مزید خبریں

انتخابات میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی ریاستی بیانیے کی شکست ہے

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) انتخابات میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی ریاستی بیانیے کی شکست ہے‘ عمران خان کو سنائی گئی سزائوں، دھاندلی اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دیے جانے کے باوجود پی ٹی آئی ہر طرف چھا گئی‘ مقتدرہ کے تمام ہتھکنڈے ناکام رہے‘ جمہوری اصول ہے اقتدار اکثریتی جماعت کے سپرد کیا جاتا ہے، پاکستان میں صورتحال اُلٹ ہے‘ عوام میں شعور آچکا ہے۔ان خیالات کا اظہار پی ٹی آئی کے رہنما خرم شیر زمان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رہنما و سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری سردار محمد اسرائیل قاضی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا انتخابات میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی عمران خان سے متعلق ریاستی بیانیے کی شکست ہے؟‘‘ خرم شیر زمان نے کہا کہ8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی بھاری اکثریت نے عمران خان کے بیانیے کو ووٹ دیا اور ریاستی بیانیے کو شکست دی‘ 8 فروری دنیا کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے، بین الاقوامی میڈیا، عالمی برادری اور مہذب دنیا سب یک زبان ہیں کہ الیکشن سے قبل ہر طرح کی دھاندلی اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے بغیر، ماورائے آئین اور قانون عمران خان کو سنائی گئی سزائوں کے باوجود پی ٹی آئی ہر طرف چھا گئی اور اس کے کارکنوں نے ووٹ کی طاقت سے حیران کن طور پر عمران خان کے بیانیے پر مہر ثبت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف پے در پے فیصلے آنے کے بعد درجنوں سوال بھی سر اٹھا رہے ہیں کہ ان کو متعدد مقدمات میں گھیر کر سیاست سے باہر کیا جا رہا ہے‘ اگر ایک مقدمے میں ان کی رہائی کا سوچا جائے تو دوسرے مقدمے میں سزا کا حکم صادر ہو جاتا ہے‘ عمران خان کا صرف احتساب نہیں ہو رہا ہیں بلکہ انہیں انتقام کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مقتدر قوتیں عمران خان کی طاقت کم کر کے نہ صرف اقتدار کی دوڑ بلکہ عوام کے دل سے بھی نکالنا چاہتی ہے اسی لیے عدالتوں کو بھی سیاسی معاملات میں گھسیٹا جا رہا ہے‘ فلاپ فلم اور پرانے کرداروں نے تماش بینوں کی دلچسپی کو کم تو کیا لیکن عمران خان نے ہمدردی کا سارا ووٹ سمیٹتے ہوئے اپنے ووٹرز کو جوڑے رکھا اور ڈائریکٹرز کی فلم کو فلاپ کر دیا ہے، کہا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف 9 مئی کے بعد سسٹم میں نظر نہیں آئے گی لیکن عوام کی طاقت ابھی بھی ان کے ساتھ ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے‘ عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی جیت چکے ہیں‘ سیاست کا مقابلہ طاقت سے نہیں سیاست سے ہی ہو سکتا ہے، طاقت جتنی بھی استعمال کر لی جائے اس سے کسی کی سیاست کو دبایا یا ختم نہیں کیا جا سکتا ہے‘ دنیا بھر میں مسلمہ جمہوری اصول ہے کہ اقتدار اکثریتی جماعت کے سپرد کر دیا جاتا ہے مگر پاکستان کے اندر الٹ صورتحال ہے‘بین الاقوامی اور ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رائے دہندگان نے جن میں بڑی تعداد خواتین اور نوجوانوں کی ہے، نے عمران خان کی حمایت میں ووٹ ڈالے ، خواتین اور نوجوانوں کی آواز کو دبانا کوئی بھی ہوشمند ریاست برداشت نہیں کر سکتی، عوام کی قابل ذکر تعداد نے عمران خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔سائرہ بانو نے کہا کہ حالیہ انتخابات نے ثابت کردیا کہ پاکستان کے عوام کو شعور آچکا ہے اور انہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے عمران خان کے خلاف بے بنیاد بیانیہ بھی دفن کر دیا ہے‘ 35 برس سے نام نہاد جمہوریت تھی، اب عوام ان سیاسی جماعتوں کو مسترد کر چکے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت 8 فروری کو سامنے آگیا ہے۔ سائرہ بانو نے جی ڈی اے کی نشستوں کے حوالے سے کہا کہ وہ 4، 5 حلقے جن کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہاں تو لوگ (پیپلز پارٹی) کو مسترد کرچکے تھے۔ سب سے زیادہ تو میں اپنے حلقے پر حیران تھی کہ وہاں ہو کیا رہا ہے، ہماری سیٹیں چھینی گئی ہیں اور پوری کی پوری چھینی گئی ہیں‘ کراچی میں اگر متحدہ قومی موومنٹ ہے تو وہ صرف ایم کیو ایم لندن ہے لیکن خدا جانے ایم کیو ایم پاکستان کو کہاں سے سیٹیں مل گئی ہیں‘ ویسے تو 76 برس سے ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور کوئی سوچنے والا نہیں ہے لیکن ہم عجیب ڈھیٹ قسم کے لوگ ہیں اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے ہیں‘ اب عوام کو اپنے حق کے لیے نکلنا ہوگا کیوں کہ عوام کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے اس لیے حکومت کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے گی، اتحادی جماعتوں کی ترجیحات صرف عہدوں کی بندر بانٹ ہیں لیکن کیا کسی نے سر جوڑ کر یہ بھی سوچا کہ ملک کو اس مشکل سے نکالنا کیسے ہے؟سردار محمد اسرائیل قاضی نے کہا کہ ہماری مقتدرہ اپنے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود عمران خان کے بیانیے اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کو ختم نہیں کر سکی ہے‘ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری ریاست اپنے بیانیے کو قوم سے منوا نہیں سکی ہے‘ حیران کن بات یہ ہے کہ ریاست کے اس بیانیے کے ساتھ وہ سیاسی جماعتیں بھی کھڑی نظر نہیں آرہی ہیں جو عمران خان اور پی ٹی آئی کی سیاسی حریف ہیں ‘ پیپلز پارٹی دبے اور کھلے لفظوں میں عمران خان کو سیاسی آزادی دینے کی بات کرتی رہی ہے۔ ن لیگ نے بھی کبھی کھل کر عمران خان اور پی ٹی آئی کی ملک دشمنی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست اپنی بھر پور کاوشوں کے باوجود عوام میں اپنے بیانیے کی حقانیت ثابت نہیں کر سکی ہے۔ الیکشن 2024ء کے نتائج نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ عمران خان کا بیانیہ ابھی تک زندہ ہے اور ریاستی بیانیہ اپنی وقعت کھو رہا ہے‘ آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے پی ٹی آئی بیانیے پر سرکاری گرفت مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔ ریاستی اور طاقتور حلقوں کے بیانیہ نے آج کے نوجوانوں کو بیزار کر دیا ہے کیونکہ حقیقت انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے‘ بھلے وقتوں میں جب کسی کو شیطان قرار دے کر نکالا جاتا تھا تو میڈیا پر سرکاری کنٹرول کی وجہ سے وہ واقعی معتوب ہوجاتا تھا‘ آج دنیا بدل گئی ہے سوشل میڈیا کی بدولت عوام کو چند گھنٹے میں علم ہوجاتا ہے کہ اصل قصہ کیا ہے‘ کون سچا اور کون جھوٹا، کون ہیرو اور کون ولن ہے؟ آپ جبر کے زور پر لاڈلے اور لاڈلی کو کھیلنے کے لیے پاکستان دے سکتے ہیں لیکن وقت کے لیے ممکن نہیں کہ آپ کو کھیلنے کے لیے 50، 60 اور 70 کی دہائی دے سکے‘ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کا ووٹر انتقامی جذبے کے تحت باہر نکلا اور ڈٹ کر ووٹ ڈالااور نتیجہ ہمارے سامنے ہے‘ آزاد امیدواروں کی مجموعی تعداد، جماعتی بنیادوں پر جیتنے والے لوگوں سے زیادہ ہے‘ گویا سب سے بڑی سنگل لارجسٹ جماعت، آزاد جیتنے والوں کی ہے، یہ پی ٹی آئی کی بہت بڑی واپسی ہے۔ پی ٹی آئی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ آج بھی ملک کی سنگل لارجسٹ پارٹی ہے۔