مزید خبریں

بھاری سودی معیشت سے کو ن ترقی کر سکتا ہے؟

پاکستان میں ارض کے سوا بھی کو ئی معیشت بن سکے گی ۔ملک میں ہر آنے اور جانے والے حکمران یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی حمایت کے باوجود عالمی مالیاتی منڈیاں میں کم کریڈٹ ریٹنگ اور منفی حالات میں قرض لینے کے محدود مواقعوں کے سبب پاکستان نے غیرملکی قرضوں کی صورت میں یہ رقم حاصل کی،تاہم نگران حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے قرضوں کا بہترین انتظام کیا اور 24-2023 کے وفاقی بجٹ میں بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹ اور تجارتی قرضوں کا سہارا نہیں لیا۔تفصیلات کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال 2023-24 کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 2.4 بلین ڈالر کا بجٹ دیا ہے اور 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) میں سے 1.9 بلین ڈالر وصول کیے ہیں تاہم یہ ای اے ڈی کے ڈیٹاکی عکاسی نہیں کرتا،علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات کی طرف سے 1 بلین ڈالر کی رقم کا کوئی ذکر نہیں ہے
اب یہ کون بتائے گا کہ پاکستان میں کی معیشت جس کے لیے عوام کھربوں روپے کا ٹیکس حکومت کو دیتے وہ سب عوام پر خرچ کر نے بجائے آئی ایم ایف کے اشاروں پر قرض اور اس کے سود پر برباد ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہی کہا جارہا آئی ایم کی مدد سے پاکستان کی معیشت بہترہو گی ۔لیکن بھاری سود کی معیشت سے کو ن ترقی کر سکتا ہے

ملک نے رواں مالی سال 2023-24کے پہلے سات مہینوں (جولائی 2023تا جنوری2024) کے دوران متعدد مالیاتی ذرائع سے 2022- 23کے اسی عرصے کے دوران لیے گئے بیرونی قرضوں کی مد میں 6.134 بلین ڈالر کے مقابلے میں 6.306 بلین ڈالر کا قرضہ لیا جوکہ سالانہ بجٹ تخمینے کا تقریباً 35.75 فیصد ہے۔ جبکہ اقتصادی امور ڈویڑن( ای اے ڈی) نے انکشاف کیا کہ جنوری 2023 میں 294.54 ملین ڈالر کے مقابلے جنوری 2024 میں ملک کو 331.59 ملین ڈالر موصول ہوئے۔
اگر آئی ایم ایف اور متحدہ عرب امارات کے انفلوز کو شامل کیا جائے تو رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران کل رقوم 9.206 بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق بانڈز میں 1.5 ارب ڈالرز کے علاوہ، حکومت نے رواں مالی سال کے لیے غیر ملکی تجارتی قرضوں کے لیے مزید 4.5 ارب ڈالرز لینے کا ہدف بھی بجٹ میں رکھا تھا لیکن کرنٹ اکاو ¿نٹ خسارے میں کمی کے باعث اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ 6.306 بلین ڈالر میں جولائی 2023 کے دوران ٹائم ڈپازٹ کی مد میں سعودی عرب سے موصول ہونے والے 2 بلین ڈالر شامل تھے۔ اعداد و شمار مزید بتاتے ہیں کہ حکومت نے رواں مالی سال 2023-24 کے لیے غیر ملکی کمرشل بینکوں سے 4.5 بلین ڈالر کے بجٹ کا تخمینہ لگایا تھا۔

تاہم، رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران اس مد میں کوئی رقم موصول نہیں ہوئی۔حکومت نے بانڈز کے اجراء￿ سے 1.5 بلین ڈالر کا بجٹ رکھا تھا۔ تاہم، ملک نے ابھی تک بانڈز جاری کرنے ہیں، اس لیے ابھی تک کوئی رقم موصول نہیں ہوئی ہے۔حکومت نے رواں مالی سال کے لیے متعدد مالیاتی ذرائع سے 17.619 بلین ڈالر کا بجٹ رکھا تھا جس میں 17.384 بلین ڈالر کے قرضے اور 234.60 ملین ڈالر کی گرانٹس شامل ہیں۔ملک کو رواں مالی سال-24 2023 کے پہلے سات ماہ کے دوران “نیا پاکستان سرٹیفکیٹ” کے عنوان سے 595.09 ملین ڈالر موصول ہوئے۔ملک کو جولائی تا جنوری -24 2023 کے دوران کثیر جہتی سے 2.408 بلین ڈالر اور دو طرفہ سے 794.61 ملین ڈالر موصول ہوئے۔ غیر پراجیکٹ امداد 4.535 بلین ڈالر تھی جس میں بجٹ کی مدد کے لیے 3.309 بلین ڈالر اور پراجیکٹ امداد 1.771 بلین ڈالر تھی۔چین نے چائنا نیشنل ایرو ٹیکنالوجی امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کارپوریشن (سی اے ٹی آئی سی) کے ذریعے مالی اعانت فراہم کیے جانے والے JF-17 B منصوبے کے لیے 508.34 ملین ڈالر کی ضمانت دی گئی ہے۔ چین نے رواں مالی سال کے لیے حکومت کے 18.54 ملین ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں جولائی-جنوری میں مزید 42.18 ملین کی رقم تقسیم کی۔ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے مالی سال -24 2023 کے لیے 2.086 بلین ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں زیر جائزہ مدت کے دوران 620 ملین ڈالر تقسیم کیے ہیں۔سعودی عرب نے جولائی تا جنوری -24 2023 کے دوران تیل کی سہولت کی مد میں 600 ملین ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں 595.18 ملین ڈالر تقسیم کئے۔سعودی عرب نے رواں مالی سال میں اب تک مزید 59.05 ملین ڈالر تقسیم کیے ہیں۔امریکہ نے پہلے سات مہینوں میں مالی سال کے لیے 21.60 ملین ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں 25.67 ملین ڈالر تقسیم کیے ہیں۔رواں مالی سال کے دوران کوریا نے 12.38 ملین ڈالر اور فرانس نے 30.64 ملین ڈالر فراہم کئے۔آئی ڈی اے نے رواں مالی سال کے بجٹ کے 1.489 بلین ڈالر اور IBRD نے 840.36 ملین ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں جولائی-جنوری میں 1.058 ملین ڈالر تقسیم کئے۔آئی ایس ڈی بی (شارٹ ٹرم) نے رواں مالی سال کے لیے 500 ملین ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں جولائی-جنوری میں 200 ملین ڈالر تقسیم کیے اور AIIB نے 292.96 ملین ڈالر تقسیم کیے، جب کہ IFAD نے رواں مالی سال کے لیے 42.68 ملین ڈالر کے بجٹ کے مقابلے میں 23.12 ملین ڈالر تقسیم کیے ہیں۔

پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ بجلی کا شعبہ عوام اور پیداواری سیکٹر کو دیوالیہ کر رہا ہے۔ پہلے موسم سرما میں بجلی کے بل کم ہو جاتے تھے مگر اب اس موسم میں بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔سوال یہی ہے کہ حقیقت کیا ہے یہ ساری صورتحال ملک کے لیے تباہ کن ہے کہ نہیں اس سلسلے میں عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنوری کے مہینے میں استعمال ہونے والی بجلی کے نرخ میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پرسات روپے تیرہ پیسے فی یونٹ کے اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے جو عوام کو مارچ میں ادا کرنا ہونگے ۔ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ پاور سیکٹر میں چوری کرپشن بد انتظامی اور نااہلی کم کرنے کے بجائے مسلسل بجلی کے نرخ بڑھانے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے جس سے معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عوام سے انکی طاقت سے زیادہ بل وصول کئے جا رہے ہیں جو ظلم ہے۔ دوسری طرف شمسی توانائی استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی زور و شور سے جاری ہے۔ اس شعبہ میں سرمایہ کار اور عوام اربوں روپے لگا چکے ہیںجسکی انھیں سزا دی جا رہی ہے جس سے سرمایہ کاری کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔ شمسی توانائی استعمال کرنے والے صارفین کو نیٹ میٹرنگ کی سہولت دی گئی تھی تاکہ وہ سرپلس بجلی حکومت کو فروخت کر سکیں۔ اب ان صارفین کا منافع مسلسل کم کیا جا رہا ہے تاکہ عوام کو شمسی توانائیکے بجائے دوبارہ مہنگی بجلی کے طرف دھکیلا جا سکے۔حکومت کی پالیسیوں میںاس طرح کی بنیادی تبدیلی سے سرمایہ کار خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور وہ پاکستان میں سرمایہ لگانے کو بڑا رسک سمجھتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے ہی ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ڈاکٹر مغل نے کہا کہ آئی پی پیز لگانے کے تباہ کن اثرات نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے مگر اسکے باوجود ہر حکومت میں شامل با اثر افراد اپنے فائدے کے لئے نجی شعبہ میں زیادہ سے زیادہ بجلی گھر لگانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ سے چوری میں اضافہ اور اسکے استعمال میں کمی ہو جاتی ہے اور لوگ دیگر راستے اختیا رکرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے نجی بجلی گھروں کو کی جانے والی ادائیگیاں مزید مشکل ہو جاتی ہیں مگر کوئی حکومت اس سلسلہ میں اصلاحات کے لئے تیار نہیں ہے۔

کیا اس بات میں کو ئی حقیقت ہے کہ حکومت سازی کے لئے دوبڑی سیاسی پارٹیوں میں اتفاق خوش آئند ہے جس سے عوام میں بے چینی کم ہوجائے گی اورملک کوبحران سے نکالنے میں مدد ملے گی۔میاں نواز شریف نے فیورٹ ہونے کے باوجود میاں شہباز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کر ٹھیک ہی کیا ۔ پیپلز پارٹی کا بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کا خواب پورا نہیں ہوا۔ ن لیگ اورپی پی پی کا اہم قومی معاملات پرمتفق ہونا سیاسی تدبر کی نشانی ہے بہتر ہوگا کہ ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمن اور دیگر ہم خیال سیاسی شخصیات اور پارٹیوں کو بھی حکومتی اتحاد میں شامل کیا جائے اور مثبت شہرت رکھنے والے سیاسی قائدین یکسوہوکرملک کومسائل کے گرداب سے نکالیں۔ بزنس کمیونٹی کو یقین ہے کہ نامزد وزیراعظم میاں شہباز شریف اور نامزد صدر مملکت آصف علی زرداری معیشت کوبہتربنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور قرضے کی ایک بڑی قسط جوچند ماہ میں ادا کرنی ہے کے رول اوور کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میاں شہباز شریف اورپی پی پی کی قیادت کا فرض ہے کہ ملکی حالات بہتربنائیں، مہنگائی بے روزگاری اور دہشت گردی کے خلاف موثراقدامات کریں اورعوام کوریلیف دینے کی ہرممکن کوشش کریں۔ ن لیگ، پی پی پی کوناکام سرکاری اداروں کی فروخت پرقائل کرے، زرعی وصنعتی پیداوار بڑھائے اورصحت وتعلیم کے تباہ حال شعبوں پرتوجہ دے۔ ملک کواپنے پیروں پرکھڑا کرنا، ترقی وخوشحالی کی طرف لے جانا اور روزگار کے مواقع بڑھانا اب ان دونوں پارٹیوں کی ذمہ داری ہے۔
nn