مزید خبریں

نئی حکومت کی معاشی پالیسی عوام نہیں آئی ایم ایف کے لیے ہو گی

حکومت بن رہی ہے اور ملک کے عوام کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اس پر آئی ایم ایف کیا شرائط عائد کر تی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُدھرواشنگٹن سے مصول ہو نے والی اطلاعات کے مبؤطابقعالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )3ارب ڈالر کے اسٹینڈبائی ارینجمنٹ (ایس بی اے)پروگرام کیلئے اپنا مشن پاکستان بھیجنے کیلئے تیار ‘وفد نئی کابینہ کی تشکیل کے فوری بعد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ لیکن اس سے قبل ہی ہماری نئی حکومت بھی دال دلیہ چلانے کے لیے آئی ایم ایف مشن کاشدت سے انتظار کر رہی ہے 7مارچ کو پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں آئی ایم ایف کی ترجمان مس کوزاک نے بتایاکہ پاکستانی عوام کی بھلائی اور میکرواکنامک استحکام کیلئے اسلام آباد کے ساتھ ملکر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد آئی ایم ایف دوسرے جائزے کیلئے اپنا مشن پاکستان بھیجنے کو تیار ہے۔

جہاں سیاست دان ملک کے طول و عرض میں اگلی حکومت سازی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہیں معاشی ماہرین اور صنعت کار اس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ نئی حکومت معاشی چیلینجیز سے کس طرح نبردآزما ہوگی۔معیشت دانوں اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ گھمبھیر معاشی ومالی مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی حکومت کو سخت اقدامات کرنا پڑیں گے ورنہ ملک مزید معاشی تباہی کی طرف گامذن ہوگا۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمارا فوکس موجودہ اسٹینڈ بائی پروگرام ہے جو اپریل 2024ء میں ختم ہوگا۔ ہم میکرواکنامک استحکام کے حوالے سے نئی حکومتی پالیسیوں کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے متعلق سوال کے جواب میں کہاکہ وہ سیاسی صورتحال پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گی۔

نئی حکومت کو اس وقت بڑھتے ہوئے قرضے کی فکر لاحق ہے ۔واضح رہے کہ مختلف حکومتوں نے سن 1980 کے بعد سے اب تک غریب عوام کو دی جانے والی کئی سبسڈیز کو ختم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی
میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ ملکی قرضے جو 70 کی دہائی میں 10 ارب ڈالرز بھی نہیں تھے، وہ اب 130 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی، دفاع کا بجٹ، خسارے میں چلنے والے قومی ادارے اور انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو پیسوں کی ادائیگی قومی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہے۔

واضح رہے کہ نگراں حکومت کے دور میں حکام نے سخت زری پالیسی ‘سوشل سیفٹی کے تحفظ کے ذریعے مالیاتی اہداف پر عملدرا?مد کرتے ہوئے معاشی استحکام کو برقرار اور زرمبادلہ ذخائر کو بلند سطح پر پہنچایاہے ،اور یہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب توانائی کے شعبے کی عملداری کو بڑھانے کے لیے ٹیرف میں بروقت ایڈجسٹمنٹ کو لاگو کیا گیا ہے۔آئی ایم ایف ترجمان کے مطابق پاکستان کے ساتھ 11جنوری کو ایگزیکٹیو بورڈ نے پروگرام کے پہلے جائزے کی منظوری دی تھی جس کے بعد پاکستان کو ملنے والی قرض کی رقم ایک ارب 90کروڑڈالر ہوگئی تھی۔

ہماری نئی حکومت کے لیے مالی نظم و ضبط سب سے بڑا چیلنج اور حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔ ملک کے اخراجات تقریباً 15 ٹریلین پاکستانی روپیہ ہے جبکہ حکومت کی آمدنی صرف دس ٹریلین پاکستانی روپے ہے۔ نئی حکومت کو تقریباً پانچ ٹریلین پاکستانی روپے کا گیپ فل کرنا پڑے گا، جس کے لیے مالی نظم وضبط بہت ضروری ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کے قرضے عوامی فلاح کے لیے تو ہو تے نہیں ہیں لیکن ہماری حکومت قرضے لیتی بھی عوام کے نام پر ہے اور واپس بھی عوام پر بھاری ٹیکس لاد کر ادا کرتی ہے

