مزید خبریں

کا بورڈ آف ٹرسٹیز مدت ختم ہونے کے بعد بھی قائمEOBIـ

یہ مفاد پرست افسران نہایت دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بورڈ کے اجلاسوں کی کارروائیوں کی روداد میں تحریف اور ہیرا پھیری میں بھی ملوث پائے گئے ہیں جس کے باعث بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلے متنازعہ اور ان کی توقیر ختم ہوکر رہ گئی ہے لیکن چیئر پرسن ناہید شاہ درانی کی آشیر باد اور ادارہ میں اپنے زبردست اثر و رسوخ کی بناء پر ان طاقتور عناصر سے جواب دہی کرنے والا کوئی نہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال کے باعث بورڈ آف ٹرسٹیز کی فیصلوں کے خلاف متعدد سوالات پیدا ہوگئے ہیں اور اس سلسلہ میں اعلیٰ عدالتوں میں متعدد کیسز بھی زیر سماعت ہیں اور ادارہ کے انتظامی معاملات میں مختلف نوعیت کی سنگین قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔

اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق بورڈ آف ٹرسٹیز کے مختلف صوبائی دارالحکومتوں میں سال میں چار اجلاس منعقد ہونا لازمی ہیں اور 1977ء میں اپنے قیام سے اب تک بورڈ آف ٹرسٹیز کے 132 ریگولر اجلاس اور 35 ہنگامی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔ موجودہ بورڈ نے تو 46 ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل کے نام پر پے در پے ہنگامی اجلاسوں کا انعقاد کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ لیکن درحقیقت بورڈ آف ٹرسٹیز ادارہ کے قیام کے بنیادی مقاصد لاکھوں بیمہ دار افراد اور پنشنرز کے مفادات کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا ہے اگرچہ قانون کے مطابق موجودہ بورڈ آف ٹرسٹیز کی مقررہ مدت 2015ء میں ختم ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود وزارت نے نہ تو اس کی مدت میں کوئی توسیع کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی قواعد کے مطابق نیا بورڈ آف ٹرسٹیز تشکیل دیا ہے۔ جس کے باعث ای او بی آئی کو بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلوں پر گھمبیر قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ موجودہ بورڈ آف ٹرسٹیز گزشتہ دس برس کا طویل عرصہ گزر جانے اور درجنوں بار ہنگامی اجلاسوں کے انعقاد کے باوجود سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2013ء سے از خود نوٹس کے تحت زیر سماعت 46 ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل کے ملزمان کے خلاف کسی قسم کی چارج شیٹ جاری کرنے ، قرار واقعی سزا دلوانے اور اربوں روپے مالیت کی 18 اراضیات اور املاک کی بازیابی میں بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے جس کے باعث ای او بی آئی پنشن فنڈ کو اربوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جبکہ بورڈ آف ٹرسٹیز کی نااہلی کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میگا لینڈ اسکینڈل کے مرکزی ملزمان سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل، واحد خورشید کنور ، نجم الثاقب صدیقی اور آصف آزاد اور دیگر ملزمان اہم کیسز سے رفتہ رفتہ بری ہوتے جارہے ہیں۔ جبکہ بورڈ میں صوبہ سندھ سے آجران کے نمائندہ محمد طارق رفیع اور صوبہ بلوچستان کے ملازمین کے نمائندہ سر زمین افغانی کافی عرصہ قبل بورڈ کی رکنیت سے استعفیٰ دے چکے ہیں جبکہ بورڈ میں حکومت سندھ کے نمائندہ صوبائی سیکرٹری محنت و انسانی وسائل بھی ایک طویل عرصہ سے بائیکاٹ پالیسی کے تحت بورڈ اف ٹرسٹیز کے اجلاسوں میں شرکت ہی نہیں کر رہے۔ جس کے باعث ای او بی آئی میں حکومت سندھ، صوبہ سندھ کی آجران برادری اور بلوچستان کے لاکھوں ملازمین اپنی نمائندگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال کے باعث بورڈ آف ٹرسٹیز میں مخصوص سرکاری ارکان کی زبردست اجارہ داری اور آجران کے نمائندوں کا غلبہ پایا جاتا ہے ۔

