مزید خبریں

رمضان سے پہلے

رسول اللہؐ کا معمول یہ تھا کہ رمضان آنے سے پہلے آپؐ رمضان کے استقبال کے لیے لوگوں کے ذہن تیار کرتے تھے، تاکہ رمضان سے خاطر خواہ فائدہ اْٹھا سکیں۔ احادیث میں ایسے خطبوں کا تذکرہ آتا ہے، جو خاص اس مقصد کے لیے آپؐ نے رمضان کی آمد سے پہلے دیے ہیں۔ خاص طور پر وہ خطبہ تو بہت ہی طویل اور مشہور ہے جو شعبان کی آخری تاریخ کو آپؐ نے دیا ہے اور جس کے راوی سیدنا سلمان فارسیؓ ہیں۔ اس خطبے میں آپؐ نے یہ خوش خبری دیتے ہوئے کہ تم لوگوں پر جلد ہی ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے کی عظمت اور فضیلت کے مختلف پہلو پیش فرمائے۔ اس میں روزے کے فیوض و برکات کا ذکر فرمایا اور اس طرح ذہنوں کو تیار کیا کہ اس سنہری موقع سے پورا پورا فائدہ اْٹھانے کے لیے انسان پورے ذوق و شوق اور یکسوئی کے ساتھ کمربستہ ہوجائے۔رمضان سے پوری طرح مستفیض ہونے اور اس کی خیر وبرکت کا واقعی مستحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس سے استفادے کے لیے ذہن و فکر اور قلب و روح کو پوری طرح تیار کرے۔

ذاتی احتساب: اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان کی پہلی شب چھانے سے پہلے انسان اپنا معاملہ خدا سے بھی صاف کرے اور خدا کے بندوں سے بھی۔ وہ سنجیدگی سے سوچے کہ وہ خدا کے حقوق ادا کرنے میں کیا کیا کوتاہیاں کرتا رہا ہے، کن کن نافرمانیوں میں مبتلا رہا ہے، اور اس کی زندگی کے بہترین اوقات کن خرافات میں گزرتے رہے ہیں۔ سچے دل سے توبہ کرے اور خدا سے پختہ عہد کرے کہ پروردگار جو کچھ ہوچکا، ہوچکا، اب یہ تیرا بندہ تیرا وفادار رہے گا اور نافرمانیوں سے دامن پاک رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر نمازیں قضا ہوئی ہیں تو رمضان کے ایام میں ان کو ادا کرنے کی فکر کرے۔ اگر زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے تو اسی رمضان میں حساب لگا کر ادا کرنے کا ارادہ کرلے۔ قدرے تکلیف اْٹھا کر، جتنی ادا کرسکتا ہو ادا کرے، جو رہ جائے خدا سے عہد کرے کہ رمضان کے بعد اہتمام کے ساتھ ادا کرے گا۔ بندوں کے حقوق کی ادایگی میں کوتاہی ہوئی ہو، کسی کو ناحق ستایا ہو، یا کسی کا دل دکھایا ہو، یا کسی کا نقصان کیا ہو تو یہ ان سب سے معافی طلب کرے اور جب تک یہ لوگ معاف نہ کردیں، اطمینان کا سانس نہ لے۔ ہر قسم کا بدلہ دینے کے لیے تیار رہے اور بہرصورت لوگوں سے معاف کرا کر دم لے، اس لیے کہ بندوں کے حقوق جب تک بندے خود معاف نہ کردیں، اللہ معاف نہیں کرتا۔

ایک عام کوتاہی: اصلاحِ حال کے معاملے میں عام طور پر ایک اور کوتاہی بھی عام ہے، وہ یہ کہ جب بھی انسان پر نیکی کے جذبات چھانے اور نیکیاں کرنے کا داعیہ اْبھرتا ہے تو ادھر نگاہ نہیں جاتی کہ وہ کن کن چھوٹے بڑے گناہوں میں مبتلا ہے، بلکہ کچھ نوافل و اذکار اور صدقات و خیرات کی طرف ذہن متوجہ ہوجاتا ہے، اور آدمی یہ سب کر کے اطمینان محسوس کرتا ہے کہ اس نے دین دارانہ زندگی اپنا لی ہے اور فرماں بردار بندوں میں شامل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اذکار و نوافل اور صدقات و خیرات کا اہتمام کرنے سے پہلے سوچنے اور کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ کن کن گناہوں میں وہ مبتلا ہے۔ کبیرہ گناہوں سے مخلصانہ توبہ کرے اور خدا سے پختہ عہد کرے کہ آیندہ ان گناہوں کو جانتے بوجھتے کبھی نہیں دہرائے گا۔ صغیرہ گناہوں سے بھی توبہ کرے، اگرچہ صغیرہ گناہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کی برکت سے معاف کردیتا ہے مگر کبیرہ گناہ وہ ہرگز معاف نہیں فرماتا۔ کبیرہ گناہ توبہ ہی کے ذریعے معاف ہوتے ہیں اور توبہ ہی بندے کا وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ انتہائی خوش ہوتا ہے۔

