مزید خبریں

سودی معیشت اور ترقی ایک دوسرے کی ضد ہے،معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کیا جائے

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) سودی معیشت اور ترقی ایک دوسرے کی ضد ہے‘ معیشت کو اسلامی خطوط پر استور کیا جائے‘ 22 فیصد تک شرح سود بڑھانے سے کاروباری افراد کے لیے قرضوں کا حصول مشکل اور معاشی ترقی منجمد ہو گئی‘ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات معیشت کی بحالی میں ناکام رہے‘ کرنسی کی قدر میں کمی اور سودی بینکاری نے ملکی مسائل گمبھیرکیا‘ شرح سود میں اضافہ کرکے افراط زرکو کنٹرول کرنا دیوانے کا خواب ہے۔ان خیالات اظہار امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں، اسلامی اسکالرحافظ محمد زاہد لاہوری اور ایوان صنعت و تجارت راولپنڈی کے صدر ثاقب رفیق نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیاشرح سود میں اضافے سے معاشی ترقی ممکن ہے ؟‘‘ سراج الحق نے کہا کہ”سودی معیشت اور ترقی ایک دوسرے کی ضد ہیں‘سود سے ترقی رک جاتی ہے‘ سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے 2022ء میں اسلامی بینکنگ نظام کو آگے بڑھانے کے لیے سود کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی درخواستیں عدالت عظمیٰسے واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا‘ اب ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن حکومت میں ہیں اس لیے حکومت کو وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز کر نا چاہیے‘ “ربا”سے پاک معیشت کی تشکیل کے لیے حکومت سے تعاون کرنے کو تیار ہیں‘ جماعت اسلامی کی سودی نظام کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی‘ سودی معیشت کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیوں کے رہنماؤں سے ملنے کو تیار ہیں‘ معیشت کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لیے قومی ڈائیلاگ کا آغاز ہونا چاہیے‘ حکمران خدا کا خوف کریں، کیا انہیں پورے ملک سے کوئی ایماندار اور اہل آدمی نہیں ملتا جو معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرسکے‘ معیشت میں بہتری کے لیے آئی ایم ایف سے باربار رابطہ کیا جا رہا ہے‘ نظام شریعت میں سود کے قطعی حرام ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیںہے کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ بقرہ کی متعدد آیات میں سود کی ممانعت فرمائی ہے‘ اس کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘ اگر تم ایمان والے ہو تو سود کا بقایا بھی چھوڑ دو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر تم سود لینا اور دینا ترک نہیں کرتے تو تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ بیشک ذاتِ باری تعالیٰ نے سود کو انسانیت کو ہلاک کرنے والا گناہ قرار دیا ہے اس سے ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے ۔ ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ سود میں تسلسل سے اضافے کے باعث ملکی معیشت کو سست روی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے‘ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کے فیصلوں کے حوالے سے کاروباری برادری میں شدید خدشات نے جنم لیا ہے‘ شرح سود 22 فیصد ہو چکی ہے‘ قیمتوں میں تیزی سے اضافے کو بنیادی طور پر سپلائی سائیڈ پر کئی عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے‘بین الاقوامی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی سپلائی چین میں خلل، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے فصل کو نقصان، کرنسی کی قدر میں کمی اور سودی بینکاری کی وجہ سے معیشت کو شدید نقصانات کا سامنا ہے‘ اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے بنیادی طور پر ڈیمانڈ سائیڈ اقدامات کیے ہیں جیسا کہ پالیسی ریٹ ایڈجسٹمنٹ کو 2 ہندسوں کی افراط زر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے استعمال کیا جانا ہے‘ یہ اقدام مکمل طور پر ناکام رہا ہے‘ یہ نقطہ نظر بین الاقوامی طریقوں سے متصادم ہے شرح سود میں اضافہ کرکے افراط زر کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا‘ مثال کے طور پر پالیسی ریٹ میں 1500 بیسس پوائنٹس کے نمایاں اضافے کے بعد بھی شرح سود اگست 2021ء سے فروری2014ء کے دوران 7% سے 22% تک پہنچ گئی اور ساتھ ہی ساتھ اس دوران افراط زر 8.4% سے بڑھ کر 23.1% ہو گیا جو کہ واضح کرتا ہے کہ پالیسی اقدامات اور افراط زر کی حرکیات کے درمیان کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے‘یہ ساری صورتحال معیشت کو تباہ کر رہی ہے۔ حافظ محمد زاہد لاہوری نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پورا کا معاشی نظام سود پر مبنی ہے‘ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس نظام کی موجودگی میں ترقی ناممکن ہے‘ اس پر نبی اکرمؐ کی یہ حدیث بعینہ صادق آتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اگر کوئی انسان سود سے بچ بھی جائے گا تو سود کے دھوئیں سے نہیںبچ سکے گا‘ پاکستان میں آج بالکل یہی صورتحال ہے کہ چاہتے ہوئے بھی کوئی شخص سود سے نہیں بچ پا رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ بے حد ضروری ہے کہ پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کیا جائے اس لیے کہ یہ سودی نظام ہی ہماری معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ہے کہ ملکی معیشت و بینکاری کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنایا جائے لیکن ناجانے کیوں سودی معیشت سے آئی ایم ایف کو خوش اور اللہ اور اس کے رسول ؐ سے کھلی جنگ کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ثاقب رفیق نے کہا کہ سودی معیشت نے ملکی ترقی کو بریک لگا دیا ہے اس کی وجہ سے صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں منجمد ہوتی جا رہی ہیں‘ بینکوں سے نرم شرائط پر بلاسود قرضوں کا حصول ممکن بنایا جائے تاکہ معاشی ترقی ممکن ہو سکے‘ آئی ایم ایف کے پروگراموں کی طرف سے تجویز کردہ اقدامات کے باوجود پاکستانی معیشت کے اندر بنیادی انفرا اسٹر کچر کے مسائل کو کامیابی سے حل نہیں کیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے میکرو اکنامک صورتحال بگڑتی چلی جا رہی ہے‘ 22% کی شرح سود نے کاروبار کی آپریشنل صلاحیت کو محدود کر دیا ہے جس سے مقامی کاروباری برادری کے لیے قرضے لینے کی کاسٹ انتہائی مہنگی ہو گئی ہے۔ ملکی نجی شعبے کے لیے قرض کی رسائی جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے ہمارے علاقائی ممالک سے خاصی کم ہے‘ خاص طور پر ہماری پالیسی کی شرح خطے میں تمام ممالک سے زیادہ ہے‘ جس میں قرض کی کل مالیت کے حساب سے 150% تک زرضمانت کی ضروریات بڑھ جاتی ہیں جو کہ خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کی ترقی کو محدود کرتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ صرف 7% پاکستانی کا روباری ادارے کمر شل اور رسمی قرض دینے والے اداروں سے منسلک ہیں، جو کہ بھارت میں 21% اور بنگلا دیش میں 34% کے بالکل برعکس ہے۔