مزید خبریں

ہمارے نصاب میں روایات کے برخلاف سوچنے اور تخلیقی فکر اختیار کرنیکی اجازت نہیں

کراچی (رپورٹ خالد مخدومی ) ہمارے تدریسی طریقے جامد اور تنوع سے بھی عاری ہیں، عملی اکتساب وتحقیق کے لیے ہمارے نصاب میں بہت کم گنجائش پائی جاتی ہے طلبہ کو نصاب سے باہر جھانکنے،روایات کے برخلاف سوچنے اور تخلیقی فکر و اسلوب اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے، ا س نظام تعلیم کا واحد مقصد ڈگری یعنی کاغذ کے بے جان ٹکڑے بیچنا ہے، بدلتے وقت کے ساتھ نظامِ تعلیم میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تعلیم کو شماریات کا گورکھ دھندہ بنا کر رکھ دیا گیا، موجودہ نظامِ تعلیم جو بچے حرف بہ حرف امتحانی کاپی میں اتار لیں وہی بچے کامیاب ٹھہرائے جاتے ہیں ،آج بھی ہمارے ملک میں طلبہ کی قابلیت کو ان کے حاصل کردہ نمبر اور درجات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت میں اْن میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کو بھی مدِنظرنہیں رکھا جاتا ۔ ان خیالات کااظہار ممتاز ماہر تعلیم افضل بادشاہ ، اویس چغتائی ،حنا سرور اور کالم نگار جبار قریشی نے جسارت کے اس سوال کاجواب دیتے ہوئے کیا جس میںان سے پوچھاگیاتھاکہ ہمارا نظام تعلیم تخلیقی ذہن پیدا کرنے میںکیوں ناکام ہے ؟ ممتاز ماہر تعلیم افضل بادشاہ نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی میں تعلیم کاکلیدی کردار ہوتاہے۔ کسی بھی ملک کے باشندوں کی خوش حالی سے اس ملک کی خوش حالی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صدیوں سے ریاستیں اپنی غرض کے بندوں کی تیاری کے لیے تعلیم کو ایک کارگر وسیلے کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہیں۔گویا کہ تعلیم کو زمانہ قدیم سے ہی سیاسی اغراض و مقاصد اور نظام جہاں بانی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ تعلیمی نصاب کی تبدیلی ،اہداف و مقاصد کا تعین بھی سیاسی الٹ پھیر کاشکار ہوتے رہے ہیں۔دنیا شاہد ہے کہ انسانیت سازی کے بجائے سیاسی بازی گروں نے تعلیم کو اپنے مفادات حاصلہ کے لیے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔۔ اس حقیقت سے کوئی انکار کی جرات نہیں کرسکتاہے کہ ہمارا تعلیمی نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے پستی کا شکار ہے۔آج بھی ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مطلوبہ تعلیمی سہولیات سے محروم ہے۔ ان کا کہناتھاکہ 90% سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو ’’ذہین وغیر معمولی ‘‘ سمجھنا ایک عام بات ہے۔ اوسط نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو عمومی طور پر ہم کمزورہی سمجھتے ہیں۔ نوآبادیاتی آقاؤں(انگریزوں) کا تیار کردہ نصاب تعلیم آج بھی بغیر کسی مثبت وصحت مند تبدیلی کے اپنی جگہ قائم و برقرار ہے۔یہ نظام تعلیم طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کے بجائے اچھے نمبر حاصل کرنے پرہی زیادہ زور دیتا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دورمیں طلبہ کو کتابی علم پہنچا کر مطمئن ہوجانا دانشوری سے بعید کام ہے۔آج بھی ہمارا 90% تعلیمی نصاب نظریاتی (Theoretical)اصولوں پر مبنی ہے۔عملی اکتساب وتحقیق کے لیے ہمارے نصاب میں بہت کم گنجائش پائی جاتی ہے۔ تنقیدی فکر ،تخلیقی درس و اکتساب کو ہمارے نصاب میں بہت کم جگہ دی گئی ہے۔