حیرت انگیز طور پر بورڈ آف ٹرسٹیز نے وزارت خزانہ حکومت پاکستان کی منظوری کے بغیر بورڈ اجلاسوں کی یومیہ فیس ازخود 25 ہزار روپے فی رکن مقرر کی ہوئی ہے اور ای او بی آئی کو بورڈ آف ٹرسٹیز کے صرف ایک اجلاس پر 25 لاکھ روپے تک کے بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں جس میں ٹی اے ڈی اے کی مد میں فی رکن ایک لاکھ روپے سے زائد تک لاگت آتی ہے جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ زوم کے ذریعہ اجلاسوں میں شرکت کرنے پر بھی بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے 25 ہزار روپے یومیہ فیس وصول کرتے ہیں۔ جبکہ ای او بی آئی ایک ٹرسٹ ادارہ ہے جس کا واحد ذریعہ آمدنی محنت کشوں کی جانب سے وصول ہونے والا ماہانہ کنٹری بیوشن ہے۔ لہٰذا بورڈ آف ٹرسٹیز اور انتظامیہ پنشن فنڈ کے کسٹوڈین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح بورڈ آف ٹرسٹیز نے اپنی معاونت کے لیے بورڈ کی ہیومن ریسورس کمیٹی، انوسٹمنٹ کمیٹی، فکسڈ انکم کمیٹی اور آڈٹ کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہیں جس میں ای او بی آئی کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کے افسران کنوینر اور سیکرٹری کی حیثیت سے مقرر کئے جاتے ہیں۔ جو بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دوران ڈیوٹی ذیلی کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کرکے بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات کے ساتھ ساتھ مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے بورڈ اجلاس میں شرکت کی 25 ہزار روپے یومیہ فیس اور بیرون کراچی اجلاسوں کے انعقاد کی صورت میں بھاری ٹی اے ڈی اے سے بھی پوری طرح لطف اندوز ہورہے ہیں۔ جن سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں۔

 

حال ہی میں ای او بی آئی کے حسابات برائے مالی سال 2022-23ء کے سالانہ آڈٹ کے دوران آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے متعین گورنمنٹ آڈیٹرز نے اپنی آڈٹ اینڈ انسپیکشن رپورٹ میں بورڈ آف ٹرسٹیز کی چاروں ذیلی کمیٹیوں میں ای او بی آئی کے افسران کی موجودگی کو مفادات کے ٹکراؤ کے عین مترادف قرار دیا ہے۔ گورنمنٹ آڈیٹرز کے آڈٹ پیرا نمبر 42 کے مطابق دی پریوینشن اینڈ مینجمنٹ کونفلیکٹ آف انٹریسٹ ایکٹ مجریہ 2017ء کے رول 5 کے مطابق کوئی بھی پبلک سرونٹ کسی بھی بورڈ میں مشورہ یا فیصلہ کے عمل میں شامل نہیں ہوسکتا اور وہ اہم امور میں فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت نہیں کرے گا کیونکہ اس قسم کی فیصلہ سازی میں ان کی شرکت فیصلہ کن امور میں مفادات کا عین ٹکراؤ ہے۔ گورنمنٹ آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ بورڈ کی ان ذیلی کمیٹیوں میں ای او بی آئی کے افسران کی سیکرٹری یا کنوینر کی حیثیت سے موجودگی کے معنی ہیں کہ وہ ان کمیٹیوں کی فیصلہ سازی میں اپنے ووٹوں کی طاقت کے استحقاق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ گورنمنٹ آڈیٹرز نے آڈٹ پیرا میں واضح کیا ہے کہ ای او بی آئی کے مختلف افسران نے پچھلے مالی سال کے دوران کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی مد میں 25 ہزار روپے یومیہ فیس اور اس مد میں کل 10 لاکھ 70 ہزار روپے وصول کیے ہیں جو سراسر خلاف قانون اور سرکاری خزانہ پر زبردست بوجھ ہے۔ لہٰذا ان افسران سے اس بھاری رقوم کی فوری طور پر ریکوری لازمی ہے۔
(ختم شد)