پاکستان میں قرضوں کا حجم ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 1980 ء کی دہائی میں جب عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر نیو لبرل معاشی پالیسی شروع کی گئی تھی، تو کہا گیا تھا کہ سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کیا جائے گا اور ان اداروں پر خرچ ہونے والے پیسے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے گا۔ لیکن اب 80 فیصد کے قریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں، 44 فیصد بچوں کے مناسب خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے قد نہیں بڑھیں گے اور چھ کروڑ سے زیادہ افراد سطح غربت پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔س وقت قرضوں پر شرح سود بائیس فیصد ہے۔ ” عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کے نتیجے میں اب حکومت اسٹیٹ بینک سے براہ راست قرضہ نہیں لے سکتی جبکہ پرائیویٹ بینکوں اور عالمی اداروں سے قرضہ لینے کی صورت میں قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوگا، جس کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے پیسے نہیں ہوں گے۔‘‘ انڈر انوائسنگ کو روکنا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ہمارے ہاں اگر صنعت کار چوبیس ارب ڈالرز کی درا?مد کرتا ہے، تو ظاہر محض چودہ ارب ڈالرز کرتا ہے۔ دس ارب ڈالرز پر حکومت کو ڈیوٹی نہیں ملتی، جس سے خزانے کو بہت نقصان ہوتا ہے۔‘‘ یہ صورتحا ل برسوں سے چل رہی ہے اور نہ جانے کب تک چلتی رہے گی ۔ اس کی وجہ بھی ملک اشرافیہ ہیں جن ۔‘‘ انڈر انوائسنگ اور دیکر ۔‘‘ انوائسنگـ”کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے

کہا یہی جاتا ہے کہ ملکی برآمدات بڑھانے سے قرضوں سے نجات مل سکے گی۔اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ ساری حکومتوں نے صرف چند اشیاء کی ایکسپورٹ پہ انحصار کیا، جس کی وجہ سے روزگار کے کافی مواقع پیدا نہیں ہو سکے۔ ”ہم صرف ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ پر توجہ دیتے ہیں۔ اگر تیس بلین ڈالرز کی مجموعی ایکسپورٹ ہوتی ہے، تو اس میں بائیس بلین ڈالرز ٹیسکٹائل کے ہوتے ہیں۔ ہمیں پھل، سبزیاں، ا?ئی ٹی اور دوسری طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔‘‘

ٹیکس نیٹ بڑھانا بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ ”پوری دنیا میں صرف ٹیکس ادا کرنے والا اور ٹیکس چور ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں فائلرز اور نان فائلرز کی بات ہوتی ہے۔ سرکاری ادارے خود ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ ٹیکس چوری کیا جائے تو نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ کس طرح وہ ایف بی آر میں اصلاحات کرتی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھاتی ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا بھی ایک ڑا چیلنج ہوگا۔ ”اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط جیسے کہ توانانی کی قیمتیں بڑھانے پر عمل نہیں کرے گی، تو آئی ایم ایف سے اگلی قسط ملنا مشکل ہو گا، ایسی صورت میں ملک مالی طور پر دیوالیہ ہو سکتا ہے۔‘‘

مسلم لیگ نون یا کوئی بھی حکومت کے لیے معیشت سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ کس طرح اشرافیہ کے خلاف اقدامات کرتی ہے۔ ” پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کو پیسے دیتے ہیں بعد میں یہ سیاسی جماعتیں انہی کی خدمت کرتی ہیں۔ تو کسی بھی نئی حکومت خصوصاً نون لیگ کے لیے سب سے بڑا یہ چیلنج ہوگا کہ وہ کس طرح 17 بلین ڈالرز سے زیادہ کی سبسڈی جو امرا کو دی جاتی ہے اس کو ختم کرے اور پانچ بلین ڈالرز سے زیادہ کی پر تعیش اشیا کی امپورٹ بند کرے۔‘‘

پاکستان میں مہنگائی نے ’دو وقت کی روٹی کمانا مشکل کر دی۔ اسحاق ڈار یا شوکت ترین کی بجائے ایک ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو معیشت کی سوچ بوجھ رکھتا ہو اور اصلاحات کر سکے۔80 کی دہائی سے حکومتیں سرکاری ادارے بیچ رہی ہیں جس سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ ”پرائیویٹ ادارہ کبھی بھی بڑے پیمانے پہ روزگار پیدا نہیں کر سکتا۔ پوری دنیا میں سرکاری ادارے بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرتے ہیں۔ لہذا اسٹیل مل، پی آئی اے یا دوسرے اداروں کی نجکاری کی بجائے ان کی بحالی پہ کام کیا جانا چاہیے۔‘‘
nn