آج بھی طلبہ ایک مخصوص نصاب ونظام کے تحت بندھے ہیں۔انہیں نصاب سے باہر جھانکنے،روایات کے برخلاف سوچنے اور تخلیقی فکر و اسلوب اختیار کرنے کی اجازت ہے اور نہ ایسا کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دوسرے ملکوں سے نظام تعلیم کومستعار لے کر اسے من و عن راہ دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی اورکا کوٹ مانگ کرپہننا۔ ہمارے تدریسی طریقے نہ صرف جامد ہیں بلکہ تنوع سے بھی عاری ہیں۔ اس میں زندگی کی رمق، چستی پھرتی اور سبک رفتاری بہت کم دکھائی دیتی ہے۔8 گھنٹے تک بلاوقفہ درس و تدریس کی انجام دہی نے جہاں اساتذہ کے تدریسی جذبے اور کارکردگی کو مجروح کیا ہے وہیں تعلیمی اداروں کے طویل اوقات اورکمرہ جماعت کے تھکا دینے والے طویل لیکچر سے طلبہ بھی اکتاہٹ کا شکار ہیں۔تعلیمی اداروں کے طویل اوقات کار اورروایتی طریقہ ہائے درس کی وجہ سے طلبہ دلچسپ اور حقیقی اکتساب سے دور ہوتے جار ہے ہیں۔امتحانات میں بہترین درجے اور نشانات حاصل کرنے کے باوجودہمارے بچوں کا شرح اکتساب تسلی بخش نہیں ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں پڑھانے کا ایک دلچسپ انداز نہ صرف طلبہ میں حقیقی اکتساب کے فروغ کا باعث ہو گا بلکہ ان میں مختلف مضامین و موضوعات کو عملی زاویوں سے دیکھنے سیکھنے،تحقیقی،تخلیقی اور تنقیدی فکر پیدا کرنے میں معاون بھی ثابت ہوگا۔جسارت کے سوال پر حنا سرورکا کہناتھاکہ ہمارے ملک میں تعلیمی سال (اکیڈمک ائیر) کے اختتام پر بورڈ امتحانات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ان امتحانات میں تسلی بخش نشانات نہ حاصلٓ کرنے سے طلبہ کو ذہنی اذیت،پریشانی،تذلیل اور بے اعتمادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمارا معاشرہ ،والدین اورتعلیمی ادارہ جات کھیل، فن کاری، دستکاری اورغیر نصابی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ نصابی مضامین(تعلیمی مضامین) کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ ارباب مجازاورتعلیمی اداروں کے ذمے داران اکثر کھیل کود اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مختص پیریڈز کو بھی نصاب کی تکمیل بلکہ بعض مرتبہ تو معینہ مدت سے قبل ہی نصاب کی تکمیل کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ہمیں ازسر نو حقیقی درس واکتساب کی تعریف و تفہیم اور عمل سے آگہی حاصل کرنے ضرورت ہے۔اکتساب ایک تخلیقی عمل ہے۔حقیقی اکتساب کے زیر اثر طلبہ تخلیقی و عملی نتائج کی روشنی میں اپنے معلومات کو بروئے کار لائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی تمام تر قوتوں کو موثر اکتساب(سیکھنے) پر لگائیں نہ کہ نمبر و درجوں (گریڈز) کی دوڑ میں اسے ضائع کریں۔اس کام کو محکمہ تعلیم،تعلیمی اداروں اور والدین کوساتھ مل کر انجام دینا ہوگا۔تعلیم کا مقصد افراد کو بامقصد زندگی کے لیے تیار کرنا اوران کے مطلوبہ اہداف تک رسائی کے لیے بااختیار بنانا ہے۔ ہر بچہ بڑا ہو کر ایک راکٹ سائنٹسٹ بننا نہیں چاہتا، ہو سکتا ہے کہ وہ بڑا ہوکرایک شاعر، گلوکار، کھلاڑی یا ایک مقرر( عوامی اسپیکر )بننا پسند کرے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم تمام طلبہ کو ایک جیسے مضامین پڑھاتے ہیں اور ان کی انفرادیت کو خاطر میں لائے بغیر ایک ہی طریقہ تعلیم سے سبھی کو گزارتے ہیں۔