مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

لیلۃ القدر کی تلاش میں حکمت
اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ لیلۃ القدر کے متعلق یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ کون سی رات ہے۔ نبیؐ نے جو کچھ بتایا ہے وہ بس یہ ہے کہ وہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے۔ یعنی وہ رات اکیسویں ہوسکتی ہے بائیسویں نہیں، تئیسویں ہوسکتی ہے، چوبیسویں نہیں، وعلیٰ ہذا القیاس۔ وہ آخری عشرے کی طاق رات ہے۔ یہ فرمانے کے بعد اس بات کو بغیر تعین کے چھوڑ دیا گیا کہ وہ کون سی رات ہے۔ عام طور پر لوگ ستائیسویں رمضان کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ لیلۃ القدر ہے لیکن یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ رمضان کی ستائیسویں شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ البتہ جو بات تعین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے وہ فقط یہ ہے کہ وہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔
٭…٭…٭

قطعی تعین نہ کرنے میں حکمت
لیلۃ القدر کا قطعی طور پر تعین نہ کرنے میں یہ حکمت کارفرما نظر آتی ہے کہ آدمی ہر طاق رات میں اس اْمید پر اللہ کے حضور کھڑا ہوکر عبادت کرے کہ شاید یہی لیلۃ القدر ہو۔ لیلۃ القدر اگر اس نے پالی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ جس چیز کا طالب تھا وہ اسے مل گئی۔ اس کے بعد اس نے جو چند مزید راتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاریں تو وہ اس کی نیکی میں مزید اضافے کی موجب بنیں گی۔
٭…٭…٭

عشرہ اعتکاف
رمضان کا جو آخری عشرہ اعتکاف کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اعتکاف کا ثواب آدمی کو الگ ملے، اور چونکہ اعتکاف کی حالت میں اس کی تمام طاق راتیں عبادت میں گزریں گی، اس لیے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ اسے ان میں کبھی نہ کبھی وہ رات بھی لازماً مل جائے گی۔
٭…٭…٭

بڑی محرومی
نبی کریمؐ نے فرمایا: جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔ (احمد، نسائی) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس رات میں اللہ کی عبادت کے لیے کھڑا نہیں ہوتا تو گویا اسے قرآنِ مجید کی اس نعمت عظمیٰ کا احساس ہی نہیں ہے جو اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اْتاری تھی۔ اگر اسے اس بات کا احساس ہوتا تو وہ ضرور رات کے وقت عبادت کے لیے کھڑا ہوتا اور شکر ادا کرتا کہ اے اللہ! یہ تیرا احسانِ عظیم ہے کہ تو نے مجھے قرآن جیسی نعمت عطا فرمائی ہے۔ بے شک یہ بھی تیرا احسان ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے روٹی اور پہننے کے لیے لباس عنایت فرمایا۔ لیکن تیرا اصل احسانِ عظیم مجھ پر یہ ہے کہ تو نے مجھے ہدایت دی اور دین حق کی روشنی دکھائی۔ مجھے تاریکیوں میں بھٹکنے سے بچایا اور علمِ حقیقت کی وہ روشن شمع عطا کی جس کی وجہ سے میں دنیا میں سیدھے راستے پر چل کر اس قابل ہوا کہ تیری خوشنودی حاصل کرسکوں۔ پس جس شخص کو اس نعمت کی قدر وقیمت کا احساس ہوگا وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوگا اور اس کی بھلائی لوٹ لے جائے گا۔ لیکن جو شخص اس رات میں اداے شکر کے لیے خدا کے حضور کھڑا نہیں ہوا وہ اس کی بھلائی سے محروم رہ گیا اور درحقیقت ایک بہت بڑی بھلائی سے محروم رہ گیا۔ (کتاب الصوم)