مزید خبریں

گیس اور بجلی کے نرخ بڑھنے سے معیشت تباہ ،بے روزگای میں اضافہ کا خدشہ

کراچی بلکہ پورے ملک میں سینکڑوں صنعتی یونٹس کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے بھی بند ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی اداروں کی یہ خواہش بھی پوری ہو تی نظر آرہی ہے اب پاکستان میں کاروبار کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔دنیا بھر میں پاکستان سے روزگا ر کی تلاش میں جانے والے ماہ دو ماہ بے کاری کے بعد کہیں نہ کہیںروزگا ر تلاش کر ہی لیتے ہیں لیکن پاکستان میں ہمرے حکمرانوں کا یہی کہنا ہے کہ ملک میں ہنر مندوں کی ضرورت ہے ۔اس صورتحال کے بر عکس دنیا بھیر میںپھیلے ہوئے پاکستانی کسی نہ کسی طرح روزگا ر بھی تلاش کر رہے ہیں اور آرام سکون کی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔لیکن ملک میں گیس اور بجلی کے نرخوںنے روزگار ،صنعتی ترقی اور زرعی پیدوار پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ عوام نان شبینہ کو محتاج نظر آرہے ہیں۔

وزیر توانائی و دیگر کی یقین دہانیوں کے باوجود کاروباری لاگت کو کم کرنے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ وزیر توانائی و دیگر کی یقین دہانیوں کے باوجود کاروباری لاگت کو کم کرنے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا جس نے صنعتکاروں کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا ہے جو اب سنجیدگی سے اپنے پیداواری یونٹس کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں جہاں وہ ایک سازگار ماحول میں پرامن طریقے سے اپنے کاروبار کو آگے بڑھا سکیں۔ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے پڑوسی ممالک ہمیں اپنے خصوصی اقتصادی زونز میں یونٹ قائم کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں جہاں وہ 10 سال کی مدت کے لیے توانائی کے نرخوں کو برقرار رکھنے کی گارنٹی کے ساتھ تمام صنعت چلانے کے لئے درکار اشیاء باالخصوص گیس اور بجلی کی سستے نرخوں پر دستیابی کی یقین دہانی کررہے ہیں جس سے یقینی طور پر صنعتکاروں کو مجموعی لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے

مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد ملے گی۔
وہ دن دور نہیں جب ہزاروں بے روزگار افراد حکومت کی گیس اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافے کی پالیسی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ توانائی کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے کی وجہ سے کاروباری لاگت میں اضافے پرنے ملک میںتشویشناک صورتحال پید کر دی ہے ۔اس وقت توحکومت یہی کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے لیکن اس کے نتائج بھیانک ہی نہیں تباہ کن ہیں ۔اس پوری صورتحال کے نتیجے میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں سینکڑوں صنعتی یونٹس کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے بھی بند ہو گئے ہیں۔

ملک بھر کے تاجر اور صنعتکار سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز گیس اور بجلی کے نرخوں میں ناقابل برداشت اور بے حد اضافے کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں لیکن پالیسی ساز ریلیف دینے کے بجائے تشویشناک صورتحال پر کوئی توجہ نہیں دے رہے جس کی وجہ سے محدود ہوتی پیداواری سرگرمیاں، برآمدات میں کمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

لیکن پاکستان میں اس کے بر عکس بدقسمتی سے پاکستان میں ہمیں قطعی طور پر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ توانائی کے بڑھتے ہوئے ٹیرف کی وجہ سے اگلے ماہ لاگت کیا ہو گی۔اگرچہ بہت سے صنعتکار اب بھی مکمل طور پر ناامید نہیں لیکن اگر صورتحال پر فوری توجہ نہ دی گئی تو وہ بھی یقیناً پاکستان چھوڑ دیں گے اور ایسے مایوس تاجروں کو وطن واپس لانا ناممکن ہوگا۔

تاجر وں اور صنعتکاروں کے نمائندوں نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل ( ایس آئی ایف سی)ہر سطح پر ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور کاروباری ماحول کو سازگار بنانے کی یقین دہانی کرا رہی ہے لیکن دوسری طرف نگران حکومت کے غیر آئینی اور بے لگام فیصلوں کی کوئی روک ٹوک نہیں جس نے گیس اور بجلی کے نرخوں میں سب سے زیادہ اضافہ کر کے اپنے دائرہ کار سے باہر کام کیا ہے جو نہ کبھی کسی مارشل لاء میں ہوا اوہ نہ ہی کسی جمہوری حکومت نے کیا۔ہمیں خدشہ ہے کہ اگر گیس اور بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کا اعلان کر کے کاروباری لاگت کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ایس آئی ایف سی کی جانب سے معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے کیے گئے تمام تر اقدامات ضائع ہو جائیں گے ۔

حکومت کی جانب سے گیس اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کرنے کے باوجود گردشی قرضہ خطرناک حد تک بڑھ کر 5.73 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے جس کی اصل وجہ حکومت کی گیس اور بجلی دونوں شعبوں میں چوری اور لائن لاسز سے نمٹنے میں ناکامی ہے۔حکومت گردشی قرضے کو کم کرنا چاہتی ہے لیکن ایسا صنعتوں کو داؤ پر لگا کر کیا جا رہا ہے کیونکہ توانائی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ تجارتی و صنعتی صارفین کو شدید قرضوں میں ڈوبو دے گا جس سے سب کے لیے تباہ کن صورتحال پیدا ہوگی۔

