مزید خبریں

شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے سے معیشت مزید جمود کا شکار ہوگی

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید) شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے سے معیشت مزید جمود کا شکار ہوگی‘قرضوں کا حصول مشکل اور مزید صنعتیں بند ہونے کا خدشہ ہے‘ بیروزگاری بڑھے گی‘ محصولات میںکمی ہوگی‘ آئی ایم ایف کے جائزے کے نتائج سے قبل شرح سود میں کمی کرنا ناممکن ہے‘ شرحِ سود بڑھنے سے لوگ اخراجات میںکمی کرتے ہیں جس سے قومی مجموعی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ان خیالات کا اظہار سابق صوبائی وزیر پنجاب ایس ایم تنویر‘ کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جوہر علی قندھاری‘ بینک الفلاح کی ایسِٹ مینجمنٹ کی سربراہ ماہین رحمان‘ پاکستان بزنس گروپ کے چیئرمین فرازالرحمان اور تاجر رہنما، اسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنا درست ہے؟‘‘ ایس ایم تنویر نے کہا کہ نئی مانیٹری
پالیسی میں شرح سود کو22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ درست نہیں‘ مزید معاشی زوال کو روکنے کے لیے ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے کاروبار جمود کا شکار ہو رہا ہے‘ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فوری ترجیح کے طور پر عام افراط زر کے بجائے بنیادی افراط زر پر توجہ دینا ہوگی‘ سبسڈی کے طریقہ کار کو ختم کرنا ہوگا اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی اصل قیمت کے مطابق علاقائی طور پر مسابقتی بجلی کے نرخوں کو اپنانے سے معاشی ترقی ممکن ہو سکے گی‘ مہنگے یوٹیلیٹی چارجز،بلندشرح سود اور کاروباری سرگرمیوں پر بجلی اور گیس کی طویل لوڈشیڈنگ کے نقصان دہ اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنعتوں کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کی ضرورت ہے‘ سود کی شرح کو سنگل ہندسے تک کم کیا جائے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ22 فیصد شرح سود کاروباری سرگرمیوں میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ماہین رحمان نے کہا کہ 22 فیصد شرح سود سے چھوٹے اور درمیانی سطح کے کاروبار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے روزگار کے ذرائع میں کمی کا خدشہ ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی شرح سود کے باعث ان کے لیے ادھار لینا بھی مشکل ہوگیا۔ دوسری جانب بڑے کاروباری کئی دفعہ ایسے مرحلوں سے گزر چکے ہیں اور ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ اس سے بھی گزر جائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ شرحِ سود بڑھنے سے لوگ روزمرہ زندگی میں اخراجات کم کرتے ہیں جس کی وجہ سے قومی مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہوتی ہیجس کا مطلب یہ ہو ا کہ ہم روزگار کے موقع ختم کر رہے ہیں اور جرائم کی طرف لوگوں کو ڈھکیل رہے ہیں۔ جوہر علی قندھاری نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ تشویشناک ہے۔ فیصلے سے صنعتیں مزیدتباہ ہو جائیں گی کیونکہ معاشی اہداف کے حصول میں شرح سود بڑی رکاوٹ ہے‘ مہنگائی اور شرح نمو میں کمی بھی بلند ترین شرح سود کے باعث ہے‘ مہنگے قرضوں سے صنعتی نمو انتہائی کم ہوگئی ہے جو صنعتیں چل رہی ہیں انہیں سرمائے کی قلت ہے جو ماضی میں بینکوں سے قرضے لے کر پورے کیے جاتے تھے‘ اب 24 سے 25 فیصد قرض پر کاروبار کو جاری رکھنا نا ممکن ہے‘ ایسی صورت میں چلتی ہوئی انڈسٹری بھی بند ہو رہی ہے‘ پاکستان میں شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہے جس سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے‘ شرح سود کو کم کرکے سنگل ڈی جٹ میں کیا جائے‘ سستے قرضے ملنے سے انڈسٹری کا پہیہ تیز چلے گا جس سے نہ صرف معاشی نمو اسٹیٹ بینک کی توقع یعنی 2 سے 3 فیصد سے زیادہ ہوگی بلکہ محصولات میں بھی اضافہ ہوگا۔ فراز الرحمان نے کہا کہ شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے سے صنعتوں کو ناقابل برداشت نقصان پہنچ رہا ہے‘ نئی سرمایہ کاری رک گئی ہے‘ آئی ایم ایف کے دباو ٔپر بینک دولت پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی میںِ شرح سود کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے‘ ملکی صنعتکار بدستور مہنگے قرضے حاصل کرنے پر مجبور ہیں‘ اس بار کمی کی توقع تھی جس سے انڈسٹری کو راحت کی سانس لینے میں مدد مل سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا‘ بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں‘ مہنگائی میں کمی کے دعوے کے برعکس آج ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں‘ گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اب امیر کی دسترس سے بھی باہر ہوگئی ہیں۔ انہوں نے وزیر خزانہ سے اپیل کی ہے کہ وہ شرح سود کو سنگل ڈی جٹ تک لائیں اور تاجروں و صنعتکاروں کو ریلیف کی فراہمی کے اقدامات اٹھائیں ورنہ معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔ شاہد رشید بٹ نے کہا کہ اس قدر بھاری شرح سود سے تاجروں کی مشکل میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن آئی ایم ایف کے جائزے کے نتائج سے قبل شرح سود میں کمی کرنا ناممکن ہے مگر اس سے کاروباری برادری کو مایوسی ہوئی ہے جو اس میں کمی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ معاشی معاملات کچھ بہتر ہو رہے ہیں اور اگلے ماہ مہنگائی بھی 20 فیصد تک ہو جانے کا امکان ہے اس لیے مانیٹری پالیسی کمیٹی اپنے اگلے اجلاس میں شرح سود میں کمی پر غور کر سکتی ہے‘ عوام ترقیاتی بجٹ کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں‘ شرح سود میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا جبکہ روپے کی قدر میںکمی ہو جاتی ہے‘ اس سے درآمدات بڑھ جاتی ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہونا شروع ہو جاتے جو اس وقت تقریباً 13 ارب ڈالر ہیں جو بمشکل 2 ماہ کی درآمدات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