مزید خبریں

ہماری قوم نے مادہ پرستی کی وجہ سے اقبال کے افکار سے استفادہ نہیں کیا

کراچی (رپورٹ: خالدمخدومی) ہماری قوم نے مادہ پرستی کی وجہ سے اقبال کے افکار سے استفادہ نہیں کیا‘ تعلیم کا مقصد پیٹ پالنا رہ گیا ‘ صرف ٹیکنالوجی پر توجہ ہے‘ طلبہ فکر اقبال کوسمجھنے سے یکسر قاصر ہیں‘ قوم قائداعظم ، علامہ اقبال کااحترام کرتی ہے لیکن افکار پرعمل نہیں کرتی‘ ہماری سیاسی، مذہبی، معاشرتی دگرگوں حالت اقبال فراموشی ہی کا نتیجہ ہے‘ ارشادات ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور اور روزنامہ جنگ کے مدیر ثروت جمال اصمعی، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور کالم نگار ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر نے جسارت کے اس سوال کا جواب کیا کہ ’’بحیثیت قوم ہم فکر اقبال سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟‘‘ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ آج ہمارے معاشرے میں اقبال کی فکر سے استفادہ نہ کیے جانے کی وجہ خود اقبال ہی ان الفاظ میں بتا گئے ہیں کہ ’’عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش‘‘ مغرب کے مادہ پرست سرمایہ دارنہ نظام میں آج کی دنیا کے ارفع مقاصد اور اخلاقی اقدار کے بارے میں سوچنے اور جاننے کا نہ کسی کے پاس وقت ہے نہ اس کی ضرورت کا احساس‘ غریب کی تمام توانائیاں 2 وقت کی روٹی کے حصول کی جدوجہد ہی نچوڑ لی جاتی ہیں اور امیر اپنی دولت کو دن دگنی رات چگنی کرنے کی فکر سے کبھی آزاد نہیں ہوتا‘ خواہ اس کے پاس وسائل کی کتنی فراوانی ہو‘ سرمایہ دارانہ نظام نے تعلیم کا مقصد کردار سازی کے بجائے محض معاشی ضروریات کی تکمیل بنا دیا ہے‘ پچھلے عشروں میں برصغیر کے مسلمانوں کی فکری رہنماؤں میں حالی، شبلی، اقبال جیسے زعما شامل تھے‘ ہماری نانیاں، دادیاں تک گھروں میں سعدی شیرازی کی گلستان، بوستان اور مولانا رومی کی مثنوی پڑھتی اور سمجھتی تھی‘ حالی کی مسدس اور حفیظ کے شاہنامہ اسلام کے بہت سے حصے ہمارے بزرگوں کو زبانی یاد ہوتے تھے‘ یہ علم دوست معاشرہ اقبال کی بلند فکر کو سمجھنے کا اہل تھا لہٰذا ہندوستان ہی نہیں‘ ایران اور ترکی تک کے مسلمانوں میں اقبال کے کلام نے زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی تھی‘ پاکستان میں بھی ابتدائی عشروں تک اسکولوں میں ذریعہ تعلیم اردو ہوا کرتا تھا جبکہ سیکنڈری جماعتوں میں فارسی یا عربی میں سے کسی ایک کی زبان کی تعلیم لازمی تھی‘ اس لیے اس وقت اقبال اور دیگر شاعروں اور ادبیوں کو سمجھنے کی صلاحیت آج کے طالب علموں کے مقابلے میں بہت بہتر ہوتی تھی لیکن اب تعلیم کا مقصد صرف پیٹ پالنا رہ گیا ہے‘ اس لیے سارا زور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر ہے، اس کے نتیجے میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی خاطر ٹیکنیکی ماہرین کی شکل میں انسانی ربورٹ تیار ہو رہے ہیں جو فکر اقبال جیسے الہامی کلام کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں‘ اقبال نے ہم سے کہا تھا کہ ’’دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت فیصلہ تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم!‘‘ اور ہم نے اجتماعی حیثیت میں شکم کو اپنا مطلوب و مقصود قرار دے کر فکر و اقبال سے استفادہ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا کہ علامہ اقبال صرف پاکستان کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے فکری رہنما تھے جنہوں نے غفلت میں مبتلا مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر ان میں بیداری کی لہر پیدا کی‘ ان کی اصلاحی کوششوں کا دائرہ لامحدود ہے‘ اقبال کے کلام کی آفاقیت کی دنیا معترف و قائل ہے اور اس پر تحقیق کر رہی ہے‘ اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرا کے اپنے لوگوں کو اس سے روشناس کرا رہی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم اقبال شناسی کے بجائے اقبال فراموشی کی تاریخی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ آج ہماری سیاسی، مذہبی، معاشرتی، معاشی و اخلاقی دگرگوں حالت اقبال فراموشی ہی کا نتیجہ ہے جن کے مطابق دانشوروں کی رائے ہے کہ انگریز اقبال کو سمجھ جاتا تو وہ ایک دن بھی قید سے آزاد نہ رہتے اور اگر مسلمان انہیں سمجھ جاتے تو ایک دن بھی غلام نہ رہتے۔ اقبال کو فراموش کرکے ہم قوم کو بے عملی، بے حسی، بے سمتی اور غفلت و خواب زدگی کی طرف لے جا رہے ہیں‘ وہ ایک باعمل سوز جگر اور امت کا درد رکھنے والے مصلح رہبر اور فکری رہنما تھے جن کی فکر آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے‘ ان کے ارشادات ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ہم اقبال کے فکری وارث و پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ان کے اشعار کو بھی تقریروں، تحریروں، نجی محفلوں اور عام نشستوں میں خوب استعمال کرتے رہے ہیں مثلاً پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانہ سے، وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، ساقی یا ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے لیکن فکر اقبال تو دور کی بات ہے، ہم ان شعروں کے دوسرے مصروعوں سے بھی نا آشنا ہیں۔ اقبال فراموشی ایک سنگین قومی غلطی ہے‘ انہیں فراموش اور نظر انداز کرنے کے لیے ایک منصوبے کے تحت ان کی زندگی کے خدوخال اور دین کے ساتھ ان کی قلبی اور جذباتی وابستگی سے متعلق ابہام اور غلط فہمیاں پیدا کرکے مصیبت زدہ اور درماندہ قوم کو اس مسیحا کی سچائی سے محروم کردیا گیا ہے۔ شاید اقبال کے اسی شعر پر عمل کیا جا رہا ہے کہ ’’اقبال کے نفس سے لالے کی آگ تیز ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو‘‘ اقبال نے جرمن فلسفیوں کی فکر سے بھی استفادہ حاصل کیا بعض کی فکر سے متاثر بھی ہوئے لیکن ان کی فکر کی بنیاد کا سب سے بڑا ماخذ قرآن پاک ہے‘ ان کے نزدیک اس سے بڑا صحیفہ فکر و دانش اور رہنمائی کوئی اور نہیں ہے اسی لیے ان کی فکر قرآن مجید سے متاثر تھی‘ وہ مذہب، اقتصادیات ، سیاسیات، تاریخ و فلسفہ کا گہرا علم اور صحیح ادراک رکھتے تھے۔ تاریخ کی اہمیت سے متعلق ان کا خیال تھا کہ مستقبل کی صحیح تعمیر کرنے کے لیے اپنی تاریخ اور ماضی سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے‘ انہوں نے اپنے زمانہ تدریس میں تاریخ کا مضمون پڑھانے کا انتخاب بھی شاید اسی سوچ کے تحت کیا ہوگا۔ اقبال کی تحریر کردہ تاریخ ہند متحدہ ہندوستان میں اسکول میں پڑھائی جاتی تھی۔ اقبال کی اسلاف اور اقتدار سے کمزور ہوتے ہوئے رشتے کی تڑپ اس شعر میں محسوس ہوتی ہے۔ ’’گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراثپائی تھی، ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘ اقبال کے نزدیک انسان تاریخ کے آئینے میں خود کو پہچانتا ہے اور اسی کے ربط سے اپنا نصب العین اختیار کرکے اس میں کامیابی و کامرانی حاصل کرتا ہے۔ لبنیٰ ظہیر نے کہاکہ بحیثیت قوم ہمارا ایک المیہ ہے‘ ہم کچھ شخصیات کو علامتوں کی شکل دے کر انہیں اپنی عقیدت و محبت کا مرکز بنا لیتے ہیں‘ ان کا احترام بھی کرتے ہیں، انہیں اپنا ہیرو بھی مانتے ہیں، ان کی تصاویر بھی اپنے دفاتر میں لگاتے ہیں لیکن ان کے افکار، ان کے نظریات، ان کی تعلیمات اور ان کے ارشادات سے کم ہی مستفید ہوتے ہیں‘ قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسی شخصیات، ان کے کردار، ان کی سیاسی فکر کو ایک دنیا سراہتی اور خراج پیش کرتی لیکن عملاً ان کے اصول اور نظریات ہماری سیاسی زندگی سے خارج ہیں۔ علامہ اقبال نے خود اپنے بارے میں کہا تھا ’’اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو، لاہور سے تاخاک بخارا و سمر قند‘‘ بلاشبہ اقبال نے ہر اس قوم کو ایک ولولہ تازہ دیا جو تھک ہار چکی تھی اور جو غلامی کا شکار ہو چکی تھی۔ علامہ اقبال کی شاعری نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اس وقت بیداری اور جدوجہد کا درس دیا، جب ہر طرف مایوسی اور بے یقینی کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ انہوں نے نا امیدی کا شکار قوم کو بتایا کہ کس طرح وہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر مسلم نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے، وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری قوم نے انہیں علامہ تو تسلیم کرلیا مگر ان کے اصلاحی پند و نصائح کو شرفِ قبولیت بخشنے کی کبھی زحمت نہیں اٹھائی، آج بھی علامہ صاحب کی کتابیں کتب خانوں کی الماریوں اور چیدہ چیدہ گھروں کے اند ر موجود طاقوں تک محدود ہیں‘ ہماری قوم نے اپنے محسن شاعر کے افکار سے استفادہ نہیں کیا، اس کی بنیادی وجہ معاشرے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مادہ پرستی ہے‘ وہ محسن جس نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی امت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے ان تھک محنت اور کوشش کی‘ مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی کی یاد دلاکر جگاتے رہے‘ علامہ صاحب نے ایام جاہلیت کی وحشیانہ رسموں کا قلع قمع کرنے کی طرف رغبت دلائی‘ اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی، حالاتِ حاضرہ کی عبرتناک خاکہ نگاری کرتے ہوئے مغرب کی سامراجیت اور وحشیانہ نظام کے مظالم، جمہوریت کی پھٹکار کے اثرات، لادینیت اور فرقہ واریت کے محرکات کی نشاندہی کی‘ اقبال کی اقبالیات پر وقت کے کم فہم علمی حلقوں نے طعن و تشنیع کی، شکوہ لکھنے پر تو بعض کی طرف سے اقبال پر بھرپور شکوہ کیا گیا جس کے جواب میں حضرت اقبال نے جواب شکوہ تحریر کیا‘ اقبال کا انداز کلام بہت پیچیدہ مگر بہت زیادہ معنی خیز ہے۔ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کو اصل کی طرف پلٹنے کی طرف دعوت دی، قوم کو توحید خالص اپنانے اور شرک کی غلاظت سے دور رہنے کی وصیت کی‘ اتباع سنت اختیار کرنے اور شخصی تقلید سے اجتناب پر زور دیا۔’’ ہو جن کو نام قبروں کی تجارت کرکے،کیا نہ بیچو گے اگر مل جائیں صنم پتھر کے‘‘ امت مسلمہ کی وحدت کے لیے اقبال قوم سے مخاطب ہوئے ’’ یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو، تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو‘‘ قانون کے معاملے میں عموماً اور عائلی معاملات میں خصوصاً ملّت نے جامد تقلید کی جو روش اپنا رکھی تھی، اقبال کا دل اس کی وجہ سے غمگین تھا، کہیں اقبال نے نگاہ ہمیشہ سوئے کوفہ و بغداد رکھنے سے انکار کرتے ہوئے