مزید خبریں

جعلی مینڈیٹ والی حکومت کا مستقبل چند ماہ سے زیادہ نہیں

کراچی(رپورٹ: سید وزیر علی قادری) جسارت کے پوچھے گئے اس سوال کا کہ ’’دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کا مستقبل کیا ہو گا؟‘‘ جن مقتدر شخصیات نے جواب دیا اور رائے دی ان میںنائب امیرجماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچا، امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی،نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، سابق صدر شعبہ عربی زبان و ادب جامعہ کراچی وصدر صفہ انٹرنیشنل آکسفورڈ انگلینڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری، آزاد کشمیر کے سیاسی رہنما سید تصور عباس موسوی، ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات جے یوآئی سندھ مولانا سمیع الحق سواتی ، سماجی رہنما شگفتہ یوسف اور جماعت اسلامی کی صبیحہ احتشام شامل ہیں۔ ڈاکٹر فرید پراچہ نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس حکومت کی کوئی آئینی یااخلاقی بنیادہی نہیں وہ کیسے ڈلیورکرسکتی ہے ؟یاکس بنیاد پرقائم رہ سکتی ہے؟ تضادات پر مبنی اس حکومت میںتو وہ جماعتیں ہیں جو آپس میں مل کر حکومت بنانے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں جن کے درمیان دشمنی اور مخالفت کی ایک بڑی تاریخ ہے جنہوں نے ایک دوسرے کے مد مقابل ہی اتحاد بنائے اور جو ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کرتی رہیں،دورنہ جائیں اسی انتخابی مہم کے دوران 2 پارٹیوںکے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کی ۔ عوام کے مسائل حل کرنے کا کسی کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے نہ ان کی اس پر کوئی کمٹمنٹ ہے۔اس تناظر میں یہ حکومتیں چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔ ان کی عوامی مقبولیت کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے اور چند دن لوگ انتظار کریں گے پھر یہ اضطراب سڑکوں آئے گا اور اس میں چاہے وہ ایوان کے اندر حکومت تبدیل ہو یا انتخابی صورت میں کسی آئینی شق کے مطابق تبدیلی نظر آئے وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن بظاہر یہ حکومت چلتی نظر نہیں آرہی۔ محمد حسین محنتی کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھاندلی ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کرمن مانے نتائج دیے جاتے ہیں جیتے ہوئے لوگوں کو ہرا دیا جاتا ہے اور ہارے ہوئے لوگوں کو جتوا دیا جاتا ہے ظاہرہے کہ اس کے نتیجے میں جو بھی حکومت آئے گی وہ ایک مستحکم حکومت نہیں بن سکتی ۔اس لیے ہم محسوس کرتے ہیں کہ دھاندلی زدہ حکومت کا ہمارے ملک میں کوئی مستقبل نہیں ہے بہرحال وہ ایجنسیوں کی معرفت مسلط تو کر دیے گئے ہیں اور مسلط ہو بھی جائیں گے لیکن وہ ابھی کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ اس لیے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس ملک کے اندر یہ جو اسٹیبلشمنٹ کا ہولڈ ہے خاص طور پہ انتخابی عمل میں صرف اپنے من مانے نتائج دیتے ہیں اور دھاندلی زدہ انتخابات میں بھی بہرحال محنت کرنا پڑتی ہے وہ بھی نہیں کرتے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ کراچی جیسے شہر میں ایم کیو ایم کو جس کا نام و نشان نہیں ہے جس کے ماننے والے نہیں ہیں جس کو5سے 7 ہزار ووٹ بھی نہیں پڑے ان کو 80 ہزار اور 90 ہزار ووٹس دے کر مسلط کر دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر اسامہ رضی کی رائے میں پاکستان میں تو کسی قانون کسی آئین یا کسی اصول پہ تو سیاست اور سیاسی عمل ہو نہیں رہا یہاں تو ایک جنگل کا قانون ہے اس لیے اس میں کسی تجزیاتی بنیاد پہ مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی شخض کوئی بات نہیں کر سکتا البتہ یہ بات واضح ہے کہ جس جعل سازی کے ذریعے یہاں پہ غیر منتخب لوگوں کو جنہیں عوام نے مسترد کردیا تھا انہی پر مسلط کردیا گیا اور اس کے ذریعے یہ کوشش کی جائے گی کہ سامنے یہ لوگ ہوں اور مسلط کرنے والے اپنی من مانی سے اس ملک کو چلائیں تو اس طرح سے تو دنیا میں کسی بھی ملک کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔جسارت کے سوال کاجواب دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری کا کہنا تھاکہ دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت ابتداء سے انتہا تک دھاندلی کرتی رہے گی گزشتہ25 سال سے دھاندلی ڈنکے کی چوٹ پر کی جارہی ہے اور اس بدعنوانی اور دھاندلی میں عدلیہ انتظامیہ فوج اور حکومت سب برابر کے شریک ہیں جمہوریت کے اس انتہائی بدبودار نظام پر مزید دھاندلی کی غلاظت کا اضافہ کردیا گیا ہے اب تاریکی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ جلد ہی لوگ اس کے خلاف میدان میں کود پڑیں گے۔اسلام اور اسلامی شریعت کے احکام کے نفاذ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مسٹر10 پرسنٹ آصف زرداری اور بلاول زرداری اور مسٹر 50پرسنٹ نواز شریف اور مریم نواز مسٹر یوٹرن عمران خان دنیا کا کوئی بھی نظام امانت و دیانت سے چلانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ سید تصور عباس موسوی نے ان حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم 21ویںصدی میں زندگی گزار رہے ہیں،جدیدٹیکنالوجی اورسوشل میڈیا کادور ہے ،پاکستان کے باشعور عوام اب کسی بھی جھانسے میں آنے والے نہیں اس لیے مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ وہ جس کا جو مینڈیٹ ہے اس کو تسلیم کریں اور عوام نے جن لوگوں کو ووٹ کے ذریعے5 سال کا مینڈیٹ دیا ہے ان کو موقع دیں ورنہ ملک مزید انتشار کی طرف جائے گا۔مولانا سمیع الحق سواتی نے کہا کہ انتخابی نتائج میںر تاریخ کا بدترین ردوبدل کیا گیا ، مال کا استعمال ہوا۔ جیتے ہوئے امیدواروں کو ہروایا گیا ، ایسے نمائندوں پر مشتمل ایوان سے بننے والی حکومت مشکوک ہی رہے گی۔ قومی مفاد پر ان کا اکھٹا ہونا مشکل ہے ان کا مینڈیٹ جعلی ہے تو ان کا حکومتی کردار اور اتحاد بھی مشکوک رہے گا۔ سماجی رہنماشگفتہ یوسف کا کہنا تھا کہ 50سالہ دھاندلی زدہ انتخابات کی وجہ ہی سے تو 2024 کے انتخابات ترقی کرتے ہوئے دھاندلی زدہ ہوگئے۔اس طرح بننے والی حکومت میں عالمی طاقتوں کا حصہ تو ہے ہی۔اورجانے انجانے مقتدر حلقے بھی اس میں شریک ہو چکے ہیں۔ با شعور عوام کومیں آپکے توسط سے یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ عالمی طاقتیں اس لیے ایسی کمزور اور بدعنوان حکومتیں قائم کرتی ہیں تاکہ اپنی مرضی کی منصوبہ بندی اورقوانین کو عوام پر لاگوکر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اب قوم کو کوبتانا ہے کہ مکمل سچ ہی دیر پا کامیابی کی نشانی ہے انتخابات کے نتائج چاہے جیسے بھی ہوں وہ من و عن قوم کے سامنے رکھ دیے جائیں۔یہ کام جماعت اسلامی کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی روشن مثال پیش کرتی ہوں جنہوں نے جرات ایمانی کامظاہرہ اور سچی گواہی دیتے ہوئے نشست بھی چھوڑدی،ایسے ہی لوگ قوم کومایوسی سے نکال سکتے ہیں۔جماعت اسلامی کی صبیحہ احتشام نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ پاکستان کا مستقبل غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے او ر ایسی مخلوط حکومت زیادہ عرصے تک قائم رہنے کا نہ جواز رکھتی ہے نہ ہی اسکا امکان ہے۔ ایسی مسترد کردہ پارلیمنٹ میں جو عہدوں کی بندر بانٹ ہوئی ہے وہ یقیناً حکومت گرنے کی وجہ بنے گی۔ ملک کو ہر قسم کے مسائل سے نکالنے کا ایک ہی حل ہے کہ فوری طور پر فارم 45کو لاگو کرکے جو منتخب نمائندے ہیں ان کو اقتدار سونپا جائے ورنہ ملک میںانارکی اور کئی مسائل جنم لیں گے۔