یہ بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ چند سال بعد پڑھائے گئے مضامین میں سے بیشتر مضامین طلبہ کے لیے اہم ثابت ہوتے ہیں نہ ہی سود مند۔ بے شک اس بات سے کسی کوانکار نہیں ہے کہ ہر مضمون کی بنیادی معلومات طلبہ کو فراہم کرنی چاہیے۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ طلبہ کے تعلیمی زندگی کے 10قیمتی سال تک انہیں ایسے مضامین پڑھائے جائیں جو مستقبل میں ان کے کسی کام نہ آئیں۔طلبہ مستقبل میں کسی ایک مضمون ،ایک پیشہ یا فیلڈ کو اختیار کریں گے تو پھر کیوں ان پر مختلف مضامین کو ایک طویل مدت تک مسلط کیاجاتا ہے۔اس فرسودہ اور روایتی نصاب کو بڑی حد تک بدل نے کی ضرورت ہے۔ہمیں اکتساب کو تاثیر و تخلیق کا ایک حسین مرقع بنا نے کے لیے نصاب تعلیم پربھر پور توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔نصاب میں ضروری مضامین اور اس کی مقدار کی شمولیت کے معیار کو تبدیل کرنا ہوگاممتاز کالم نگار جبار قریشی نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ِن روبنسن جو کہ پوری دنیا میں نامور ماہرِ تعلیم کے طور پر جانے جاتے ہیں انہوں نے بھی تعلیم میں تخلیقی صلاحیتوں پر زور دیا ہے ان کا کہناتھاکہ اگر بچوں کی تعلیم و تربیت میں اْن میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کو بھی مدِنظر رکھا جائے تو ہم صحیح معنوں میں تعلیم کے مقصد سے مستفید ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اگر ہم بچوں کو اْن کی خداداد صلاحیتوں کے عین مطابق لے کر چلیں تو نہ صرف یہ بچے اپنے لیے کامیابیاں سمیٹیں گے بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی نیک نامی کا سبب بنیں گے۔ہمارے معاشرے میں تخلیقی صلاحیتوں کو عام طور پر غلط طریقے سے سمجھا جا تا ہے۔اور اِس کو صرف فنکاروں سے ہی منسوب کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت اِس کے بر عکس ہے۔تخلیقی صلاحیت کی تعریف مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں کی ہے۔ بقول روبرٹ فرینکلن “کسی نئے خیال کو پہچاننے، پیدا کرنے، کوئی متبادل امکانات اور مسائل کا حل جو دوسروں کے لیے سودمند ہو اْسے تخلیقی صلاحیت کہتے ہیں۔”کارل روجرز امریکی ماہرِ نفسیات کے بقول” تخلیقی صلاحیت کا مطلب ہے کسی ناول کا لکھا جانا، چیزوں کا آپس میں تعلق بنانا اور دوسروں سے منفرد انداز میں کسی فرد کا سوچنا” ۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فنکارانہ صلاحیتوں والے لوگ جیسا کہ موسیقار، مصور، شاعر، ناول۔افسانہ نگارلوگ ہی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور یہ خیال درست بھی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص مختلف تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہوسکتا ہے۔جیسا کہ کوئی انجینئرکسی نئے خیال پر کام کرکے نئی چیز بنا سکتا ہے۔کوئی معمار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرکے تعمیر میں جدت لاسکتا ہے۔کوئی سائنس دان اور ماہرِ طبیعات اپنی تخلیقی صلاحیت سے انسانیت کی بھلائی کے لیے نئی چیز ایجاد کرسکتا ہے۔مگر افسوس کہ ہم نے اِس طرف توجہ نہیں دی اور تعلیم میں تخلیق کے عمل کو بہت بری طرح نظر انداز کیاہے ۔ممتاز کالم نگاراویس چغتائی کاکہناتھاکہ تعلیم کا بنیادی مقصد غوروفکر، تخلیقی قوتوں کو پروان چڑھانا، حقائق کی جانچ پڑتال اور انسانی رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا ہے مگر جب ہم اپنے نظام تعلیم کو اس پیمانے پر پرکھتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ ہاتھ نہیں آتا،ہمارے موجودہ نظام تعلیم کا واحد مقصد ڈگری اور بعد ازاں نوکری کا حصول ہے۔