مزید خبریں

بلند ترین شرح سود نے معیشت کوجھنجھوڑ دیا ہے

ملک کی معیشت کو تماشہ بنا دیا گیا ہے 26جون 2023ء سے ملک میں ایک بلند ترین سطح22فیصد کی شرح نافذ ہے جس نے پوری معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کے جائزے کے نتائج سے قبل شرح سود میں کمی کرنا ناممکن ہے۔ لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس سے کاروباری برادری کو مایوسی ہوئی ہے جو اس میں کمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ عوام کو اس صورتحا ل پریشانی کا سامنا ہے ۔ شرح سود میں اضافہ کر نے سے صنعتی ترقی ناممکن ہو چکی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے عوام کو روزگار کی تلاش میں دشواریوں کا سامنا ہے ۔شرح سود میں اضافے سے بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ جاری اور نئے روزگار کے مواقع میں کمی ہو رہی ہے ۔ معاشی معاملات کچھ بہتر ہو رہے ہیں اور اگلے ماہ مہنگائی بھی 20 فیصد تک ہوجانے کا امکان ہے اس لئے اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی اپنے اگلے اجلاس شرح سود میں کمی پر غور کر سکتی ہے۔عوام ترقیاتی بجٹ کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ شرح سود میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہو نا شروع ہو جاتا جبکہ روپے کی قدر میںکمی ہو جاتی۔ اس سے درامدات بڑھ جاتیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہونا شروع ہو جاتے جو اس وقت تقریباً تیرہ ارب ڈالر ہیں جوبمشکل دو ماہ کی درامدات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کاموقف یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود22فیصدپر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے۔ زری پالیسی کمیٹی(ایم پی سی) نے پالیسی ریٹ کو میں اضافے بجائے بڑھانے برقرار رکھنے کے فیصلے تک پہنچنے کے حوالے سے کمیٹی نے نوٹ کیا کہ گذشتہ توقعات کے مطابق مہنگائی مالی سال 24ء کی دوسری ششماہی میں واضح طور پر کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ شرح سود میں کمی نہ کر نے کی وجوہات تاہم کمیٹی نے یہ بتایا کہ اس نوٹ کیا کہ فروری میں تیزی سے کمی کے باوجود مہنگائی کی سطح بلند ہے اور اس کا منظرنامہ مہنگائی کی بلند توقعات کی بنا پر خطرات کی زد میں ہے۔ اس بنا پر محتاط طرز ِعمل درکار ہے اور ستمبر 2025ء￿ تک مہنگائی کو 5-7فیصد کی حدود میں لانے کے لیے موجودہ زری پالیسی موقف قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ تجزیہ بھی بدستور ہدفی مالیاتی یکجائی (fiscal consolidation)اور منصوبے کے مطابق بیرونی رقوم کی بروقت آمد سے مشروط ہے۔زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ عمومی مہنگائی میں وسیع البنیاد اور خاصی حد تک سال بسال نمایاں کمی درج کی گئی، جو جنوری میں 28.3 فیصد سے کم ہوکر فروری کے دوران 23.1 فیصد ہوگئی۔ اگرچہ غذائی مہنگائی میں کمی کا رجحان جاری رہا تاہم قوزی مہنگائی، جو برقرار رہی تھی، گھٹ کر فروری میں 18.1 فیصد رہ گئی جبکہ جنوری میں یہ 20.5 فیصد تھی۔ مہنگائی میں بہتری بڑی حد تک تخفیفی زری پالیسی، مالیاتییکجائی، خوراک کی بہتر رسد، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اعتدال اور سازگار اساسی اثر کے مشترکہ اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔

زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اگرچہ فروری میں توانائی کی مہنگائی میں بھی سال بسال بنیاد پر کمی واقع ہوئی ہے تاہم توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردّوبدل براہ راست اور بالواسطہ طور پر مہنگائی پر اثرانداز ہورہا ہے۔ اس کے صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کی مہنگائی کی توقعات میں مطلوبہ مستقل کمی کے لیے مضمرات ہیں۔ ا?گے چل کر سرکاری قیمتوں میں مزید ردوبدل یا مالیاتی اقدامات جو قیمتوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں، قریب مدتی اور وسط مدتی مہنگائی کے منظرنامے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ان خطرات کے پیشِ نظر کمیٹی نے کا تجزیہ تھا کہ اس مرحلے پر زری پالیسی کے موجودہ موقف کو برقرار رکھنا محتاط طرز عمل ہے۔زری پالیسی کمیٹی نے یہ بات نوٹ کی کہ کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے ہونے والی کچھ اہم پیش رفتوں کے میکرواکنامک منظرنامے کے لیے مضمرات ہیں۔ اوّل، تازہ ترین اعدادوشمار زرعی پیداوار کی بحالی کی بدولت معاشی سرگرمی میںمسلسل معتدل اضافے کے عکاس ہیں۔دوم، بیرونی جاری کھاتے کا توازن توقع سے زیادہ بہتر ثابت ہو رہا ہے ، جس سے مالی رقوم کی کمزور آمد کے باوجود زرمبادلہ کے بفرز کو برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے۔ سوم، دسمبر سے کاروباری اداروں کی مہنگائی کی توقعات نے بتدریج اضافے کو ظاہر کیا ہے، جبکہ مارچ میں صارفین کی توقعات بھی بڑھی ہیں۔ آخر میں ، عالمی محاذ پر اگرچہ اجناس کی قیمتوں کا وسیع تر رجحان خوش آئند رہا ہے، تاہم تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کا ایک جزوی سبب بحیرئہ حمر میں جاری کشیدگی ہے۔

مزید برآں، مہنگائی کے امکانات کے متعلق بے یقینی کے حالات میں ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اہم مرکزی بینکوں نے حالیہ اجلاسوں کے دوران محتاط زری پالیسی موقف کو برقرار رکھا ہے۔موصول شدہ ڈیٹا سے مالی سال24ء میں معاشی سرگرمی میں معتدل بحالی کی زری پالیسی کمیٹی کی ان توقعات کو تقویت ملتی ہے کہ حقیقی جی ڈی پی کی نمو 2 تا 3 فیصد کی حد میں رہے گی۔ زرعی شعبہ اہم محرک رہا ہے۔ خریف کی فصلوں (خصوصاً کپاس اور چاول) کی اچھی کارکردگی کے بعد گندم کی فصل کے امکانات بھی زیر کاشت رقبے میں اضافے، خام مال کی بہتر صورت حال اور بلند پیداواری قیمتوں کے باعث خوش آئند معلوم ہوتے ہیں۔ سیٹلائٹ کی تصاویر کے مطابق بھی گندم کی فصل کی بھاری کاشت کے تجزیے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ صنعتی شعبے میں جولائی تا جنوری کے دوران 0.5 فیصد کی معمولی کمی کے باوجود پیداواری استعداد کے بہتر استعمال، روزگار کی صورت حال اور سازگار اساسی اثر (base effect)کے سبب آئندہ مہینوں میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ میں بحالی متوقع ہے۔ مزید برآں، اجناس کے پیداواری شعبوں کے وسیع اثرات اور دیگر اہم اظہاریے خدمات کے شعبے میں بتدریج بحالی کے عکاس ہیں۔ جنوری 2024ء￿ میں کرنٹ اکاو?نٹ خسارہ 269 ملین ڈالر رہا۔ اس طرح جولائی تا جنوری مالی سال 24ء￿ کے دوران مجموعی خسارہ 1.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو سال بسال تقریباً 71 فیصد کمی ظاہر کرتا ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اس بہتری کی بڑی وجہ تجارتی خسارے میں کمی ہے جس کا سبب برا?مدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی، دونوں ہیں۔ برآمدات بڑھنے کی وجہ خوراک کی زائد برآمد ہے جبکہ درا?مدی ادائیگیاں اس بنا پر کم رہیں کہ ملکی زرعی پیداوار بہتر ہوئی، ملکی طلب معتدل رہی، اور اجناس کی عالمی قیمتیں معاون ثابت ہوئیں۔

