان، بہاول نگر اور بہاول پور سے اس صحرا کو راستے نکلتے ہیں۔ چولستان کے اندر بھی مختلف مقامات کو ملانے کے لیے راستے بنے ہوئے ہیں جن کی لمبائی ایک ہزار میل تک ہے۔ جن کی وجہ سے اہم مقامات تک با آسانی پہنچا جاسکتا ہے۔

قدیم زمانے میں یہ صحرا بہت سرسبز و شاداب تھے لوک داستانوں میں اس کے تین دریاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ ہاکڑا، سرسوتی اور گھاگھرا یا پھر ممکن ہے یہ تینوں نام ایک دریا کے ہوں۔ ان دریاؤں کے کنارے
بہت سی تہذیبیں پروان چڑھیں۔ اس بات کی گواہی پتن منارا، گنویری آلا اور سوئی وہار کے مدفن شہر دیتے ہیں۔ پتن مناتا اور سوئی وہار میں بدھ مت کی عظیم درسگاہیں موجود تھیں۔ شہر تو اپنے خزانوں سمیت دفن ہوئے مگر بدھ درس گاہوں کے مینار اب بھی سر اٹھانے کھڑے ہیں (جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم سے بڑا خزانہ کوئی نہیں)۔ ان مدفن شہروں کی باقیات میلوں تک پھیلی نظر آتی ہیں جو آرکیالوجی کے ماہرین کو دعوت تحقیق دے رہی ہیں۔

چولستان میں بہت قلعے تھے کچھ تو ختم ہو چکے چند ایک اپنی گرتی جھڑتی دیواروں سمیت سلامت ہیں ان میں قلعہ دراوڑ، قلعہ پھلڑا، قلعہ مروٹ، قلعہ اسلام گڑھ، قلعہ جام گڑھ۔ موج گڑھ، خیر گڑھ، تاج گڑھ، چانڈہ کھانڈہ، دین گڑھ، مئو مبارک اور امروکہ قابل زکر ہیں۔ قلعہ دراوڑ میں بہت ساری عمارات سلامت ہیں یعنی شاہی دیوان، جیل خانہ کی عمارت، زنان خانہ اور شاہی چبوترہ کی عمارات۔
یہ تاریخی خطہ بھی ہے اور وسائل کے لحاظ سے امیر خطہ بھی ہے۔ کبھی یہاں وسیع و عریض چراگاہیں ہوتی تھیں جن میں مال مویشی چرتے پھرتے نظرآتے تھے۔ کہیں کہیں کھجوروں کے جھنڈ نخلستان کی جھلک دکھاتے تو کہیں صحرائی پھول جی کو لبھاتے تو کبھی لئی کے جنگل جن کی بہار ہی منفرد ہوتی ہے۔ پودوں کے اوپر گلابی سٹے دار پھول لہراتے ہیں اور نیچے نظر جائے تو پانی میں مچھلیوں کے جھنڈ اٹھکیلیاں کرتے دیکھتے ہیں کیونکہ لئی کھارے پانی کا پودا ہے اس لیے یہ پودا کھارے پانی کا دوست کہلاتا ہے۔

اسی صحرا میں فورٹ عباس کے قریب دودھلہ جنگل اور بہاول پور کے پاس لال سوہانرا نیشنل پارک نامی جنگل ہے جس کو بلاشبہ موروں، ہرنوں اور راج ہنسوں کا مسکن کہتے ہیں یہاں پر سیاحوں کے لیے چھوٹا سا چڑیا گھر ہے اور کالے ہرنوں کی معدوم ہوتی نسل کو بچانے کے لیے مصنوعی جنگل بنایا گیا ہے۔

تفریح کے لئے گٹھ بیتی جھیل بہت خوبصورت جگہ ہے یہ کھارے پانی کی بہت بڑی جھیل ہے، پتن منارا بھی خوبصورت مقام ہے۔ پتن منارا دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد ایک قدیم شہر تھا۔
بے شمار جڑی بوٹیاں بھی موجود ہیں جو ادویات کے کام لائی جاتی ہیں۔ بوئی، کھپ، لانڑا اور دھاونڑ ایسے صحرائی پودے ہیں جن سے قیمتی نمدے بنائے جاسکتے ہیں، خوشبو حاصل کی جا سکتی ہے اور بہت سارے صنعتی استعمالات ہوسکتے ہیں۔

