مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

روزہ اور ضبطِ نفس
روزے کے بے شمار اخلاقی و روحانی فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انسان میں ضبطِ نفس کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ضبطِ نفس کا مطلب سمجھ لیں، پھر یہ معلوم کریں کہ اسلام کس قسم کا ضبطِ نفس چاہتا ہے، اور اس کے بعد یہ دیکھیں کہ روزہ کس طرح یہ طاقت پیدا کرتا ہے۔
٭…٭…٭‎
ضبطِ نفس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی خودی جسم اور اس کی طاقتوں پر اچھی طرح قابو یافتہ ہو اور نفس کی خواہشات و جذبات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اس کے فیصلوں کے تابع ہو کر رہیں۔ انسان کے وجود میں خودی کا مقام وہی ہے جو ایک سلطنت میں حکمران کا مقام ہوا کرتا ہے۔ جسم اور اس کے اعضا خودی کے آلۂ کار ہیں۔ تمام جسمانی اور دماغی طاقتیں خودی کی خدمت کے لیے ہیں۔ نفس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ خودی کے حضور اپنی خواہشات کو درخواست کے طور پر پیش کرے۔ فیصلہ خودی کے اختیار میں ہے کہ وہ آلات اور طاقتوں کو کس مقصد کے لیے استعمال کرے اور نفس کی گزارشات میں سے کسے قبول اور کسے رَدّ کر دے۔ اگر کوئی خودی اتنی کمزور ہو کہ جسم کی مملکت میں وہ اپنا حکم اپنے منشا کے مطابق نہ چلا سکے اور اس کے لیے نفس کی خواہشیں مطالبات اور احکام کا درجہ رکھتی ہوں تو وہ ایک مغلوب اور بے بس خودی ہے۔ اس کی مثال اس سوار کی سی ہے جو اپنے گھوڑے کے قابو میں آگیا ہو۔ ایسے کمزور انسان دْنیا میں کسی قسم کی بھی کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ تاریخِ انسانی میں جن لوگوں نے اپنا کوئی نقش چھوڑا ہے وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے وجود کی طاقتوں کو بزور اپنا محکوم بنا کر رکھا ہے، جو خواہشاتِ نفس کے بندے اور جذبات کے غلام بن کر نہیں بلکہ ان کے آقا بن کر رہے ہیں، جن کے ارادے مضبوط اور عزم پختہ رہے ہیں۔
٭…٭…٭
لیکن فرق اور بہت فرق ہے اس خود میں جو خودی خدا بن جائے، اور اس خودی میں جو خدا کی تابع فرمان بن کر کام کرے۔ کامیاب زندگی کے لیے خودی کا قابو یافتہ ہونا تو بہرحال ضروری ہے، مگر جو خودی اپنے خالق سے آزاد اور دْنیا کے مالک سے بے نیاز ہو، جو کسی بالاتر اخلاقی قانون کی پابند نہ ہو، جسے کسی حساب لینے والے کی باز پْرس کا اندیشہ نہ ہو، وہ اگر اپنے جسم و نفس کی طاقتوں پر قابو پا کر ایک پْرزور خودی بن جائے تو وہ دْنیا میں فرعون اور نمرود، ہٹلر اور مسولینی جیسے بڑے بڑے مفسد ہی پیدا کر سکتی ہے۔ ایسا ضبطِ نفس نہ قابل تعریف ہے اور نہ وہ اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام جس ضبط کا قائل ہے وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سر تسلیم خم کر دے، اس کی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے، پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار اور اپنے نفس اور اس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو، تاکہ وہ دْنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے۔
٭…٭…٭
یہ ہے اسلامی نقطۂ نظر سے ضبطِ نفس کی اصل حقیقت۔ آئیے اب ہم دیکھیں کہ روزہ کس طرح انسان میں یہ طاقت پیدا کرتا ہے۔
اگر آپ نفس وجسم کے مطالبات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں تین مطالبے اصل و بنیاد کا حکم رکھتے ہیں اور وہی سب سے زیادہ طاقتور مطالبے ہیں۔
ایک غذا کا مطالبہ جس پر بقائے حیات کا انحصار ہے۔
دوسرا صنفی مطالبہ جو بقائے نوع کا ذریعہ ہے۔
تیسرا آرام کا مطالبہ جو قوتِ کارکردگی کی بحالی کے لیے ضروری ہے۔
(کتابچہ، روزہ اور ضبطِ نفس)