مسلم میں انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں سفر کر رہا تھا، اْونٹ پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا۔ ایک جگہ وہ سَستانے کے لیے رْکا، اتفاق سے اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ جب کھلی تو اْونٹ غائب ہے۔ وہ اِدھر اْدھر دوڑا، اْونٹ کو تلاش کیا، مگر اْونٹ کا کچھ پتا نہ چلا۔ اب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا، کہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں اس کا کھانا پینا سب کچھ اْونٹ پر لدا ہوا تھا اور اْونٹ غائب ہے۔ وہ زندگی سے مایوس ہوگیا تھا۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب جو آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اْونٹ سامنے کھڑا ہے۔ اس نے اْونٹ کی لگام پکڑی اور خوشی کی انتہائی مدہوشی میں کہتا ہے: اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب! خوشی کی انتہا میں اْلٹا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جب اس کا بھٹکا ہوا بندہ توبہ کے ذریعے واپس ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس اْونٹ والے بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔

ادہوری توبہ: رمضان سے واقعی فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ رمضان آنے سے پہلے ہی توبہ کرلے، تمام گناہوں سے رْک جائے اور خدا سے سچا معاہدہ کرے کہ اب وہ کبھی ان گناہوں کی دلدل کے قریب نہ جائے گا۔ توبہ کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آدمی سارے گناہوں سے تو توبہ کرلے اور کچھ کے سلسلے میں خدا سے معاملہ کرنے بیٹھ جائے کہ فلاں فلاں گناہ کچھ عرصہ اور کرتا رہوں گا یا صرف رمضان تک ان سے باز رہنے اور ان کو ملتوی رکھنے کا عہد کرتا ہوں۔ یہ آدھی پونی توبہ پسندیدہ توبہ نہیں ہے۔ اللہ بندے سے کہتا ہے کہ میں سارے گناہ معاف کر دوں گا تو پھر خدا کی معافی کو کچھ گناہوں کے حق میں اس لیے ملتوی رکھنا کہ ان سے ابھی اور لذت اندوز ہونے کی خواہش ہے، حقیقت میں توبہ کی صحیح اسپرٹ نہیں۔ سارے ہی گناہوں سے توبہ کرکے انسان کو چاہیے کہ خود کو خدا کے حوالے کردے۔ خدا کس پیار بھرے انداز میں اپنے بندے کو اپنے دربار میں معافی نامہ داخل کرنے کے لیے بلاتا ہے۔ قرآن میں ہے:

’’(اے نبیؐ!) کہہ دیجیے، اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمھارے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ وہ بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
اللہ تو کہے کہ میں سارے ہی گناہ معاف کر دوں گا اور بندہ کچھ ہی گناہ معاف کرانے کا معاملہ کرے تو یہ درحقیقت قلب کی صفائی کا وہ معاملہ نہیں ہے جو مطلوب ہے۔
توبہ کی شرائط
توبہ کی تین شرطیں ہیں اور اگر بندے نے کسی انسان کا حق مارا ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو پھر چار شرطیں ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ گناہ سے پوری طرح باز آجائے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ واقعی اپنے گناہوں سے شرم سار ہو۔
تیسری شرط یہ ہے کہ وہ پختہ عزم کرے کہ اب کبھی کسی گناہ کو دوبارہ نہیں کرے گا۔

اگر کسی بندے کا حق مارا ہے، اس کی کوئی چیز ناحق لی ہے تو وہ اس کو واپس کرے خواہ جس طرح کی چیز بھی ہو، اور اگر اس کو کوئی اور تکلیف پہنچائی ہے تو اس کو بدلہ لینے کا موقع دے یا یہ کہ وہ معاف کردے، اور اگر کوئی الزام لگایا ہے یا غیبت کی ہے تو معاف کرا لے۔ بندے سے معاملہ صاف کرلینا توبہ کی لازمی شرط ہے۔

توبہ کے بعد ہی آدمی اس لائق بنتا ہے کہ وہ رمضان کا شایانِ شان استقبال کرسکے اور اس حال میں رمضان کا آغاز کرے کہ وہ فی الواقع رمضان سے استفادے کے لائق ہو۔ آپ کسی زمین میں اگر لہلہاتی کھیتی اور رنگارنگ مہکتے پھول کھلے دیکھنا چاہتے ہیں تو بیج ڈالنے سے پہلے زمین کے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنا، اینٹ روڑے نکال باہر کرنا اور زمین کو پہلے نرم کرنا ضروری ہے۔ آپ سنگلاخ زمین میں یا جھاڑ جھنکاڑ سے ڈھکی ہوئی زمین میں لہلہاتی کھیتی اور مہکتے پھول دیکھنے کی توقع پوری نہیں کرسکتے۔ اگر واقعی یہ سنجیدہ خواہش ہے کہ دل کی سرزمین میں نیکیوں کی بہار آئے تو دل کی سرزمین کو پہلے گناہوں اور خدا کی نافرمانیوں سے پوری طرح صاف کیجیے، تب ہی توقع کیجیے کہ اس میں نیکیوں اور بھلائیوں کی بہار آئے گی اور آپ اس بہار سے فیض یاب ہوسکیں گے۔