مزید خبریں

ملک میں گیس کی قلت نہیں، لوڈشیڈنگ کی وجہ غیرضروری استعمال اور چوری ہے

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) ملک میں گیس کی قلت نہیں، لوڈشیڈنگ کی وجہ غیرضروری استعمال اور چوری ہے‘ چوری میں گیس کمپنیوں کے افسران اور اہلکار بھی ملوث نظر آتے ہیں‘ حکومت کچھ نہیںکر رہی، صرف قیمت میں اضافہ کر رہی ہے‘ آئی ایم ایف کا ملک پر دبائوبلاجواز اور ناقابل برداشت ہے‘ 85 فیصد تک قیمت میں اضافے نے ناصرف سماجی و معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچایا بلکہ صنعتوں کا وجود بھی خطرے میںڈال دیا۔ ان خیالات کا اظہار یو بی جی سندھ کے صدر خالد تواب‘چیف کوآرڈی نیٹر ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل فورم، سابق چیئرمین پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن خالد نظام اورصدر پاکستان بزنس فورم خواجہ محبوب الرحمن نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’گیس کی قیمت میں85 فیصد اضافے کے باوجود گیس کی فراہمی میں تسلسل کیوں نہیں؟‘‘ خالد تواب نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ گیس کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ گیس کی فراہمی میں تسلسل بھی نہیں ہے اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھتا جا رہا ہے‘ اس سلسلے میں یہی کہا جاتا ہے کہ گیس کی قلت ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گیس کا غیر ضروری استعمال کیا جا رہا ہے‘ برآمدات میں اس وقت تک اضافہ نہیں ہوگا جب تک صنعتی پیداواری لاگت کم نہ کی جائے اور نہ ہی برآمدات اس وقت تک بڑھیں گی جب تک توانائی کی قیمت کو خطے میں مسابقتی سطح پر ایڈجسٹ نہیں کیا جاتا‘ بجلی کی قیمت 9 سینٹ فی کلو واٹ پر درکار ہے‘ 30 ارب ڈالر کی برآمدات سے ملک ترقی نہیں کر سکتا، پرائیویٹ سیکٹر نے 3 سال میں برآمدات کو 50 بلین ڈالر تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے جس پر عمل کرکے ایکسپورٹ کو خاطر خواہ بڑھایا جاسکتا ہے‘ہم نے بجلی، گیس اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کی ایما پر آئے روز اضافہ بند کیا جائے۔ خالد نظام نے کہا کہ حکومت نے گیس کی قیمت میں85 فیصد غیر دانشمندانہ اضافہ کرکے برآمدات کو تباہ کر دیا ہے‘ صنعت اور تجارت میں غیر ضروری مداخلت کے باعث ملکی معیشت بحران کا شکار ہے‘ صنعتی سرگرمیاں سست پڑ گئیں اور ایکسپورٹ مکمل طور پر سبوتاژ ہو چکی ہے‘ حکومت کو آئی ایم ایف کے بلاجواز اور ناقابل برداشت دبائو کا سامنا ہے‘ گیس کی قیمت میں متواتر 85 فیصد تک اضافے کے باوجود اس کی فراہمی میں تسلسل نہیں ہے اور لوڈشیڈنگ کے اوقات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نرخ میں اضافے نے ایکسپورٹ انڈسٹریز کو عالمی سطح پر مسابقت کے لیے برابری کے میدان سے محروم کرنے کے بعد اب اس کو تباہی کے دہانے کی طرف بھی دھکیل دیا ہے‘ برآمدات پر مبنی صنعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے سے صنعتی اور برآمدی سرگرمیاں رک گئی ہیں۔ خواجہ محبوب الرحمن نے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو زمینی حقائق کے مطابق فوری طور پر اس طرح قابل قبول بنایا جائے کہ کاروباری اداروں کو منافع بخش اور پائیدار طریقے سے چلانا ممکن ہو سکے‘ موجودہ حالات میں گھروں اور فیکٹریوں میں کام کرنا مشکل ہے‘ گیس کی فراہمی میں تسلسل نہ ہونے کی ایک وجہ گیس کی بھی چوری ہے‘ اس چوری میں گیس کی کمپنیوں کے افسران اور اہلکار بھی ملوث نظر آتے ہیں لیکن حکومت اس چوری کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے‘ حکومت کو توانائی کی قیمتوں میں بلا روک ٹوک اضافے کی اپنی پالیسی پر فوری طور پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ خاص طور پر کیپٹیو گیس کی قیمت میں 223 فیصد اضافہ جو جنوری 2023ء سے اب تک 2,750 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچا چکا ہے‘ یہ ناقابل برداشت ہے کیونکہ اس سے صنعتوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ پاکستان بزنس فورم نے تجویز پیش کی کہ توانائی سے متعلق افراط زر اور پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ڈیموں کے جاری منصوبوں میں تیزی لانی چاہیے اور ملک کے طول و عرض میں نئے چھوٹے چھوٹے ڈیموں کا بھی اعلان بھی کیا جائے۔