مزید برا?ں، ترسیلات زر اکتوبر 2023ء￿ سے سال بسال مسلسل بڑھ رہی ہیں جس میں باضابطہ ذرائع سے رقوم کی آمد آسان بنانے کے لیے ضوابطی اصلاحات اور ترغیبات کا کردار ہے۔ مالی رقوم کی ا?مد جنوری میں معمولی سی کم ہوئی جبکہ اس دوران سرکاری قرضے کی واپسی جاری تھی اور سرکاری اور نجی شعبے کی رقوم کی آمد رْکی ہوئی تھی۔ زری پالیسی کمیٹی کا تجزیہ ہے کہ کرنٹ اکاو?نٹ خسارہ مالی سال 24ء کے لیے پیش گوئی یعنی جی ڈی پی کے 0.5 سے 1.5 فیصد کی نچلی سطح کے قریب قریب رہنے کا امکان ہے، جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کو مدد ملے گی۔ مالیاتی کھاتوں کے تازہ ترین ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالیاتی یکجائی جاری رہے گی۔ مالی سال 24ء کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی فاضل رقم (primary surplus) بہتر ہو کر جی ڈی پی کا 1.7 فیصد ہوگئی جو گذشتہ سال اسی مدت میں 1.1 فیصد تھی، جبکہ مجموعی مالیاتی خسارہ مزید بڑھ کر جی ڈی پی کا 2.3 فیصد ہوگیا جو مالی سال 23ء￿ کی پہلی ششماہی میں 2.0 فیصد تھا۔ بنیادی فاضل رقم اور جی ڈی پی کے تناسب میںلانے والی بہتری کے اہم اسباب محاصل کی، خصوصاً نان ٹیکس ذرائع سے بہتر وصولی، اور غیر سودی اخراجات کو نسبتاً محدود رکھنا ہیں۔ سودی ادائیگیوں میں معقول اضافے نے، جبکہ قرضے کی سطح بلند ہے اور مہنگی ملکی فنانسنگ پر بڑھتے ہوئے انحصار کی بنا پر مجموعی خسارے میں اضافہ ہوا۔ زری پالیسی کمیٹی نے زور دیا کہ بحیثیت مجموعی میکرو اکنامک مضبوطی اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مالیاتی یکجائی جاری رکھنا لازمی ہے۔زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے، حسبِ توقع، زرِ وسیع (ایم 2) کی نمو سال بہ سال بنیادوں پر فروری 2024ء￿ میں کم ہوکر 16.1 فیصد ہوگئی جو دسمبر میں 17.8 فیصد تھی۔ یہ اعتدال بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں میں کم نمو کی وجہ سے آیا جس کی بنیادی وجہ نجی شعبے کے قرض اور اجناس کی مالکای کے آپریشنز میں وسیع البنیاد سکڑاؤ ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ زرِ بنیاد کی نمو میں کمی کا سلسلہ جاری رہا اور فروری میں یہ تیزی سے کم ہوکر8.2 فیصد ہوگئی۔ مزید برآں، بینک ڈپازٹس میں بھرپور اضافے اور زیرِ گردش کرنسی میں کمی کے رجحان کی وجہ سے کرنسی اور ڈپازٹس کے تناسب میں کمی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ زری مجموعوں کے یہ رجحانات مہنگائی کے منظر نامے کے لیے نیک شگون ہیں۔ اوگر ا نے بھی صنعتی صارفین کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے گیس ٹیرف میں کمی کرے۔ اوگرا کی سماعت میں کاٹی نے صنعتکاروں کو درپیش مشکلات کی نشاندہی کی ہے، جس میں لائن لاسسز، چوری اور یو ایف جی شامل ہے۔صدر کاٹی نے حکومت اور اوگرا سے مطالبہ کیا کہ وہ صنعتکاروں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے عمل اقدامات کریں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ ٹیرف صنعتکاروں کیلئے ممکن نہیں رہا۔ انڈسٹری پر مالی دباؤ کم کرنے کیلئے گیس کی قیمت 500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی جائے۔ جبکہ اوگرا گھریلوں صارفین کیلئے نقصان کو کم کرتے ہوئے طے کردہ اوسط قیمت کے ٹیرف کا تعین یقینی بنائے۔ تاہم غریب طبقہ کو سہولت فراہم کرنے کیلئے BISP پروگرام کی مدد سے کم آمدن والے صارفین کو براہ راست بجلی اور گیس پر سبسڈی فراہم کی جائے جس کا انڈسٹری پر بوجھ کم ہوگا ۔سود ،بجلی اورگیس ٹیر ف اور پیٹرول کی قیمتوں نے عام آدمی کے لیے مشکل میںاضافہ کر رہا ہے ۔جس سے اس کی زندگی اجیرن بن چکی ہے ۔