مزید خبریں

الیکشن کمیشن شفاف انتخابات میں ناکام رہا،دھاندلی نے جمہوری روایات کو پامال کیا

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) الیکشن کمیشن شفاف انتخابات میں ناکام رہا ‘ دھاندلی نے جمہوری روایات کو پامال کیا ‘مقتدر حلقے اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں‘امیدواروں، پولنگ ایجنٹوں اور مبصرین کو عبوری نتائج کی تیاری کے عمل کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی‘ پی ٹی آئی کو نشانہ بنایاگیا‘جماعت اسلامی کامینڈیٹ چوری کیا گیا ‘ فارم 45کے بجائے 47 پر نتائج بنائے گئے‘ جیتنے والے ہارگئے۔ان خیالا ت کا اظہارمعروف مصنف و تجزیہ نگار اورپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی(پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اسد اقبال بٹ،جماعت اسلامی کراچی پبلک ایڈ کمیٹی کے صدر سیف الدین ایڈووکیٹ ، تحریک انصاف آزاد کشمیر کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری سردار محمد اسرائیل قاضی اور کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کے ایمبیسڈر ،پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر اور ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’الیکشن 2024ء کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟‘‘احمد بلال محبوب نے کہاکہ8فروری کے انتخابات کے بعد 45،48،46اور 49 فارم یہ چاروں فارم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر انتخابات کے انعقاد سے 14 دن کے اندر شائع ہوجانا چاہئیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو چھپایا جا رہا ہے‘ انتخابات میں ٹرانسپیرنسی نہیں ہے‘ قانون کے مطابق انتخابی نتائج کا اعلان رات 2 بجے کرنا ضروری ہے‘ رات کے 2 بجے تک 859 حلقوں میں سے کسی ایک حلقے کا بھی نتیجہ نہیں آیا اور اگلے دن 10 بجے تک ان کو لازمی آ ٓجانا چاہیے تھا‘ تب بھی مشکل سے 30 فیصد حلقوں کے نتائج آئے تھے تو اس تاخیر کا سبب کیا ہے‘ اس کی انکوئرای ہونا بہت ضروری ہے جو انتخابات ہوئے ہیں اس کے اندر فارم 45 اور فارم 47 کے درمیان جو ایک بڑا فرق ہے یہ ایک مرکزی نقطہ ہے‘ دھاندلی کے حوالے سے ہمارے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ الیکشن ٹریبونل میں 45 دن کے اندر الیکشن پٹیشن داخل ہوگی‘پھر 6 مہینے کا وقت ہے جس پر الیکشن ٹریبونل فیصلہ کرے گا یعنی ساڑھے 7 مہینے تو یہ ہو گئے اور بہت کم ٹریبونلز ہیں جو وقت مقررہ پر فیصلہ کرتے ہیں ورنہ ٹریبونل کی کارروائی اگلے انتخابات تک چلتی رہتی ہے‘ٹریبونلز کو ایک ماہ میں فیصلے کرنے چاہئیں‘ فارم 45 اور فارم 47 موجود ہیں اس لیے انتخابی عذرداریوں کا فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے‘ قومی سلامتی کمیٹی میں انتخابات کو شفاف بنانے پر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے‘ قانونی پلیٹ فارمز پر45 اور 47 فارم پر کام ہونا چاہیے۔ رات 2 بجے تک ایک بھی نتیجہ نہ آنے کی تفتیش بہت ضروری ہے‘ 100 فیصد حلقوں میں تاخیر کرکے ضرور کچھ کیا گیا ہے۔ اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 2024ء میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں‘ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی ) کے انتخابی مبصرین نے 51 حلقوں میں انتخابی عمل کا جائزہ لیا ہے‘ ان مبصرین کی رپورٹس اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پولنگ کے دن ملک بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند ہونے اور پولنگ کی معلومات میں من مانی تبدیلی نے ووٹروں، خاص طور پر معذور افراد، بزرگوں، کم آمدنی والے افراد اور ان خواتین کی پولنگ اسٹیشنوں تک رسائی کو متاثر کیا جن کی نقل و حرکت محدود ہے۔ ریٹرننگ افسران کی جانب سے انتخابی نتائج کے اعلان میں طویل تاخیر خاص طور پر باعث تشویش ہے‘ پولنگ کے بعد کا عمل واضح طور پر غیر اطمینان بخش تھا‘ ایچ آر سی پی نے جن پولنگ اسٹیشنوں کا مشاہدہ کیا‘ ان میں سے ہر پانچویں پولنگ اسٹیشن میں پریزائیڈنگ افسر نے کسی نمایاں جگہ پر ووٹوں کی گنتی کا بیان چسپاں نہیں کیا یا اس نے ریٹرننگ افسر اور ای سی پی کو نتائج کی تصویر نہیں بھیجی ۔ بہت سے واقعات میں یہ الزامات بھی سامنے آئے کہ ریٹرننگ افسر کا اعلان پریزائیڈنگ افسر کی گنتی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ امیدواروں، پولنگ ایجنٹوں اور مبصرین کو عبوری نتائج کی تیاری کے عمل کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایچ آر سی پی ایک پارلیمانی باڈی کی نگرانی میں 2024ء کے انتخابات کی آزادانہ تحقیقات کی سفارش کرتا ہے۔ سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا انتخابی عمل یا اس کے نتائج کے انتظام میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے‘ پارلیمنٹ کو نگراں حکومت کی اسکیم کی افادیت پر بھی بحث کرنی چاہیے‘ پولنگ کے دن اور پولنگ ختم ہونے کے بعد موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بلا رکاوٹ دستیاب ہونی چاہئیں‘ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق فارم 45، 46، 48 اور 49 شائع کرنے چاہئیں‘ ناراض سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کی جانب سے درخواستیں موصول ہونے پر ای سی پی کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دینا چاہیے جہاں جیت کا مارجن کم ہے اور جہاں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد جیت کے مارجن سے زیادہ ہے۔ انتخابات کی شفافیت پر نہ صرف الیکشن کمیشن میں اہلیت کی کمی ہے بلکہ غیر جمہوری حلقوں کے مسلسل دباؤ اور نگراں حکومت کے قابل اعتراض فیصلوں، جس کی ایچ آر سی پی نے گزشتہ سال بارہا نشاندہی کی تھی ، کی وجہ سے بھی سمجھوتہ کیا گیا۔ اب تمام فریقین کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل، بمعنی اور جامع سیاسی بات چیت کے ذریعے اجتماعی طور پر سویلین بالادستی کو برقرار رکھیں‘درحقیقت ان انتخابات کا سب سے بڑا نقصان کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کا نہیں ہوابلکہ جمہوری اقدار، قانون کی حکمرانی اور عام لوگوں کی امنگوں کا ہوا ہے۔سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے دعوے کے مطابق صاف شفاف انتخابات کرانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا ہے، دھاندلی نے جمہوری روایات کو پامال کیا ہے۔ آراوز کے ذریعے انتخابات جیتنے والے عوام کے نہیں بلکہ کسی اور کے نمائندے ہیں‘ عوام جعلی مینڈیٹ اور جعلی حکومت کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ جماعت اسلامی کراچی سمیت پورے پاکستان میں اپنا چھینا ہوا مینڈیٹ واپس لینے کے لیے بھر پور احتجاج جاری رکھے گی جس انداز میں ہمارے حق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے‘ یہ عمل قابل قبول نہیں ہے‘ قوم کے ایک کھرب لگاکر قوم کو جمہوریت کے نام پر دھوکا دیا گیا ہے‘ آج تک ای ایم ایس کے بیٹھنے اور موبائل انٹرنیٹ کی بندش کی تحقیقات نہیں کرائی جاسکی ہیں۔ فارم 45کو چھوڑ کر فارم 47 پر نتائج بنائے گئے۔ الیکشن کمیشن اپنی ناکامی تسلیم کرے‘ چیف الیکشن کمشنر استعفا دیں۔ الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے کراچی میں ایم کیو ایم کو سیٹیں دی گئی ہیں‘ قوم کو سوچی سمجھی سازش کے تحت مضبوط اور پائیدار جمہوری عمل سے دور کیا جا رہا ہے‘ شہر قائد کے مختلف علاقوں میں برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کے د ہشت گردوں نے بدترین دھاندلی کی، مختلف پولنگ عملے اور ایجنٹس اور ووٹروں کا دھمکا یا گیا مگر اس تمام صورتحال میں الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں دکھائی نہیں دیے‘ صرف نمائشی انتظامات کیے گئے‘شہر میں انتہائی حساس قرار دیے جانے والے پولنگ اسٹیشن پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل غائب رہے‘ متعدد بار انتخابی بے ضابطگیوں ٹھپے لگانے والوں اور اسلحہ برداروں کے حوالے سے جماعت اسلامی کی جانب سے متعدد بار شکایات کی گئیں مگر ان واقعات کا الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی نوٹس نہیں لیا گیا جس سے شفاف الیکشن کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔محمد اسرائیل قاضی نے کہا کہ8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں آخری لمحے تک غیر یقینی کے بادل چھائے رہے‘ عدالت عظمیٰ کو نہ صرف الیکشن کی تاریخ لے کر دینی پڑی بلکہ 8 فروری تک اس پر پہرہ بھی دینا پڑا‘ الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ اسے آزاد لڑنے پر مجبور کیا گیا اور پھر اس کے ووٹرز کو مایوس کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر پی ٹی آئی کے ووٹرز نے اپنا تمام غصہ سنبھال کر رکھا اور بیلٹ کے ذریعے نکالا ہے‘ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ الیکشن سے قبل جس پارٹی کی ہوا بنائی اور چلائی گئی، جس پارٹی کے حق میں تجزیے، تبصرے اور سروے کرائے گئے، جس کو دوڑنے کے لیے لیول کر کے فیلڈ دی گئی، وہی پارٹی ہار گئی ہے۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ ہر بار الیکشن میں پہلے کے مقابلے میں کچھ بڑھ کر دیکھنے کو ملتا ہے‘ ہر بار ایسی ’’الیکشن مینجمنٹ‘‘ ہوتی ہے کہ جس کو ہمارا الیکشن مینجمنٹ سسٹم بھی برداشت نہیں کر پاتا ‘ اگر تھوڑا ماضی میں جائیں اور بات کریں‘2013ء کے الیکشن کی تو رزلٹ منیجنگ سسٹم نے ایسی تیزی دکھائی کہ 5 گھنٹے میں ہی میاں صاحب نے وکٹری اسپیچ کر ڈالی تھی‘ اس طرح 2013ء کا الیکشن روز کا الیکشن کہلایا‘ ہم2018ء میں پہنچے تو انتخابات ہوئے اور آر ٹی ایس بیٹھ گیا اور نتائج آنا بند ہو گئے جس کی وجہ سے بنے والا وزیراعظم سلیکٹڈ کہلایا۔ اب کی بار الیکشن مینجمنٹ سسٹم ( ای ایم ایس) متعارف کرایا گیا تاکہ آسانی سے نتائج ’’مینج‘‘ کیے جا سکیں‘ الیکشن کمیشن کا بنایا گیا فل پروف سسٹم بھی بیٹھ گیا‘ پوری رات ہی بیٹھا رہا‘ پھر جب اٹھا تو ایسی مینجمنٹ کر کے اٹھا کہ تمام نتائج پر ہی پانی پھیر دیاگیا‘ جو رات تک جیت رہے تھے جنہوں نے رات میں مٹھائیاں کھا لیں تھیں‘ وہ صبح ہار گئے اور جو ہار رہے تھے وہ صبح بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ اب تاریخ شش و پنج کا شکار ہے کہ 2024ء کے الیکشن کو ‘مینجڈ الیکشن‘ کہے یا ’مس مینجڈ الیکشن‘۔ ایسا بھی پہلی بار ہوا کہ ہارنے والے بھی اور جیتنے والے بھی برابر حیران و پریشان ہیں کہ اس بکھرے ہوئے مینڈیٹ کے ساتھ کون کس کے ساتھ حکومت بنائے گا۔ حالیہ انتخابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شفاف انتخابات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کے بجائے مقتدر حلقے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق انتخابی نتائج دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں وہ انتخابات کے لیے ماحول تیار کرتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی نتائج کے بارے میں روڈ میپ تیار کرنا، انتخابی نتائج کو اپنی مرضی کا رنگ دینا، کسی کی حمایت میں انتخابی ماحول بنانا ہمیشہ سے ہمارے مقتدر حلقوں کا شیوہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی عمل کی ساکھ یا اس کی شفافیت پر ہمیشہ سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ 2024ء میں ایک مرتبہ پھر یہی سوال اٹھ رہا ہے ۔ شفاف انتخابات کا خواب دیوانے کا خواب بن گیا ہے۔