چولستان کے یہ مناظر اب دھندلے پڑتے جا رہے ہیں یوں ہمارا حسین صحرا معدومی کے خطرے سے دوچار ہوچکا ہے
چولستان میں کافی مساجد اور محلات موجود ہیں جو اپنی خستگی پر ماتم کناں ہیں۔

عمارتوں، قدرتی ماحول و کلچر، تاریخی قلعوں پرانی عمارتوں کو تھوڑی سی توجہ مل جائے اور پرکشش پارک، ریزارٹ اور ہوٹلز بنائے جائیں تو یہ پاکستان کی سیاحت میں اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔
ایک چیز جو بتانا ضروری ہے وہ یہاں کے لوگوں کی ثقافت اور ان کی زبان یا پھر لب و لہجہ، یقین کیجیے آپ نے اکثر فلموں میں اس زبان اور ثقافت کے کچھ انداز دیکھے ہوں گے مگر یہ تو آپ کو یہاں پہنچ کر ہی اندازہ ہوگا کہ کتنا تلخ زمینی حقائق کے ساتھ یہاں کے لوگ اپنی زندگی کو آسان بنا کر چل رہے ہیں یا پھر ایسے علاقوں میں سختی کا پایہ جانا فطری سی بات ہے اس پر شاید اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ البتہ بولنے کا انداز بہت ہی نرالہ اور رہن سہن طور طریقے بالکل مختلف ہیں۔
چولستان کے علاقے میں نمک کی جھیل

چولستان میں ایک طرف تو خشکی ہے اور پانی کی کمی ہے ، دوسری طرف چولستان ہی میں ایک جھیل بھی ہے اور اس میں نمک موجود ہے۔ یہ جھیل رحیم یارخان سے دور 60کلو میٹر کے فاصلے پر واقع نواحی علاقے بنگلہ منٹھار سے سیکڑوں ایکڑ رقبہ پر محیط ہے۔نمکین جھیل سے مختلف شہروں سے آئے لوگ بڑی مقدارمیں نمک نکالتے ہیں۔
یہ نمک کھانے کے کام تو نہیں آتا تاہم اس سے کئی دیگر کام لیے جاتے ہیں۔ جیسے جانوروں کی کھالوں پر لگایا جاتا ہے، برف جمانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
نمکین پانی کی یہ انوکھی جھیل بہت دور ہے اور اس لحاظ سے اس کا سفر بھی کافی کٹھن ہوتا ہے۔ یہاں پہنچنے کے لیے لوگوں کو اکفی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ تاہم لوگ یہ سفر طے کرتے ہیں اور اس نمک کو حاصل کرلیتے ہیں۔

نمکین کی جھیل سے نمک نکالنے کا طریقہ وہی ہے جو کراچی میں سمندر سے نمک نکالنے کا طریق ہے۔ یہاں کراچی کے ساحل پر بھی پانی جیسے اوپر آتا ہے وہاں مٹی کو اطراف سے کنارے بنا کر پانی روک لیا جاتا ہے اور پھر جب پانی سوکھتا ہے تو وہاں نمک کی تہہ جمع ہوچکی ہوتی ہے۔ بالکل اس طرح اس جھیل سے بھی نمک کو پانی کے کنارے سے ایک طرف جمع کیا جاتا ہے اور پھر سوکھنے پر بوریوں میں ڈال کر شہرلے جایا جاتا ہے اور وہاں اس کو بیچا جاتا ہے۔ یہ نمک موٹی ریت کی ماند ہوتا ہے اور وزن میں بہت بھاری ہوتا ہے۔
اس جھیل کا پانی زمین سے ہی آتا ہے جو کہ سیم کے ذریعے اوپری سطرح پر آجاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس چولستان کا ایک بڑا رقبہ اسی جھیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ جھیل قدرت کا انوکھا نمونہ ہے۔ یوں خشک علاقے میں جہاں سے پانی آنے جانے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں پانی اوپر آتا ہے اورپھر نمک بھی اس سے نکلتا ہے۔
چولستان میں زندگی کے رنگ

یوں تو چولستان کوقدرت نے طرح طرح کی نعمتوں سیمالامال کیاہے۔ ستلج اور ہاکڑہ ماضی میں اس پر بہتے تھے۔ ان پانیوں کی موجیں شور مچاتی چلتیں اور سرسبز و شاداب میدانوں میں جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھتیں۔
ماضی میں دنیا کے دو قدیم ثقافتی مراکز موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اس علاقے سے بھی ایک تہذیب نے جنم لیا جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس تہذیب و تمدن کے روشن پہلو تھے اور اس کو منفرد مقام حاصل تھا۔

