مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

منافقین کے ساتھ جہاد
منافقین کے ساتھ جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ان کا زور توڑا جائے گا۔ اْن کو ذلیل و خوار اور بے وقعت کرنے کی کوشش کی جائے گی، اْن کی بات نہ چلنے دی جائے گی، اور اگر اْن کی کوئی مالی یا اخلاقی طاقت ہے تو اس کو توڑا جائے گا۔ اگر معاشرے میں ان کی دولت و امارت اور ریاست و سیادت کے اثرات پائے جاتے ہیں تو وہ توڑے جائیں گے۔ غرض یہ ہے کہ منافقین کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد کی جائے گی تاکہ ان کا زور ٹوٹ جائے اور وہ بے حیثیت ہوکر رہ جائیں۔ اگر کسی معاشرے میں منافقین کا اثرورسوخ پایا جاتا ہو تو وہ اس معاشرے کو خراب کر کے رہتے ہیں۔ منافقین کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ ان کو بْرائی سے محبت اور بھلائی سے نفرت ہوتی ہے۔ اگر کہیں بھلائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہو تو منافقین کے حلقے میں ایک کہرام مچ جاتا ہے کہ کیا اب ہمارے ہوتے ہوئے اس معاشرے میں بھلائی بھی پھیلے گی! کیا اب لوگ نمازیں پڑھیں گے، زکوٰۃ دیں گے، مردوں عورتوں کے آزادانہ میل جول کو روکیں گے۔ کاروبار میں دیانت داری اور ایمان داری اختیار کریں گے۔ اس کے برعکس اگر کہیں برائی کا کوئی کام ہورہا ہو تو ان کو بڑی مسرت ہوتی ہے کہ لوگوں میں ’روشن خیالی‘ عام ہو رہی ہے، آرٹ سوسائٹیاں قائم ہو رہی ہیں، مصوری اور موسیقی کا چرچا ہو رہا ہے۔ اس طرح ان کے دل کھِل جاتے ہیں اور ان کی ساری طاقتیں بْرائی کو پھیلانے اور بھلائی کو دبانے میں صرف ہوتی ہیں۔ اگر کہیں کوئی بھلائی پنپ رہی ہو تو بیٹھ بیٹھ کر کانفرنسیں کریں گے، باہمی مشورے کریں گے کہ اس بھلائی کا کیسے سدّباب کیا جائے۔ آغاز ہی میں اس کی سرکوبی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ منافقین کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
٭…٭…٭
اس جہاد سے مراد یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی ایسا رویّہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اْن کی حوصلہ افزائی ہو اور اْن کی ہمتیں بڑھیں۔ ان کے مقابلے میں اگر کوئی سخت کارروائی کرنا ضروری ہے تو اس سخت کارروائی سے اپنی نرم مزاجی کی بنا پر گریز نہ کیا جائے۔ جو وقت سختی کرنے کا ہے اس میں سختی ہی کرنی چاہیے۔ اس وقت اگر آدمی نرمی اختیار کرتا ہے تو یہ اسلامی اخلاق نہیں ہے۔ اسلامی اخلاق یہ ہے کہ جو مقام نرمی کرنے کا ہے وہاں نرمی کی جائے اور جو مقام سختی کرنے کا ہے وہاں سختی ہی کی جائے۔ جس مقام پر اللہ کے رسولؐ نے سختی کی ہے وہاں ہماری طرف سے نرمی کا مظاہرہ کرنے کا کیا جواز ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ منافقین کے ساتھ سخت برتائو کرو وہاں نرمی کیسے برتی جاسکتی ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری 2013)
٭…٭…٭
فقر کا مفہوم
فقر کے لغوی معنی تو احتیاج کے ہیں لیکن اہلِ معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور فاقہ کشی نہیں ہے، بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجت مندی کو غیراللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غنا کی حرص دوسروں کے آگے سر جھکانے اور ہاتھ پھیلانے پر آمادہ کرے وہ لغوی حیثیت سے فقیر ہوسکتا ہے، مگر نگاہِ عارف میں دَریوزہ گر [بھکاری] ہے، فقیر نہیں ہے۔ حقیقی فقیر وہ ہے جس کا اعتماد ہر حالت میں اللہ پر ہو۔ جو مخلوق کے مقابلے میں خوددار اور خالق کے آگے بندۂ عاجز ہو۔ خالق جو کچھ بھی دے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، اس پر قانع و شاکر رہے اور مخلوق کی دولت و جاہ کو نگاہ بھر کر بھی نہ دیکھے۔ وہ اللہ کا فقیر ہوتا ہے نہ کہ بندوں کا۔