مزید خبریں

اللہ سے تعلق کمزور ہوا تو دینوی سکون و آرام کے لیے آخرت کو قربان کر دیا گیا

کر اچی (رپورٹ / محمد علی فاروق ) اللہ سے تعلق کمزور ہوا تو دینوی سکون و آرام کے لیے آخرت کو قربان کر دیا گیا‘ علم کو بھی حصول دولت و طاقت کا ذریعہ بنا لیا گیا‘ تقویٰ کے نام پر منافقت ہوئی‘ ڈراموں، فلموں نے دنیا پرستی کو فروغ اور مذہبی تعلیمات و سماجی اقدارکو نظرانداز کیا‘ میڈیا نے الفاظ کے معنی بدل دیے، جہاد کو فرض سمجھنے والے آج اسے فساد کا نام دے رہے ہیں‘ رمضان کے روزے تقویٰ کا ذریعہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کی ڈائریکٹر امور خارجہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، کئی کتابوں کے مصنف معروف ٹرینر اور تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور مجدد الف ثانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین مولانا ذاکر احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ہماری زندگی میں تقویٰ اور علم کے بجائے طاقت اور دولت کو فضیلت کیوں حاصل ہے؟‘‘ سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رمضان کے روزے اس ہی لیے فرض کیے ہیں تاکہ تقویٰ اور علم کے حصول کا ذریعہ بن سکے‘ روزے اللہ تعالیٰ کی کبرائی اور قرآنی علم کے اظہار کے تشکر کا ذریعہ ہیں‘ رمضان خاص طور پر مسلمانوں کی زندگی میں تبدیلی لاتا ہے اور تبدیلی ہمیشہ اچھے مقاصد کے لیے ہونی چاہیے‘ موجودہ دور میں اچھی اقدار زوال پذیر ہیں‘ طاقت اور دولت کی وجہ سے انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو پس پشت ڈال د یا گیا ہے‘ پوری دنیا میں فسادی تہذیب اور ممالک کو بظاہر لگتا ہے کہ انہیں دیگر ممالک پر فضیلت اور اہمیت حاصل ہے‘ پوری دنیا میں انہی کا ڈنکا بج رہا ہے‘ ہر جانب وہی لوگ نظر آتے ہیں جو طاقت اور دولت کے بل بوتے پر بھروسہ کرتے ہیں مگر ہر کمال کو زوال ہے‘ ہم اگر گزشتہ تہذیبوں پر نظر ڈالیں تو ایسی کئی بڑی بڑی تہذیبیں نظر آئیںگی جن کا اب دنیا میں نام و نشان بھی باقی نہیں ہے‘ خود قرآن اس پر گوا ہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس آج کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت و دولت تھی ان کی معیشت بہت مضبوط تھی مگر جب اللہ تعالیٰ کا حکم آ گیا تو وہ تہذیبیں تباہ و برباد ہوگئیں‘ ان کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ وہ آج کی دنیا سے کہیں زیادہ طاقت اور شان وشوکت کی مالک تھیں‘ وہ لوگ پہاڑوں کو موم کی طرح تراش دیتے تھے‘ احرام مصر بھی ان ہی تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کا عظیم شاہکار ہے اور اپنے اندر ایک پوری تاریخی داستان رکھتی ہے‘ بڑی تہذیبوں نے کبھی بھی انسانوں کے دل و دماغ کو کبھی تسخیر نہیں کیا آج بھی بڑے بڑے بادشاہوں کے مقبرے ویران پڑے ہیں لیکن جو اللہ کے دوست (ولی) ہیں ان کی قبریں آباد ہیں جن لوگوں نے اس دنیا میں خیر پھیلایا ان کے پاس نہ طاقت تھی، نہ ہی دولت تھی مگر ان لوگوں نے انسانوں کے دلوں پر حکومت کی اور آج بھی ایسے لوگوں کا نام باقی ہے اور ان کا نام عزت و تکریم کے ساتھ لیا جاتا ہے‘ آج کی دنیا کو یہی لگتا ہے کہ ہمارا معیار طاقت و دولت ہے مگر ہمارا معیار یہ نہیں ہے‘ معاشرہ جلد ہی فرعون، نمرود، قارون اور ہامان جیسے حکمرانوں کو بھول جاتا ہے لیکن پیغمبروں، رسولوں، ان کی تصدیق کرنے والے صحابہ کرام، اللہ تعالیٰ کے نیک اور عبادت گزار لوگوں کو یاد رکھتا ہے اور ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے انسانوں کے دلوں اور دماغوں کو مسخر کیا ہے۔ محمد عارف صدیقی نے کہا کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا نے ہماری معاشرتی اقدار، رویوں اور ترجیحات پر نمایاں اثر ڈالا ہے‘ انہوں نے الفاظ کے معنی بدل ڈالے اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا‘ آپ یہی دیکھ لیجیے کہ کچھ عرصہ قبل تک جہاد کو فرض سمجھنے والے آج اسے فساد کا نام دینے لگ گئے ہیں‘ بالکل اسی طرح کچھ عرصے قبل تک ایمان اور تقویٰ کو دولت سمجھا جاتا تھا‘ ایسے محاورے موجود تھے کہ فلاں شخص ایمان کی دولت سے مالا مال ہے‘ متقی شخص کو سمجھا جاتا تھا کہ وہ غنی ہے کیونکہ وہ دنیوی بے جا ضروریات سے بے نیاز نظر آتا تھا جو اسے غنی ظاہر کرتا تھا‘ اسی طرح علم کی دولت کے بارے میں ضرب الامثال پڑھیں‘ کہانیاں پڑھیں‘ محاورے پڑھیں‘ مگر آہستہ آہستہ جب معاشرتی اقدار میں تبدیلی آئی تو لوگوں کی ترجیحات بدل گئیں وہ مادی آسائشات اور دنیوی ضروریات کے حصول کو مطمع نظر جاننے لگ گئے‘ ان کی ترجیحات میں دائمی سکون اور آرام کے بجائے وقتی اور دنیوی سکون آرام اور آسائشات شامل ہو گئیں‘ انہوں نے دنیا کے لیے آخرت کو قربان کر دیا‘ نمود و نمائش اور دکھاوے کے دور میں باطن کے بجائے ظاہر کو سب کچھ جانا جانے لگا‘ ظاہر کی آرائش اور زیبائش پر توجہ دی گئی جبکہ باطن کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ حصول علم کو بھی حصول دولت کا ذریعہ جان کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ نتیجتاً علم بھی اپنی برکات کھو بیٹھا۔ تقویٰ کو رضائے الٰہی کے بجائے دنیوی مقام اور دنیوی بزرگی حاصل کرنے کا ذریعہ جانا گیا یعنی اکثریت نے اسے بھی منافقت کے ساتھ اختیار کیا اور ان سب کا نتیجہ ہم نے معاشرتی بگاڑ نفسا نفسی اور اخلاقی اقدار کے زوال کی صورت میں دیکھا‘ دوسری طرف اگر آپ آج بھی ان سچے اور کھرے لوگوں سے ملیں جو حقیقی تقویٰ اور علم کی دولت سے مالا مال ہیں یا اس کے حصول کی کوشش میں سرگرداں ہیں، وہ آج بھی شاداں و فرحاں ، مطمئن اور آسودہ نظر آتے ہیں کیونکہ اصل آسودگی اور تمانیت اطمینان قلب اور رضائے الہی کے ساتھ مشروط ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو سمجھا اور سمجھایا جائے کہ حقیقی دولت ایمان، تقویٰ، کردار اور علم کی ہے۔ مولانا ذاکر احمد نے کہا کہ ہر انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ہیں تو ان کی تمام اولاد بھی مٹی کے خمیر سے زیادہ کچھ نہیں‘ فطری اعتبار سے کسی کو کسی دوسرے پر فوقیت اور فضلیت نہیں ہے لیکن صرف ایک چیز ہے جو بندے کو خالق کائنات کی نظر میں بلند کرتی ہے اور وہ ہے تقویٰ، دل اللہ کے احکامات پر سر تسلیم خم کرنے سے جس قدر لبریز ہوگا‘ اللہ کی نظر میں بندہ اتنا ہی عزیز اور قابل قدر ہوگا‘ دنیا میں رائج نظاموں میں ایک سرمایہ دارانہ نظام بھی ہے جس میں خود فریبی، خود غرضی، مصلحت پسندی اور کسی حد تک جھوٹ و منافقت کار فرما ہے ، اس نظام میں دولت و طاقت کو سماجی عزت و وقارکا معیار بنایا گیا ہے‘ سرمایہ دارانہ نظام کا ڈھانچہ ہی کچھ ایسا ہے کہ آج کا انسان لاشعوری طور پر یہی سمجھتا ہے کہ پیسہ ہے تو عزت ہے اور طاقت ہے تو سب کچھ ہے‘ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی مال و دولت اور طاقت کو اولیت حاصل ہے اور اس کو کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے‘ غریب اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ناکام ہی تصور کیا جاتا ہے چنانچہ طاقتور اور مالدار کو ہی کامیاب اور قابل احترام سمجھا جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے فرد کی زندگی میں حصول طاقت اور دولت مقصد بن چکی ہے اس کو حاصل کرنے والا کامیاب اور محروم رہ جانے والا فرد ناکام کہلاتا ہے‘ اسلام سے پہلے بھی غیر مسلم معاشرے میں صاحب ثروت کو عزت و احترام کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے اور اب تک سمجھا جاتا ہے‘ غریب اور بدحال ہر سماج میں ناقابل اعتنا رہے ہیں، اسلام نے اس مزاج کو توڑتے ہوئے، نیکی اور تقویٰ کو معیار بنایا ہے، اسلام میں دولت کی محبت سے بچنے کے لیے یہ بات باور کرائی گئی ہے کہ دنیا فانی ہے‘ ہر نفس یا زندگی کو موت کا مزا چکھنا ہے جبکہ صرف تہذیب جدید میں ہی حصول دولت اور طاقت کو اعلیٰ معیار سمجھا گیا ہے‘ ایسا اس لیے ہے کہ معاشرے سے اعلیٰ اقدار رخصت ہو چکی ہیں‘ اخلاقی اعتبار سے معاشرہ تنزلی و انحطاط کا شکار ہے‘ ہماری ترجیہات بدل گئی ہیں‘ ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق کمزور ہوچکا ہے اس لیے علم و تقویٰ کی فضیلت سے لوگ محروم ہیں اور طاقت و دولت کو ہی معیار سمجھتے ہیں۔