امتحانی نظام تعلیم جو برصغیر میں انگریزوں کے وقت رائج تھا،آج بھی وہی چل رہا ہے۔یہ نظام طلبہ کی ذہانت پرکھنے اور ان کی صلاحتیں اجاگر کرنے کے بجائے انہیں رٹو طوطے بننے پر مجبور کرتا ہے۔اس نظام تعلیم کا واحد مقصد ڈگری یعنی کاغذ کے بے جان ٹکڑے بیچنا ہے۔طلبہ کی آدھی عمر ان کاغذ کے ٹکڑوں کو کمانے میں گزر جاتی ہے اور آدھی ان کی نقلیں کرانے کے بعد دفتروں کی خاک چھاننے میں بیت جاتی ہے۔اس تعلیمی نظام سے فارغ التحصیل بچے جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوں تو سوائے ٹھوکروں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ہمارا تعلیمی نصاب اور رائج تدریسی طریقے عصر حاضر سے میل ہی نہیں کھاتے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہم ابھی تک رٹے اور کاپی پیسٹ میں الجھے ہوئے ہیں۔انسان اپنی فطرت میں متجسس واقع ہوا ہے۔ اپنے اردگرد کی چیزوں اور اپنے ماحول کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کا شوق ہی اسے تعلیم کی طرف لاتا ہے مگر تحقیق اور غوروفکر تو ہمارے نظام تعلیم میں سرے سے مفقود ہے۔سائنسی علوم بچوں کو جماعت اول سے پڑھائے تو جاتے ہیں مگر سمجھائے نہیں جاتے۔بچوں کو سائنسی علوم پڑھانے کا ایک ہی مقصد سمجھایا جاتا ہے اور وہ ہے ڈاکٹر اور انجینئر بننا۔ اس کے نتیجے میں طلبہ کی اکثریت 1100 میں سے 1060 نمبر لے کر بھی ڈپریشن کا شکار رہتی ہے۔طلبہ جو ہمارا مستقبل ہیں ان میں کوئی بھی اخلاقی یا تعمیری سوچ پروان چڑھنے کی بجائے پوزیشنز کا جنون سر چڑھ کر بولتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے سروے میں بچوں سے پوچھا جانے والا سوال “آپ کیا بنیں گے” کے جواب میں ڈاکٹر اور انجینئر کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔جب یہی بچے 95فیصد میرٹ کی وجہ سے اس منزل تک نہیں پہنچ پاتے تو ان کی دوسری منزل ڈپریشن ہی ہوتی ہے۔تعلیم ہمیں ایک بہتر اور سلجھا ہوا انسان بننے کی طرف راغب کرتی ہے مگر جب طالبعلموں کی زندگی کا واحد مقصد نمبروں کی دوڑ ہوگی تو بھاری بھرکم کتابیں اور تعلیم بھی اس کو بہتر نہیں بناسکتی۔ہمارے تعلیمی ادارے جو ادارے کم اور تجارتی مراکز زیادہ بنتے جارہے ہیں۔اپنے نام اور اپنے ادارے کی پہچان کے لیے طلبہ کو نمبرز کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔گھر گھر،گلی گلی بینرز چپکانے سے لے کر والدین اور طلبہ کی منتیں کرتے ہوئے انہیں اپنے ادارے میں لانے اور پھر انہیں نمبر مشینز بنانے تک ان اداروں کے سربراہان کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔آسان لفظوں میں جو تعلیم ہمارے اداروں میں دی جارہی ہے وہ نہ تو ہماری سوچ کو بدل رہی ہے اور نہ ہی سائنسی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کوئی کردار ادا کررہی ہے۔اسی نظام تعلیم کی ایک اور خامی الگ الگ تدریسی نصاب بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے طبقاتی نظام تعلیم بھی کہا جاسکتا ہے جس نے امراء کے بچوں کے لیے خصوصی طور پہ انگلش میڈیم اسکولز متعارف کرائے۔ انگلش میڈیم، اردو میڈیم کا یہ تصور ہمارے معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہورہا ہے۔