مزید خبریں

ورزش نہ کرنے، مرغن غذا اور تمباکو نوشی سے کینسر عام ہو رہا ہے

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری)ورزش نہ کرنے، مرغن غذا اور تمباکو نوشی سے کینسر عام ہو رہا ہے‘ پان،گھٹکا، چھالیہ، ماوا، نسوار، جینز میں تبدیلی، زرعی ادویات کا استعمال، بڑھتی ہوئی آلودگی، طبی سہولتوں کی عدم دستیابی نے بھی مرض کی شدت میں اضافہ کیا‘ کینسر بڑی حد تک سماجی نا انصافی کا بھی مسئلہ ہے‘ عوام میں آگاہی کی کمی ہے ۔ان خیالات کا اظہار پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، سینئر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان میں خدمت انجام دینے والے ڈاکٹر محمد فرازعالم، جامعہ کراچی شعبہ ویڑول اسٹڈیز میں لیکچرار، جامعہ کراچی سے اردو اشتہارات کی تاریخ میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر شرف عالم اور ڈاکٹر ابو بکر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’سرطان کا مرض کیوں عام ہورہا ہے؟‘‘ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہو جس نے اس موذی مرض کینسر کے ہاتھوں اپنے کسی پیارے کا دکھ نہ اٹھایا ہو‘ یہ بیماری امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، جوان اور بوڑھے میں تمیز نہیں کر تی ہے‘ پاکستان
میں شرح اموات تمام ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے‘ شرح خواندگی میں کمی، صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی، کینسر کی تشخیص اور وجوہات کے بارے میں شعور کی کمی اس کی اہم وجوہات ہیں‘ کینسر بڑی حد تک سماجی نا انصافی کا مسئلہ ہے‘ کینسر کی عام وجوہات میں تمبا کو نوشی کا ہر شکل میں استعمال بشمول سگریٹ، پان،گھٹکا، چھالیہ، ماوا، نسوار، شراب نوشی جن سے نہ صرف پھیپھڑوں بلکہ حلق تالو بلکہ ہر قسم کے کینسر کا خد شہ بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ مُٹاپا، مضر صحت پانی اور خوراک میں ملاوٹ، صنعتی، کیمیائی، اجزا کا استعمال اور ہیپاٹائٹس بی اور سی اس کی قابل ذکر وجوہات ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ کینسر کی قابل تدارک وجوہات کی روک تھام کی جائے اس کی وجوہات ، علامات تشخیص اور علاج کے بارے میں شعور اور آگہی کو بڑھایا جائے‘ کینسر کے بارے میں آگاہی کو نصاب کا حصہ بنا یا جائے‘ کینسر دنیا بھر میں ہر 6 اموات میں سے ایک کی وجہ ہے جبکہ یہ بیماری بہت حدتک قابل علاج بھی ہے اور مناسب احتیاط اور پرہیز سے نہ صرف اس سے بچا جاسکتا ہے بلکہ اس کا جڑ سے خاتمہ بھی ہوسکتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد فراز عالم نے کہاکہ سرطان (کینسر) کے مرض کے عام ہونے کی بنیادی وجوہات جینز میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں‘غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلا ٹوکسن، تابکاری اثرات، الیکٹرو میگنیٹک ویوز، وائرل انفیکشنز، فضائی، آبی اور غذائی آلودگی، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ، زہریلا دھواں اور زرعی ادویات شامل ہیں‘ اس کے علاوہ بھی چند وجوہات ایسی ہیں جو خاص حالتوں میں کینسر کی وجہ بنتی ہیں مثلاً سیمنٹ انڈسٹری سے متعلق لوگوں کو (Asbestos) نامی کیمیکل سے کینسر ہو سکتا ہے۔ خواتین میں سن یاس روکنے کے لیے ہارمون تھراپی (HRT) سے بھی کینسر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کینسر کی ایک وجہ سورج کی تابکار شعاعیں ہیں جن سے وہ لوگ جو دھوپ میں زیادہ بیٹھتے ہوں خصوصاً سفید جلد والوں کو جلد کا کینسر ہوسکتا ہے‘ کینسر کی مختلف اقسام ہیں‘ اگر وطن عزیز پاکستان کی بات کی جائے تو بریسٹ کینسر، منہ، ہونٹ اور حلق کا کینسر یہاں خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسر چھاتی کا کینسر، منہ اور ہونٹ کے کینسر، جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر، بڑی آنت کا کینسر، پروسٹیٹ کینسر، برین کینسر، مثانہ کا کینسر، ہوچکنز (Hodgkins) اور نان ہوچکنز کینسر، جلد کا کینسر، اووری کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، کولون کینسر ہے‘ کینسر کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کینسر کس عضو میں ہے‘ عام طور پر کینسر کی علامات میں جسم میں کسی بھی قسم کے خلیات کا تیزی سے بڑھنا ہے جو کہ رسولی کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں‘ اس کے علاوہ کینسر کی علامات میں بغیر کسی ظاہری وجہ کے وزن کا گھٹنا اور بخار کا رہنا، قے اور فضلے میں خون کا آنا، جسم کے کسی بھی حصے میں غدود کا بڑھنا وغیرہ شامل ہے‘ اگر جسم کے بیرونی حصوں میں کینسر زدہ خلیات ہوں تو عموماً جلد تشخیص ہو جاتی ہے لیکن اگر اندرونی طور پر کینسر کی رسولی ہو تو دیر سے تشخیص ہوتی ہے۔ عام طور پر خون کا ٹیسٹ (CBC)، پروسٹیٹ کینسر کے لیے (PSA)، جگر کے کینسر کے لیے الفا فیٹو پروٹین، (CEA)، انڈو اسکوپی، ایکسرے، الٹراسائونڈ، سی ٹی اور ایم آر آئی وغیرہ کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کینسر کی تشخیص کے لیے بایوپسی (Biopsy) ایک بنیادی اور انتہائی اہم ٹیسٹ ہے‘ کینسر سے بچائو کے لیے سب سے اہم اصول فطری، متوازن اور سادہ زندگی گزارنا ہے اور غیر فطری طرزِ زندگی سے بچنا ہے‘ مرغن غذائوں کے زیادہ استعمال سے بچنا، ورزش کرنا، ہر طرح کا نشہ خصوصاً پان، چھالیہ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے بچنا اور خصوصاً جگر کے کینسر سے بچائو کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے شامل ہیں۔ڈاکٹر شرف عالم نے کہا کہ کینسر کا علاج دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے آج بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے‘ اگرچہ طبی ماہرین ابھی تک اس مرض کا کوئی تسلی بخش علاج تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں لیکن کچھ ایسی احتیاطی تدابیر ضرور ہیں جن پر عمل کیا جائے تو کافی حد تک اس مرض سے خلاصی مل سکتی ہے۔ میں آپ کو ایک ایسے پھل کے بارے میں بتاتا ہوں، جس کے اندر قدرت نے اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھی ہے‘کینسر کے علاج کے لیے برازیل میں پایا جانے والا پھل گریویولا بہت مفید ہے‘ اسے Soursop بھی کہتے ہیں‘ یہ کٹھل سے ملتا جلتا پھل ہے لیکن سائز میں چھوٹا ہے اس کے پتوں اور ڈنٹھل وغیرہ کو پانی میں ابال کر قہوہ بنا کر استعمال کیا جائے تو کینسر کے مریض کو کافی افاقہ ہوتا ہے‘ اگر ہم اپنے جینے کا انداز تبدیل کرلیں تو بھی سرطان کے مریضوں میں 40 فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے۔ درجہ ذیل 5 عوامل یہ ہیں، جن پر توجّہ دے کر سرطان کے مرض پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے‘ سگریٹ نوشی اور تمباکو کا استعمال ختم کردیا جائے‘کسی بھی قسم کی نشے کی عادات کو ترک کیا جائے‘ خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال کیا جائے‘ وزن کی زیادتی اور مٹاپے پر قابو پایا جائے‘ باقاعدہ ورزش کا آغاز کیا جائے‘ صحت مند طرز زندگی کو اپنایا جائے‘ غصّے، اشتعال، حسد، بغض، کینے اور دیگر منفی جذبات سے گریز کیا جائے۔ڈاکٹر ابو بکر نے کہا کہ سرطان کی تشخیص صرف علامات کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی ہے کیوں کہ زیادہ تر علامات بڑی عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں اور ہم اکثر و بیش تر ان کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جسم کے کسی بھی حصّے میں ورم یا گلٹی کا نمودار ہونا، کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون آنا، سانس لینے میں مشکل، نگلنے میں دشواری، وزن میں کمی، تھکن، جسم میں درد، اسہال یا قبض، مقعد کے راستے خون آنا، جسم پر کسی نئے تِل کا نمودار ہونا یا پرانے تل میں تبدیلی واقع ہونا، زخم اور السر کا ٹھیک نہ ہونا، خواتین کے سینے میں گلٹی کا پیدا ہونا، بھوک نہ لگنا، رات کو پسینے آنا، پیشاب کرنے کی عادت میں تبدیلی ہونا وغیرہ وغیرہ۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ علامات عمومی نوعیت کی ہیں، مگر ان کی مسلسل موجودگی تقاضا کرتی ہے کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 2 کروڑ کے قریب سرطان کے مریض پائے جاتے ہیں۔ ان میں 55 فیصد کے لگ بھگ مَرد اور 45 فی صد خواتین ہیں۔ ڈاکٹر ابو بکر نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جاری کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے اور پھیپھڑوں کا کینسر سرطان کی سب سے زیادہ تشخیص ہونے والی قسم ہے‘ 2022 میں کینسر کے نئے کیسز کی تعداد 2 کروڑ جبکہ اموات ایک کروڑ کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ 2022ء میں دنیا بھر میں کینسر کے 12.4 فیصد کیسز پھیپھڑوں کے سرطان کے تھے‘ بریسٹ کینسر (11.6 فیصد) جبکہ colon کینسر (9.6 فیصد) رہا۔ رپور ٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کینسر کی مجموعی اموات میں سے 18.7 فیصد اموات پھیپھڑوں کے کینسر سے ہوئیں‘ colon کینسر سے اموات (9.3 فیصد)، جگر کینسر (7.8 فیصد) اور بریسٹ کینسر سے اموات (6.9 فیصد) رہیں۔