اس کی ثقافت کے انفرادی پہلو آج بھی اپنی تابانی کے ساتھ قائم ہیں۔
جتھ کرڑکنڈو بوئیں ڈھیراے
اُتھ درمنداں دے ڈیرے
یہاں کے باسی فطرت کی ایک آزاد دنیا میں اپنے موشیوں کے ساتھ اپنی نامعلوم منزل کی طرف پانی اور گھاس کی تلاش میں سررگرداں رہتے ہیں کیونکہ نان و نفقہ کی تمام ضروریات وہ انہیں سے پورا کرتھے ہیں۔

چولستانی کچی مٹی کے گھروں میں رہتے ہیں جن کی چھتیں گھاس پھوس اور جھاڑیوں کے پتوں سے بنائی جاتی ہیں۔ چھتوں میں کھجور کے تنوں کے شہتیر ڈالے جاتے ہیں۔ یہ گھر گول شکل کے ہوتے ہیں کن کو ’’گویا‘‘ یا جھوک کہتے ہیں ان گھروں کے صحن وسیع ہوتے ہیں تاکہ چولستانی اور ان کے مویشی صحن میں باآسانی رہ سکیں۔ برکھا رُت کے دنوں میں یہاں کی زمین کے طول و عرض میں سبز رنگ کی قالین بچھ جاتی ہے لیکن خشک سالی کے دنوں میں یہ گھاس خشک ہو جاتی ہے ۔

چولستان کی سرزمین پر کئی رنگوں کے ہرن بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر پایا جانے والا بارہ سنگھا بھورے رنگ کا ہوتا ہے جبکہ چنکارا ہرن سفید شکم اور کھلتے مٹیالے سنہری رنگ کا ہوتاہے۔
جنگلی درندہ سیاہ گوش بھی پایا جاتا ہے جس کا رنگ سیاہ اور نوکدار کانوں پر سیاہ رنگ کے کھڑے بال ہوتے ہیں۔ یہاں کے گیدڑوں کا رنگ سرخی مائل ہوتاہے جبکہ یہاں کی لومڑیوں کا رنگ مٹیالا ہوتا ہے۔ چولستان کے بلند و بالا اور زرد رنگ کی ریت کے ٹیلوں کے اوپر سانپوں کا رینگنا بھی دیدنی ہوتا ہے۔ یہاں پر پائے جانے والے سانپوں کی ساٹھ اقسام ہیں جو کہ سیاہ‘ سفید‘ پیلے ‘ سرخی مائل اور کئی دوسرے رنگوں کے ہوتے ہیں۔

لباس تو ایسا کہ رنگوں کا حسین امتیاز لیے۔ سرخ‘ سبز‘ پیلا اور نارنجی رنگ کا لباس زیب حتیٰ کہ ریگستانی جہازوں کے لباس بھی ان کے اپنے لباس جیسے ہوتے ہیں۔ جو ان سرخ یا مالٹے رنگ کی پگڑی باندھتے ہیں جبکہ خواتین قوس و قزح کے رنگوں کے چلمن اوڑھتی ہیں۔ بڑی

عمر کی خواتین گھاگرا (غرارہ) پہنتی ہیں۔ جو 15سے 18میٹر کپڑے کا بنا ہوتا ہے۔ لنگیاں(تہبند) کْرتے‘ دوپٹے اور چزیاں چولستانی خواتین اپنے ہاتھ سے بناتی ہیں۔
خواتین چاندی کے زیورات بھی بڑے شوق سے پہنتی ہیں جو بہت وزنی ہوتے ہیں۔ ان زیورات میں کٹ مالا‘ پازیب‘ چندن ہار‘ ہسی ‘ بندے‘ لاکٹ‘ زنجیری‘ مرکیاں اور کئی اقسام کے زیورات پہنتی ہیں۔ اونٹ اور بکریوں کی اون سے دریاں بنائی جاتی ہیں جن کو ’’فلاسیاں‘‘ کہتے ہیں یہ بہت گرم ہوتی ہیں اور سالہا سال چلتی ہیں۔ چولستان ی خود بھی مختلف رنگوں کے کپڑے پہنتے ہیں اور اپنے اڑن کھٹولے (اونٹ) کو بھی سرخ‘ پیلے اور نیلے کپڑے پہناتے ہیں۔بیلوں اور بھیڑ بکریوں کو بھی مختلف رنگوں کے موتی‘ لوہے‘ پیتل اور تابنے کے زیورات کے ساتھ پہنائے جاتے ہیں۔
کھدر کے کپڑے‘ کھیس اور لنگیاں یہاں کی مقامی صنعت کی مصنوعات ہیں۔ خواتین کی اکثریت چولی اور غرارا زیب تن کرتی ہیں جو کہ نیلے‘ پیلے‘ سبز‘ نارنجی اور مختلف قسم کے تیزو چمکدار رنگوں میں ہوتے ہیں۔ بعض کواتین ان کے اوپر شیشے بھی جڑواتی ہیں۔

