مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

رمضان کی برکات
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔ (احمد، نسائی)
یہ حدیث نبیؐ کے ان خطبات میں سے ہے جو آپؐ رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کو اس مبارک مہینے کی اہمیت اور برکات سے آگاہ فرمانے کے لیے دیا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ نے پہلی بات یہ بتائی کہ رمضان بڑی ہی برکت والا مہینہ ہے اور اس کے روزے امت پر فرض کیے گئے ہیں۔

برکت کا مفہوم
برکت کے اصل معنی ہیں افزایش کے۔ رمضان کے مہینے کو مبارک مہینہ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے اندر بھلائیاں نشو ونما پاتی ہیں اور نیکیوں کو افزونی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس برائیاں بڑھنے کے بجائے سکڑتی چلی جاتی ہیں اور ان کی ترقی رک جاتی ہے۔ (کتاب الصوم، ص43)
ماہِ رمضان کے بزرگ یا بابرکت ہونے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس کے دنوں، گھنٹوں یا منٹوں میں فی نفسہ کوئی ایسی برکت شامل ہے جو لوگوں کو خود بخود حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ تمھارے لیے ایسے مواقع پیدا کردیتا ہے جن کی بدولت تم اس کی بے حد وحساب برکات سے فائدہ اْٹھا سکتے ہو۔ اس مہینے میں ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ عبادت کرے گا اور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا، وہ سب اس کے لیے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیں گے۔ اس لیے اس مہینے کے بزرگ اور بابرکت ہونے کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر تمھارے لیے برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کردیے گئے ہیں۔ (ایضاً، ص 52)

رمضان میں فیاضی
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپؐ ہر اسیر کو رہا کر دیتے تھے اور ہرسائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔ (بیہقی)
رسول اللہؐ کی شفقت، رحم دلی، نرمی، عطا، بخشش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھا ہی، کہ یہ چیزیں آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھیں، لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپؐ معمول سے کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ کے ساتھ آپؐ کی محبت میں شدت آجاتی تھی، اس لیے آپؐ کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیسا کہ خود نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے، وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اس لیے آپؐ رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضورؐ کے عمل میں دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا۔
رسول اللہؐ کے اس عمل کے بارے میں کہ آپؐ رمضان میں ہر قیدی کو رہا کردیتے تھے، محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کر دینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ذمے کا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے ماخوذ ہوں۔

نبیؐ ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرکے ان کو آزاد کردیتے تھے۔ اس طرح کی بعض دوسری توجیہات بھی اس قول کی کی گئی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک اور شکل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً آج کل کے زمانے میں ایک طریقہ پیرول (parole) پر رہا کرنے کا ہے، یعنی قیدی کو قول لے کر رہا کر دینا۔ قیدی کو اس اْمید پر رہا کردیا جاتا ہے کہ وہ رہائی کی مدت ختم ہونے کے بعد خود واپس آجائے گا۔ وہ معاشرہ ایسا تھا کہ اس میں اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ جس قیدی کو رہا کیا جا رہا ہے، وہ یہ خیال کر کے کہ اب مجھے کون پکڑتا ہے، کسی ایسی جگہ فرار ہوجائے گا، جہاں سے اس کو پکڑنا ممکن نہ رہے گا۔ وہ تو ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہوجاتا تھا تو خود آکر اس کا اعتراف کرتے تھے تاکہ ان کو سزا دے کر پاک کر دیا جائے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ نبیؐ کے مذکورہ عمل کی یہ شکل رہی ہو کہ حضورؐ ایسے لوگوں کو، جن کی سزا معاف نہ ہوسکتی تھی، رمضان کے زمانے میں مشروط طور رہا کر دیتے ہوں تاکہ وہ رمضان کا مبارک زمانہ اپنے گھروں پر گزاریں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ایضاً،ص 60-61، درسِ مشکوٰۃ سے انتخاب)