مزید خبریں

حصول پاکستان کا مقصد اسلامی حکومت کا قیام تھا جو پورا نہیں ہوا

کراچی (رپورٹ: خالدمخدومی ) حصول پاکستان کا مقصد اسلامی حکومت کا قیام تھا جو پورا نہیں ہوا‘ پاکستان کی تشکیل نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوسکی‘ جاگیرداروں اور نوکر شاہی نے عوام کے حق حاکمیت پر قبضہ کر لیا‘ آئینی حقوق اور ضمانتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی‘ اسلام کا نظام حکمرانی عوام کی رائے سے چلتا ہے‘ تحریک آزادی کی روشنی میں ملکی چیلنجز سے نمٹا جائے۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ بن رضی، ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین احمد اور مضمون نگار انوار حیدر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا پاکستان کی تشکیل نظریاتی بنیادوں پر ہوسکی ہے؟‘‘ ڈاکٹر اسامہ بن رضی نے کہا کہ نظریاتی طور پر قیام پاکستان کا مقصد اس ملک میں کلمہ طیبہ کی حکمرانی قائم کرنا تھا‘ یہی تحریک پاکستان کا سلوگن تھا کہ ہمیں انگریزوں کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمرانی چاہیے اور اس کے لیے ہمیں الگ خطہ زمین چاہیے ورنہ مذہبی آزادی تو بھارت میں بھی لوگوں کو حاصل تھی‘ اصل مسئلہ یہاں پر اسلام کی حکومت کا قیام تھا لیکن پاکستان کی تاریخ کی سب سے بھیانک واردات یہ ہوئی کہ پاکستان کی تشکیل اس کی نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوئی‘ انگریزوں کے وارث جاگیرداروں اور نوکر شاہی نے عوام کے حق حاکمیت پر قبضہ کر لیا ‘ ان کا یہ قبضہ آج تک یہاں برقرار ہے کیونکہ اسلام کا نظام حکمرانی عوام کی رائے سے چلتا ہے اور عوام کے پاس حق حاکمیت ہوتا ہے اور ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ملک کا نظام چلایا جاتا ہے‘ چلایا جانا تھا یہی آئین پاکستان میں درج ہے لیکن پاکستان آج ایک سرزمین بے آئین ہے یہاں جنگل کا قانون ہے جہاں مخصوص طاقتور ٹولے کی اجارہ داری ہے جو اقلیت میں ہے ‘ اس طرح قیام پاکستان کے مقاصد حاصل نہیں ہو سکے لیکناب عوام میں شعور آچکا ہے‘ اس وجہ سے عوام حالیہ عام انتخابات میں پرچی کی طاقت لے کر نکلے تھے لیکن نتائج کو طاقت کے ذریعے تبدیل کیا گیا‘ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اور اس کے ذریعے درحقیقت قیام پاکستان کے مقاصد اور پاکستان کی ترقی کے راستے کو روکا گیا۔ وجیہ الدین احمد نے کہا کہ قرار داد پاکستان کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ ملک تو حاصل کرلیا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن مقاصد کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا اور تسلیم کروایا گیا‘ اس کے قیام کے پیچھے نظریہ کیا تھا‘ اس پر کس حد تک عمل ہوا اور کس قدر پامال کیا گیا۔ آئین میں دی گئی تمام ضمانتیں، حقوق، صرف تحریر کردہ ہی رہ گئے جمہوری انداز سے بنایا گیا ملک جمہوریت کے لیے تڑپ رہا ہے‘ انسانی حقوق صرف اس طاقتور کو حاصل ہیں جو ریاست کو گالی دے سکتا ہو‘ قانون شکنی کرسکتا ہو، آئین کی بے حرمتی کرتا ہو اور پارلیمنٹ کو بے توقیر کرکے ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کرسکتا ہو‘ یہ فرد ہی نہیں گروہ بھی کر سکتا ہے اور کرتے بھی رہتے ہیں‘ انگریز کے بابوئوں کے پاس اب بھی 23 کروڑ عوام آزادی کے طالب ہیں‘ ہم سماج، سیاست، معیشت، تعلیم اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے آزاد نہیں ہیں۔ ہم اسلامی روایات یا آزاد ریاست کے تقاضے پورے نہیں کرسکے ‘ 15 اگست کو ہم نے 14 اگست کے ساتھ تبدیل کرلیا۔ 24 مارچ کو بھی ایک دن پہلے23 مارچ میں تبدیل کرلیا مگر ہم تبدیل نہیںہوئے‘ نہ تبدیل ہونے کو تیار ہیں‘ ہمیں آزادی چاہیے، مگر آزادی تو قوموں کو حاصل ہوتی ہے‘ کیا ہم ایک قوم بن چکے ہیں؟ یا ابھی اس کے مراحل سے گزرنا باقی ہے؟ میرے نزدیک ہم ایک ہجوم ہیں جس کو اپنی سمت کا اندازہ نہیں‘ اگر مستقبل کی طرف نظر اس خیال سے ڈالوں کہ صرف اچھائی ڈھونڈ کر لانی ہے تو بھی مجھے خیر وبرکت، خوشحالی، تحمل، بر داشت، برد باری، تعلیم، فہم، ادراک، دانش مندی اور دور اندیشی کہیں نظر نہیں آتی‘ آزادی کے فوراً بعد ہم نے دنیا میں نعرہ بلند کیا کہ جو ہمیں امداد اور احساس تحفظ دے گا ہم اس کے ساتھ ہوں گے‘ ہمارے نصف بچے اسکول نہیں جاتے‘ کھانے کا تیل، دالیں، گندم اور دیگر اشیا درآمد ہوتی ہیں اور گھر چلانے کے لیے قرض لینے کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں آتا‘ ہمیں من حیث القوم اپنی منزل کا تعین کرنا ہوگا ۔ انوار حیدر نے کہا کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو وجود میں آیا لیکن مسلمانانِ ہند نے اپنے لیے اس آزاد اور جداگانہ مملکت کے حصول اور اس کے خدوخال کا اَٹل فیصلہ کئی سال پہلے 23 مارچ 1940ء کو ہی کرلیا تھا جس کے پیچھے 2 قومی نظریہ اور ایک آزاد اسلامی مملکت کا تصور موجود تھا اس روز کو یوم پاکستان کے طور پر منانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان جن چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے انہیں قیام پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں طے کرنے کا اہتمام کیا جائے‘ قرارداد پاکستان کی روشنی میں برصغیر کے کچلے اور افلاس زدہ مسلمانوں کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا تھا۔ بدقسمتی سے آج ہم بحیثیت قوم ترقی کا فریضہ فراموش کر کے ذاتی اغراض کے اسیر ہو گئے ہیں‘ 23 مارچ کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اجتماعی طور پر پاکستان میں ان تصورات اور روایات کو فروغ دینا ہوگا جو اہل پاکستان کو دنیا میں آزاد و خود مختار قوم کے طور پر اْبھاریں‘ 23 مارچ 1940ء کے دن متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے پہلی بار عظیم الشان اجتماع میں اپنی سیاست اور منزل کا تعین کرتے ہوئے ان علاقوں پر مشتمل الگ وطن کا مطالبہ کیا جہاں مسلمان اکثریت میں تھے‘ منٹو پارک کے وسیع و عریض میدان میں جمع مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شیر بنگال اے کے فضل حق کی قرار داد کو اپنے دل کی آواز تسلیم کیا‘ پورے ہندوستان سے آئے نمائندوں نے اس کی توثیق کی۔ واقعہ صرف اتنا نہیں پس منظر میں صدیوں کی محرومیاں اور اپنی شناخت کا خواب تھا۔ یہ ایک طویل سفر ہے جس کی ابتدا شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی دینی تحریک‘ سر سید احمد خان کی علمی و سماجی تحریک اور علامہ اقبال کی فکری رہنمائی سے ہوئی جب کہ کامیابی قائد اعظم محمد علی جناح کی پرعزم قیادت میں حاصل ہوئی‘ اس قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا۔ اس کی تائید میں خان اورنگ زیب خان، حاجی عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابرین نے خیالات کا اظہار کیا۔ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں اس قرارداد کو پہلی بار قرارداد پاکستان کہا۔ یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی بنیاد بن گئی اور صرف 7 برس کے عرصے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کرہ ارض پرحقیقت بن کر سامنے آگیا۔ 23 مارچ 1940ء کو یہ مایوسی ختم ہو گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے، یعنی یہ 2 قوموں کا مسئلہ ہے‘ ہندوئوں اور مسلمانوں میں فرق اتنا واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہوگا‘ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔ دوسرے دن انہی خطوط پر بنگال کے وزیراعظم مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا، جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں کے طور پر حد بندی نہ ہو۔ قائد اعظم محمد علی جناح جانتے تھے کہ تحریک پاکستان ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تحریک ہے‘ بادشاہوں کے منظور نظر، انگریز استعمار کے وفادار جاگیردار، زمیندار اور سرمایہ دار مسلمان رہنما قوم کو سماجی سطح پر منظم کرنے کے حامی رہے لیکن مسلمان آزادانہ سیاسی کردار ادا کریں یہ اس مراعات یافتہ طبقے کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس زمانے کے الیکٹ ایبلز قوم کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ یہ 23 مارچ کا دن تھا جب قرار داد لاہور پیش ہوئی اور منظور کی گئی تو یہی قرار داد پاکستان کہلائی۔ قائد اعظم نے اس روز کے بعد عام لوگوں سے رابطے تیز کیے۔ یہی وجہ تھی کہ 3 سال پہلے مردہ سمجھی جانے والی مسلم لیگ میں جان پڑ گئی اور اگلے انتخابات میں اسے اس قدر نشستیں ملیں کہ کانگریس کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی۔ مسلم لیگ مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