اجرک چولستان کی مقامی سوغات ہے جو کہ سرخ‘ سیاہ او بنفشی رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کو مرد اور خواتین دونوں اوڑھتے ہیں۔ یہ تحفہ کے طور پر فخر سے پیش کی جاتی ہے۔ اس کو پگڑی کے طور پریا کنڈھے پر ڈالا جاتا ہے۔ اس کو خواتین دوپٹے کے نعم البدل کے طور پر بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس کے ڈیزائن‘ مربعی‘ مستطیل اور دائروی شکل کے ہوتے ہیں۔
چولستان میں زندگی کو لاحق خطرات

چولستان میں تاحدِ نگاہ ریت کا ایک سمندر ہے۔ میلوں دور تک ریت میں گاڑیوں کے ٹائروں سے بنی سانپ کی طرح رینگتی سڑک کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ صرف بے فائدہ ریتلی بوٹیاں ہیں جن کی ہریالی اب ماند پڑ چکی ہے۔ نیم سوکھے درختوں کے جھنڈ نظر جہاں پانی کے وسیع و عریض ’ٹوبے‘ موجود تھے لیکن اب ان ’ٹوبوں‘ کی جھلسی ہوئی سوکھی زمین دور سے نظر آتی ہے۔ چولستان میں جب سورج سر پر ہوتا ہے تو پانی کے ان ذخیروں کے سرہانے کھڑے ہو کر آپ ان کی پیاس کو محسوس کر سکتے ہیں۔

اپریل کے اس موسم میں بھی چولستان کے اس علاقے کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا ہے۔ چند منٹ بھی ریت اڑاتی لو میں ٹیلوں کے درمیان کھڑا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ریت کی ایک عجیب بات یہ ہے کہ جب یہ تپتی ہے تو گرم لوہے کی ماند دور تک اس کی حرارت محسوس کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر گرمی شدت کے ساتھ آتی ہے اور پھر ٹھنڈی ہوتی ریت کی راتیں بہت خوبصورت محسوس ہوتی ہیں۔
ریت کے ٹیلوں پر کھیلتے ہوئے کبھی ہمیں وقت کا احساس نہیں ہوتا تھا مگر جانے کب وہ ریت ہاتھوں سے پھسلی اب دور دور تک عمارتوں کی قطاردکھائی دیتی ہے مگر چولستان کی ریت آج بھی اپنے خشک ہوتے ٹوبوں کے ساتھ پیاسی شدید پیاسی ہے۔ اس کا غم شاید ہی کوئی سمجھ سکے کیوں کہ وہاں اب زندگی بھی اداس دکھائی دے رہی ہے۔ کہیں روٹھی ہوئی تو کہیں بے رونق ماند پڑی ہے۔
سراب کا ٹھیک مطلب آپ کو چولستان کے ان ریتلے ٹیلوں پر کھڑے ہوکر معلوم ہوگا۔ جب گرمی کی حدت میں پانی کا ایک ایک قطرہ قیمتی محسوس ہوتا ہے تب دور دور تک آپ کو پانی کا دریا دکھائی دیتا ہے، مگر وہ سب سراب ہوتا ہے یعنی بھاگو اس کی جانب تو گویا موت کو گلے لگانے کی جانب کود رہے ہو۔
چولستان میں ہر لمحہ آپ کے ذہن پر صرف ایک ہی خیال ہوتا ہے، پانی! اور اس خیال کے ساتھ بہت سے خدشات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اگر پانی نہ ملا تو کیا ہو گا؟