مزید خبریں

طلاق اور خلع میں اضافے کی وجہ عدم برداشت ، انا پر ستی اور سوشل میڈیا ہے

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی)طلاق اور خلع میں اضافے کی وجہ عدم برداشت ، انا پر ستی اور سوشل میڈیا ہے‘میاںبیوی میں سے کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں‘شکوک و شبہات رشتہ زوجیت ختم کردیتے ہیں‘ڈرامے طلاق کے لیے نئی تراکیب متعارف کروارہے ہیں ‘مصالحتی کونسل نہیں ہے‘حکومت نے طلاق و خلع کا عمل آسان بنادیا ‘ بے جوڑ شادیاں کی جا رہی ہیں‘ طلاق کی شرح میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین مولانامحمد اسماعیل ، کالم نویس زنیرہ رشید اور سماجی امور کے ماہر اور موٹیشنل اسپیکر قاسم علی شاہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’طلاق اور خلع کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہاہے؟‘‘ قاسم علی شاہ نے کہا کہ طلاق اور خلع کی سب سے بڑی وجہ خاندان میںہم آہنگی کا فقدان ہے‘ ہم آہنگی کی کمی کی وجہ سے ماضی میں متعدد مسائل سر اٹھاتے رہے ہیں‘ طلاق کی کثرت کا دوسرا بڑا سبب عدالتی نظام میں تبدیلی ہے‘ ماضی میں مرد بڑی آسانی سے طلاق دے دیتا تھا اب خواتین کو یہ آسانی حاصل ہوگئی ہے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر خلع کا کیس دائر کر دیں اور عدالت جائے بغیر گھر بیٹھے خلع حاصل کرلیں ‘عدالتی نظام کی یہ تبدیلی بذات خود غلط نہیں ہے‘ اس تبدیلی کے کئی فائدے بھی ہیں لیکن اصل مسئلہ اس سہولت کو سمجھے بغیر استعمال کا ہے جس طرح مرد حضرات 4 برس قبل طلاق
بغیر سوچے سمجھے دے دیتے تھے‘ آج کل خواتین خلع کا حق ٹھیک اسی طرح استعمال کرنے لگی ہیں‘ سماجی رابطہ وسائل(سوشل میڈیا) کا بھی خلع اور طلاق کو بڑھاوا دینے میں بڑا دخل ہے‘ اگر ہوشمندی سے کام لیا جائے تو سماجی رابطہ وسائل کے اثرات کم کیے جاسکتے ہیں‘ خلع اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو قابو کرنے کے لیے معاشرے کو اپنی ذمہ داری انجام دینا ہوگی‘ خاندانی امور کی اصلاح کے سلسلے میں نمود و نمائش سے ہٹ کر ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جائے۔ نئے جوڑوں کو سادہ انداز میں سمجھایا جائے کہ خاندانی استحکام فرد اور معاشرے دونوں کے لیے ضروری ہے‘ رشتہ زوجیت کی اہمیت کے بارے میں ورکشاپس منعقد کی جائیں اس میں تمام طبقوں کو شامل کیا جائے۔ ماہرین ایک گائیڈ بک تیار کرکے نئے جوڑوں اور نئی نسل کو بتائیں کہ علیحدگی سے کیا کچھ نقصانات ہوتے ہیں‘ طلاق کی شرح میں اضافے کا سب سے بڑا ذمہ دار سوشل میڈیا ہے ‘معاملہ میاں بیوی کی علیحدگی تک محدود نہیں‘ طلاق کے اثرات اولاد پر پڑتے ہیں اور ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے‘ نئے جوڑے رشتہ زوجیت کی اہمیت سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے۔ ان کی ذہنی ناپختگی علیحدگی کے فیصلے میں جلدی کا باعث بن جاتی ہے‘ ذہنی ونفسیانی اسباب بھی طلاق کی شرح بڑھانے میںاہم ہیں۔ شکوک و شبہات، رشتہ زوجیت کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں‘ ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرنے، نگرانی کرنے اور سائے کی طرح ایک دوسرے کا پیچھا کرنے سے بھی طلاقیں ہو رہی ہیں‘ سوشل میڈیا پر ایسے لوگ جنہیں خاندانی امور اور رشتہ زوجیت کے بارے میں خاص معلومات نہیںہوتیں وہ اس حوالے سے فلسفیانہ گفتگو کرکے اس کا سبب بن رہے ہیں۔ زنیرہ رشید نے کہا کہ طلاق کے لغوی معنی نکاح کی گرہ کو کھول دینا، ترک کر دینا یا چھوڑ دینا ہے۔ حدیث نبویؐ ہے کہ حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں طلاق کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق طلاق کی شرح میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے‘ بدقسمتی سے مغربی تہذیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید سے ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق سماجی مسئلہ بن چکی ہے جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں موجود آئیڈیل خاندانی نظام کو جڑوں سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1970ء میں طلاق کی شرح 13فیصد تھی جس میں اب60 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے ۔ طلاق کا مطلب صرف2 افراد کی جدائی نہیں ہوتا بلکہ اس سے2 خاندانوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑک جاتی ہے۔ علیحدگی کی وجوہات میں گھریلو ناچاقی سرفہرست ہے‘ قربانی دینے کے عزم میں کمی، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت،سماجی اسٹیٹس ،حرص و ہوس اور شوہر یا بیوی کے درمیان شک پیدا ہونا ہے۔ طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ عدم برداشت ہے جس کا من حیث القوم ہم شکار ہیں‘ میاں بیوی جیسے نازک رشتے میں تو برداشت کا مظاہرہ نہایت ضروری ہے۔ اکثر اوقات شوہر غصّے میں ہی طلاق سنا دیتے ہیں لیکن پھر پوری زندگی پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے‘ آج کل کے ڈراموں میں طلاق کو اہم ترین موضوع کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کے بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کے لیے نئی تراکیب متعارف کروائی جارہی ہیں‘ اس حوالے سے میڈیا کو بھی اپنی روش بدلنا ہو گی۔ پاکستان میں فیملی کورٹس ایکٹ اکتوبر 2015ء میں منظور ہوا تھا جس کے سیکشن 10 کی دفعہ 6 کے تحت قانونی طور پر طلاق و خلع کا عمل آسان تر کردیا گیا ہے جو طلاق و خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب ہے‘ گز شتہ برسوں کے مقابلے میں 2023ء میں اعلیٰ تعلیم یا فتہ و ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق و خلع لینے کا رحجان بڑی تیزی سے بڑھا، انا پر ستی، خود کمانے و خود کفیل ہونے کا گھمنڈ اور معاشرتی بے راہ راوی نے ’’خانگی نظام‘‘ کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا‘ خلع کی ڈگریاں لینے والی خواتین میں تعلیم، صحت، ملٹی نیشنل، نجی و سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے ساتھ پاکستان کی معروف اداکارائیں و گلو کارائیں بھی شامل ہیں‘ طلاق اور خلع کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ عدم برداشت اور انا پر ستی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑہے۔ پاکستان میں مصالحتی کونسلوں کے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بچے حوالگی کے مقدمات میں بھی 23 فیصد سے 37 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مولانا محمد اسماعیل نے کہا کہ خاندان کی ابتدا ’نکاح ‘ سے ہوتی ہے‘ نکاح کے ذریعے مرد اور عورت ایک دوسرے کے زندگی بھر کے ساتھی بن جاتے ہیں‘ ان کا باہمی تعلق اِس قدر لطیف اور پاکیزہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ اسی ’نکاح‘ کی بدولت ان دونوں کے درمیان ایک مقدس رشتہ قائم ہو جاتا ہے، ان کے مابین پاکیزہ محبت اور حقیقی الفت پر ایک عظیم سلسلہ معرضِ وجود میں آجاتا ہے، اس وقت دونوں مفادات سے بالا تر ہوکر ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بن جاتے ہیں، ان میں سے ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی اور ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف شمار ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے کے ہمدرد و غم گسار بن کر باہم مل کر زندگی کی گاڑی کو صحیح رخ دیتے ہیں، مرد اپنی جدوجہد کے ذریعے پیسہ کماتا ہے، اپنی شریک حیات اور اپنے بچوں کی ضروریات کا کفیل ہوتا ہے اور بیوی گھریلو امور کی ذمہ دار، اپنے خاوند کی خدمت گزار اور اسے سکون فراہم کرنے اور بچوں کی پرورش کرنے جیسے اہم فرائض انجام دیتی ہے۔ آج معاشرے میں خلع اور طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات سے ایک خطرناک تصویر سامنے آتی ہے۔ اس صورت حال میں معاشرے کے حساس اور ذمہ دار طبقات اور علما کرام کو خصوصی توجہ دینے اور اِس کے اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر سد باب کی راہ تلاش کرنے کی اہم ضرورت ہے ، چونکہ جس معاشرے میں طلاق اور خلع کی کثرت ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے‘شادی کرتے ہوئے شریعت میں کفو یعنی عورت مرد جن کا نکاح باہم مقصود ہے، وہ معاشرتی لحاظ سے ہم مرتبہ اور ہم درجہ ہوں، تاکہ میاں بیوی میں باہم خوشگوار تعلقات قائم رہیں‘ اس کا خیال رکھنا بھی ایک اہم مسئلہ ہے تاہم اب یہ رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ پہلے ایک شادی میں بیچ بچائو کروانے والے خاندان کے بے شمار افراد ہوا کرتے تھے جن کا کردار اب کم ہوگیا ہے۔ تعلیم اور کلاس کے حوالے سے بے جوڑ شادیاں کی جا رہی ہیں جو آگے چل کر مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ شریعت میں نکاح انسانیت کی بقا اور تسلسل کے لیے ایک مضبوط شرعی معاہدہ ہے‘ جبکہ دین سے دوری، حقوق و فرائض سے غفلت، اپنی تہذیب و ثقافت سے بے پروا ، فلموں، ڈراموں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، موبائل فون، انٹرنیٹ، سماجی روابط میں بے راہ روی کے ذرائع نے شہوانی جذبات اور ہوس کو اس حد تک ابھار دیا ہے کہ ان جذبات کی تکمیل کے لیے نہ حلال دیکھا جاتا ہے نہ حرام، بلکہ حرام کی لذت میں مگن مرد و زن طلاق و خلع جیسے گناہ کو بغیر سوچے سمجھے استعمال کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ گھریلو و خاندانی تنازعات، نشہ، ذرائع ابلاغ، سماجی روابط میں بے راہ روی اور موبائل فون کے زیادہ استعمال سے نوجوانوں میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