انتباہ دیا کہ ’’آئین نو سے ڈرنا اور طرز کہن پہ اڑنا‘ منرل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں‘‘ بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز وغیرہ کے صفحات پر بھی قوم کے معاشرتی امراض کے علاج کے لیے پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے نسخہ کیمیا کے مطابق دوائیں تجویز کیں لیکن قوم کو اپنی بیماریوں کا علاج منظور کہاں تھا، اس نے تو الٹے وقت کے اس حکیم پر ہی ملامت کی اور کفر تک کے فتوے صادر کیے، مگر اقبال ڈٹے رہے، اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے، بعض تو آج تک اقبال کا پیچھا نہیں چھوڑتے، طعن و تشنیع کے تیر برساتے رہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کی تنقید و تنقیص کے مستحق تو ہم بھی ہیں جو اقبال کے فرمودات یاد کرکے ان پر مہر ثبت تصدیق کرتے رہتے ہیں، ناقدین جانتے ہیں شورش کاشمیری، علامہ احسان الٰہی ظہیر سے لے کر آج تک باکثرت مولوی حضرات ومفتیان کلامِ اقبال سنا کر ناظرین سے داد وصول کرتے ہیں، قارئین کرام! اقبال نے اپنے وقت میں ہمارے معاشرے کی سماجی زبوں حالی اور قانونی پسماندگی کا جو نقشہ کھینچا تھا آج بھی ہمارا معاشرہ صد فیصد ویسا کا ویسا ہے، قدامت پسندی اورذہنی پسماندگی فرقہ واریت، انتہاپسندی، جہالت، عدم برداشت اسی حالت میں موجود ہے، اگر ہم بحیثیت قوم صحیح معنوں میں ترقی کرنا چاہتے ہیں توضروری ہے کہ فکر اقبال کا مطالعہ کرکے اسے نسل نو تک صحیح معنوں میں منتقل کیا جائے، ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اقبال جدید اسلامی فکر کے ترجمان تھے، ہیں اور رہیں گے‘ علامہ کی صرف چند بنیادی تعلیمات کے آئینے میں ہم اپنی شکل دیکھیں تو افسوس ہی ہو گا۔ مثال کے طور پر دیکھیں تو ہمارا معاشرہ آج بھی طرح طرح کے تعصبات میں گھرا ہوا ہے۔ علامہ نے تو کہا تھا کہ حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک،کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک ‘‘ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ 70 برس بعد بھی ہم نے رنگ، نسل، قومیت، مسلک، زبان، علاقائیت اور قومیت کی بنیاد پر دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں‘ ہماری نوجوان نسل اپنے نفسوں کی اتنی غلام بن گئی ہے کہ اس نے اپنی خودی، روحانی طاقت کو اپنی نفسانی خواہشات کے نیچے روند ڈالا ہے کہ وہ زخمی ہوگئی ہے اور اپنی بے مقصد زندگی پر روتی ہے کہ کب اس کو اس جسم نافرمان سے رہائی ملے اور وہ اس تن مردہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ علامہ اقبال کو ایسے ہی حکیم الامت کا خطاب نہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر تو ہمارے ظاہری اعضا کا علاج کرتا ہے۔ علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعے ہمارا روحانی علاج کرتے ہیں‘ روح کی بیماریوں کو دور کرتے ہیں لیکن افسوس! امت مسلمہ کے لیے انہوں نے جو لکھا ان کے پاس تو ان کو پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے‘ نئی نسل کبھی تو مغرب کے علوم چھانتی ہے تو کبھی ان کی بوسیدہ تہذیب کی تقلید میں لگ جاتی ہے جن کی کوئی تہذیب ہی نہیں‘ مسلمان اپنی الہامی تہذیب کو چھوڑ رہے ہیں اور دربدر بھٹک رہے ہیں۔ اے امت مسلمہ، اے نوجوانو! جاگو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ ہمیں اقبال کے خودی کے فلسفہ کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا یہی ہماری کامیابی کا ضامن ہوگا۔