مزید خبریں

جوہر قندھاری ٹھیک، لیکن بیشتر تاجر برادری کے چیک باؤنس ہورہے ہیں؟

اس حقیقت سے تو انکا ر نہیں ہے کہ جوہر قندھاری صاحب چیک باؤنس کیس میں کسی سازش کا شکا رہوگئے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میںچیک باؤنس ہونے کی روایت بہت پرانی اور تاجروں اور صنعتکاروں کا اس سلسلے میں کردار مایوس کن ہے۔ ملک بھر میں تاجر برادری کے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے کیسز موجود ہیں جس میں تاجر برادری نے کسی دوسر ی کاروباری پارٹی کوجو چیک دیا ہوتا ہے اور وہ چیک بینک سے کم رقم یابند اکاؤنٹ کی وجہ سے کیش نہیں ہو رہا ۔یہ سلسلہ کاروباری پارٹیوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ ان میں سے چند چیک ایسے بھی ہوتے ہیں جو تاجر برادری اپنے سبکدوش ہو نے والے ملازمین کو دیتے ہیں ان میں سے بیشتر چیک کیش نہیں ہو رہے ہیں اور اگر ہو تے بھی ہیں اس میں 6سے 12ماہ لگ جاتے ہیں ۔تاجروں اور صنعتکار یہ حرکت اپنے ان ملازمین کے ساتھ بھی کر تی ہے جونوکری چھوڑ کر کسی دوسرے ادارے میں ملازمت اختیار کر لیتے ہیں ۔

یہ ساری صورتحال اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ تاجر برادری کے چیک کی لین دین میں جو معاملات ہیں وہ کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں اس کے علاوہ ایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ تاجر برادری ہمیشہ یہی شکایت کرتی ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو بھی درجنوں ایسے چیک دے چکی ہے جو بینکوں میں کبھی بھی کیچ نہیں ہو تے ہیں ۔ اس سلسلے میں کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی ) ، وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ اینڈسٹری (کے سی سی آئی) ، سائٹ، بقاٹی، فباٹی ، نکاٹی، لاٹی ، سائٹ سپر ہائی وے ، ایسو سی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) اور دیگر ایسو سی ایشنز کے رہنماؤں نے چیک باؤنس کے قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت سے اس کا غلط استعمال کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کی اپیل کی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کاٹی ،فیڈریشن ،کراچی چیمبر، سائٹ بقاٹی ،باٹی ، نکاٹی، لاٹی ، سائٹ سپر ہائی وے ، آبادکے سامنے جب اس طرح کے فراڈ تاجر پارٹیوں کی جانب سے موصول ہو تے وہ اس کے حل کے لیے مصلحت کے چنگل میں کیوں پھنس جاتے ہیں

کاٹی میں منعقدہ تاجر و صنعتکار برادری کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کاٹی کے صدر جوہر قندھاری نے کہا کہ فراڈ کے ایک نئے طریقہ کار کا استعمال کرکے صنعتکاروں اور تاجروں کو بلیک میل کیا جارہا ہے جس پر سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس طرح کے فراڈ سے بزنس کمیونٹی کو بچایا جائے۔ انہو ں نے کہا کہ گزشتہ دنوں میرے خلاف چیک باؤنس ہونے کے خلاف ایف آئی آر منظر عام پر آئی جس کی بنیاد پر مجھے گرفتار کیا گیا، جبکہ حقیقت میں مدعی سے میرا کوئی تعلق نہیں ،نہ کبھی کوئی رابطہ رہا ہے، جس کی سی ڈی آر بھی موجود ہے۔ جبکہ جعلی چیک کی مدد سے میرے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جس میں شبہ ہے کہ بینک کا عملہ بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے اور نہ پوری پریس کانفرنس میں قندھاری نے کسی کا نام نہیں لیا بس یہ بتایا ہے کہ ” شبہ ہے کہ بینک کا عملہ بھی ملوث ہوسکتا ہے”لیکن اصل حقیقت کیا ہے اس بارے میں کچھ نہ کچھ تو قندھاری صاحب کو بھی معلوم ہو گا ۔لیکن اس کے باجود وہ کچھ بتانے کو تیا رنہیں ہیں

جوہر قندھاری کا یہ اعتراض درست ہے کہ بینک نے اتنی بڑی رقم کے چیک کو بغیر تصدیق کے باؤنس قرار دیا، اور نہ ہی ایف آئی آر کے اندراج کے وقت ضروری چھان بین کی گئی۔ جوہر قندھاری نے کہا کہ ہم اس معاملے سے مکمل طور پر لاعلم تھے، جبکہ مجھ پر دباؤ ڈالا گیا کہ 50 لاکھ روپے دے کر جان چھڑائیں۔اس سلسلے سی سی پی او اور ڈی آئی جی نے بھرپور تعاون کیا ہے، چیک کی فرانزک سے ثابت ہوا کہ دستخظ اور مہر جعلی ہیں۔ صدر کاٹی نے کہا کہ کورٹ میں مدعی بھی گواہی دینے کیلئے پیش نہیں ہو رہے۔ بدنیتی پر مبنی کیس کی بناء پر ایف آئی آر کو سی کلاس کرنے کی کارروائی کا غاز کر دیاگیا ہے۔جوہر قندھاری نے کہا کہ ہمیں عدالت سے عدل وانصاف کی توقع ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔

ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ چیک باؤنس کے قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، یہ قانون بزنس کمیونٹی کی سہولت کیلئے بنایا گیا تھا لیکن ان کا ناجائز استعمال روکا جائے اورجرائم پیشہ عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔آباد کے چیئرمین آصف سم سم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیک باؤنس کے قانون کا پروسیجر دنیا میں ہر جگہ فالو کیا جاتا ہے، پاکستان میں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا، دنیا میں کہیں آیف آئی آر درج کرنے سے پہلے پولیس مکمل تحقیقات اور معلومات کے تحت کیس کا اندراج کرتی ہے۔ انہوں نے وزیر اعلی سندھ ، آئی جی سندھ اور کراچی چیف سے مطالبہ کیا کہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بزنس کمیونٹی کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز فورم کے کوآرڈینیٹر جاوید بلوانی نے کہا کہ جوہر قندھاری کا بزنس کمیونٹی پر احسان ہے کہ وہ بلیک میل نہیں ہوئے اور ان لوگوں کو بے نقاب کیا،تمام ٹاؤن ایسو سی ایشن سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسے معاملات پر پردہ پوشی نہ کریں بلکہ منظر عام پر لائیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کنندہ بھی پاکستان کا سرمایہ ہیں، اگر ان کے ساتھ ایسا ہو تو زیادتی ہے،پاکستان سے پہلے ہی سرمائے کا انخلا ہو رہا ہیایسے میں اس طرح کے واقعات سے سرمایہ کاروں کو اعتماد مجروح ہوگا۔

جاوید بلوانی نے مزید کہا کہ ہم سب جوہر قندھاری کے ساتھ کھڑے ہیں، تمام ٹاؤن ایسو سی ایشنز کا بھرپور تعاون موجود ہے۔کاٹی کے ڈپٹی پیٹرن ان چیف زبیر چھایا نے کہا کہ ایسی کارروائی کسی دوسرے کے ساتھ نا ہو اس پر ہم سب ایک پیج پر ہیں، اعلی حکام سے اپیل ہے کہ اس جیسے تمام معاملات پر سخت نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسے جعلی کیس پر عملی اقدامات نہ کئے تو سخت ردعمل آئے گا۔ چیک باؤنس کا قانون بزنس کمیونٹی کی سہولت کے لئے بنایا گیا ہے، اس کو ہمارے لئے مشکل نہ بنایا جائے۔اس سلسلے میں تاجر برادری کے بارے میں بی بی سی نے ایک سروے شائع کیا تھا جس میں کراچی کے شہباز خان جو، کینو کی ایکسپورٹ کے شعبے سے منسلک ہیں اور کینو کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے لاجسٹکس سروسز فراہم کرتے ہیں۔اس سلسلے میں انھوں نے ایک پارٹی سے پندرہ لاکھ وصول کرنے تھے جس نے انھیں اس مالیت کے تین چیک دیے۔ تاہم شہباز خان کے مطابق کافی عرصہ قبل دیے جانے والے یہ چیک بوجوہ ابھی تک کیش نہیں ہوئے اور اس دوران جب انھوں نے پارٹی کے کہنے پر چیک بینک میں جمع کرائے تو یہ باؤنس ہو گئے۔شہباز خان کاروبار میں لین دین کے معاملات کو کورٹ کچہری لے جانے کے حق میں نہیں کیونکہ اْن کے مطابق اس سے کاروباری ساکھ خراب ہو جاتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے کاروبار میں چیک باؤنس ہو جاتے ہیں تاہم تھانے کچہری تک بات نہیں جاتی اور مصالحت سے کاروباری معاملات کو حل کر دیا جاتا ہے۔‘

اس طرح محمد نیاز کراچی میں محدود پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں اور ایک چیک باؤنس ہونے پر ایف آئی آر اور جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ نیاز نے بتایا کہ انھوں نے ایک شخص کی لین دین کے معاملے میں ضمانت دی تھی، اْس شخص نے ایک منافع پر قرض فراہم کرنے والے ایک شخص کو قرض کی قسطیں دینی تھیں۔’میں نے اس قرض دینے والے کو بطور ضمانت اپنا چیک دیا اور قرض لینے والے سے وعدہ کیا کہ وہ مقررہ تاریخ پر پیسے میرے بینک اکاونٹ میں جمع کروا دے گا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ میرے پاس بھی پیسے نہیں تھے کیونکہ رقم بڑی تھی۔ اس پر قرض دینے والے نے میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی اور مجھے جیل جانا پڑا۔ بیس دن بعد جب قرض دینے والے شخص نے پیسے جمع کر کے ادائیگی کی تو میری اس مقدمے سے جان چھوٹی۔
یہ اور اس جیسی ہزاروں کیس ملک بھر کی مارکیٹوں میں موجود ہیں لیکن کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی ) ، وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان (ایف پی سی سی آئی) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ اینڈسٹری (کے سی سی آئی) ، سائٹ، بقاٹی، فباٹی ، نکاٹی، لاٹی ، سائٹ سپر ہائی وے اور آباد اس طرح کے تاجروں اور صنعتکاروں اس وقت کہاں ہوتے ہیں ۔ تاجروں کی سب سے بڑی نمائندہ فیڈیشن ، کراچی چیمبر اور صنعتی ایسوسی ایشن ان مظلوم تاجروں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کر نے ضرورت ہے۔