K۔ الیکٹرک کی جانب سے 0.18 ڈالر فی کلو واٹ کی شرح سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے جو کہ علاقائی حریف بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جو بالترتیب 0.04 ڈالر، 0.07 ڈالر اور 0.06 ڈالر فی کلو واٹ پر بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح برآمدات پر مبنی صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف بھی دسمبر 2022 میں 852 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر فروری 2024 میں 2750 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو گیا ہے جو کہ 223 فیصد کے زبردست اضافے کو ظاہر کرتا ہے جبکہ عام صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف دسمبر 2022 میں 1054 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر فروری 2024 میں 2150 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیا گیا ہے جو 104 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں عام اور برآمدی صنعتیں کیسے زندہ رہ سکتی ہیں؟

صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ ریلیف فراہم کرنے کے لیے پہلے اورفوری اقدامات کے طور پر انکریمنٹل کنزمپشن پیکیج کی مد میں مختص 7 ارب روپے جاری کرنے کے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جبکہ بقیہ 21 ارب روپے کے اجراء کے لیے بھی انتظامات کیے جائیں کیونکہ کراچی کی صنعتوں کی انکریمنٹل کنزمپشن پیکیج کی مد میں مجموعی طور پر 28 ارب روپے طویل عرصے سے زیر التوا ہیں۔یہ انتہائی ناانصافی ہے کہ اس پیکیج کے تحت کراچی کے علاوہ باقی پاکستان کو فنڈز جاری کیے گئے ہیں جو کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ سراسر امتیازی سلوک ہے جو قومی خزانے میں 68 فیصد سے زائد ریونیو اور برآمدات کی مد میں 54 فیصدکا حصہ دار ہے۔انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو کراچی کے صنعتی صارفین کو 9 سینٹ فی کلو واٹ کی شرح سے بجلی کے نرخوں کی اجازت دینے کے اپنے فیصلے پر عمل درآمد بھی کرنا چاہیے جس کی مختلف پلیٹ فارمز پر وزیر توانائی نے بار بار تصدیق کی ہے لیکن اس پر عمل درآمد آج تک نہیں ہوا۔

پاکستان کی معاشی ترقی میں کراچی شہر کے بے مثال شراکت داری کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ کراچی میں قائم صنعتوں کے خدشات کو دور کرنا ، مساوی مواقع اور تعاون کے ماحول کو فروغ دینے کے عزم کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہوا کیونکہ وفاق کی جانب سے کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک جاری ہے۔ہمیں امید ہے کہ اسلام آباد کے قانون ساز صورتحال کی سنگینی کو بھانپیں گے اور صنعتوں کو ہمیشہ کے لیے بند ہونے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔

نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری ( نکاٹی ) کے صدر فیصل معیز خان نے نگران حکومت کی جانب سے گیس نرخوں میں بے پناہ اضافے کو صنعتوں کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے معیشت کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ گیس نرخوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے اور اسٹیک ہولڈر کی مشاورت سے گیس نرخ طے کیے جائیںتاکہ صنعتی پیداواری لاگت کم ہوسکے بصورت دیگر صنعتیں خاص طور پر ایس ایم ایز تباہ ہوجائیں گی اور برآمدات بھی بری طرح متاثر ہوں گی۔فیصل معیز خان نے مزید کہا کہ صنعتکار برادری بجلی وگیس نرخوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پہلے ہی شدید مشکلات سے دوچار ہیں کیونکہ ان کے لیے مہنگی بجلی و گیس کا بوجھ برداشت کرنا دشوار ہوگیاہے۔ب

رآمدکنندگان زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے عالمی مارکیٹوں میں مسابقت کی سکت نہیں کھوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ برآمدکنندگان کے لیے عالمی مارکیٹوں میں اپنا شیئر برقرار رکھنا شاید اب ممکن نہیں رہے گا۔صدر نکاٹی کا کہنا تھا کہ یہ بات قابل تشویش ہے کہ صنعتکار برادری کی جانب سے حکومت کو بارہا مسائل سے آگاہ کرنے کے باوجود صنعتوں کو تباہ کن صورتحال سے نکالنے کے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان حالات میں صنعتکار برادری میں شدید مایوسی پائی جارہی ہے اور برآمدی صنعتوں باالخصوص ایس ایم یز کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے جس کا حکومت کو ادراک ہونا چاہیے۔فیصل معیز خان نے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، وفاقی وزیر تجارت و صنعت گوہر اعجاز اور وزیر توانائی محمد علی سے گیس نرخوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت نے صنعتوں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ریلیف کے اقدامات نہ کیے تو برآمدات بند ہوجائیں گی اور پھر شاید معاشی طور پر دوبارہ اپنے پاؤ پر کھڑا ہونا دشوار ہوگا لہٰذا فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ وہ دانشمندی کا مظاہرہکرتے ہوئے صنعت دوست پالیسیاں وضع کریں تاکہ پیداواری سرگرمیاں بلارکاوٹ جاری رہ سکیں اور روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں۔
nn