مزید خبریں

گیس کے نرخوں مین اضافہ صنعتی ترقی کے لیے تباہ کن ہے

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے فیصلے صنعتی ترقی کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ۔اس سلسلے میں یہ بتاتا چلوں کہ آئی ایم ایف کی ہدایت کے باوجود آئندہ رمضان المبارک کے لیے پہلے ہی مختص 7 ارب 50 کروڑ روپے کے سبسڈی پیکج کی منظوری دیتے ہوئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے آئندہ ساڑھے 4 ماہ کے دوران گیس صارفین سے 100 ارب روپے اضافی وصولی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔آئی ایم ایف سی پی پیز کو گیس سپلائی پر مکمل پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے تاکہ کم صلاحیت والے شعبوں میں گیس کھپت کو روکا جا سکے۔وزیر تجارت نے موجودہ مالی سال کے دوان صنعت پر کراس سبسڈی کا بوجھ کم کرنے پر زور دیا۔

نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیر صدارت ای سی سی کے اجلاس میں پیٹرولیم ڈویڑن کی جانب سے رہائشی صارفین کے مختلف سلیبس کے لیے تقریباً 70 سے 300 روپے فی یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو، یا ملین برٹش تھرمل یونٹ) کے نرخوں میں اضافے کی سمری پر غور کیا۔باخبر ذرائع نے بتایا کہ نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے صنعتی شعبے پر کراس سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے پر زور دیا، ان کی جانب سے صنعتی شعبے کے بعض کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو گیس سپلائی جاری رکھنے کی تجویز دیے جانے کا بھی بتایا گیا جب کہ ماضی میں فیصلے کیے گئے تھے کہ صنعتوں کو سی پی پیز سے اضافی پیداواری صلاحیت اور کم طلب والے قومی گرڈ پر منتقل کیا جائے گا۔اجلاس کے دوران مختلف سیکٹرز اور رہائشی سلیبس کے لیے گیس قیمتوں میں اضافے سے متعلق سوالات اٹھائے گئے اور کیپٹیو پاور پلانٹس اور صنعت پر کراس سبسڈی کے اثرات اور سبسڈی میں کمی کی صورت میں دیگر صارفین پر اس کے اثرات کے حوالے سے اضافی ڈیٹا بھی طلب کیا گیا،

اجلاس میں اس سوال پر بھی غور کیا گیا کہ موجودہ مالی سال کے دوران 2 گیس کمپنیوں کے لیے طے کیے گئے 100 ارب روپے کے ریونیو گیپ کو کیسے پورا کیا جائے۔اس مقصد کے لیے فورم نے ممکنہ طور پر دوبارہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا جس میں گیس قیمتوں کے تعین سے متعلق تفصیلی بات چیت اور غور کیا جائے گا جب کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ فروری کے وسط تک گیس نرخوں پر نظر ثانی کا وعدہ کیا گیا تھا۔رواں ماہ کے شروع میں گیس ریگولیٹر نے گیس یوٹیلٹیز، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کے لیے گیس کے نرخوں میں 9 سے 35 فیصد تک اضافہ کا تعین کیا تھا تاکہ ا?ئندہ چار ماہ میں صارفین سے تقریباً 100 ارب روپے اضافی بٹورے جاسکیں۔

گیس کی پہلے سے اضافہ شدہ اضافہ برآمدی صنعت گیس نرخ میں ناقابل برداشت گیس کے اضافے کے باعث قابل عمل نہیں رہی، مینوفیکچرنگ کی انتہائی زیادہ لاگت کی وجہ سے صنعتیں بند ہونے کے دہانے پرتوانائی اور گیس کے ٹیرف مسابقتی ممالک کے مقابلے میں دوگنے ہیں، موجودہ نگران حکومت جس کی بنیادی ذمہ داری انتخابات کا انعقادتھی اس کی بلاجواز معیشت، صنعت اور تجارت میں مداخلت اور غیردانشمندانہ اقدامات کے باعث معیشت بحران کا شکار، صنعت میں سست روی اور ایکسپورٹ کومکمل طور پر سبوتاڑکر دیا۔ نگران حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے دبا? کی وجہ سے بلاجواز اور ناقابل برداشت متواتر گیس نرخ میں اضافے نے ایکسپورٹ انڈسٹریز کوعالمی سطح پر مسابقت کے لیے برابری کے میدان سے محروم کرنے کے بعد اب تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ برآمدات پر مبنی صنعتیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں جس میں مینوفیکچرنگ کی تاریخی سب سے زیادہ لاگت ہے جس کی وجہ سے صنعتی اور برآمدی پیداوار رک گئی ہے۔

پاکستان بھر میں کئی صنعتیں پہلے ہی اپنی پیداوار بند کر چکی ہیں اور بڑی تعداد میں صنعتوں کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔ صنعتکاروں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں نے کبھی بھی وہ مراعات ایکسپورٹ انڈسٹریز کو نہیں دی ہیں جو مسابقتی ممالک کی حکومتوں کی طرف سے ان کے برآمد کنندگان کو دی جاتی ہیں اور انہیں برابری کے میدان اور برآمدی مسابقت سے بھی محروم رکھا ہے۔ نگراں حکومت نے گیس ٹیرف کو تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے اور اگست 2023 سے صنعتی توانائی (گیس) کے نرخوں میں 118 فیصد اضافہ کرنے میں سابقہ منتخب حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور مزید 40 فیصد آر ایل این جی کی قیمت میں اضافہ کرکے گیس کے نرخوں میں تاریخی بلند ترین سطح پر 191 فیصد اضافہ کیا ہے۔. وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی اسٹیک ہولڈرز کی میٹنگ میں صنعتوں کے اختلاف کے باوجود پٹرولیم ڈویڑن نے پہلے گیس کمپنیوں کو صنعتی گیس کی فراہمی کو آر ایل این جی کے لیے مزید 40 فیصد تک چارج کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ شاید یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی کوئی پاکستان کی صنعتوں کو بندکروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

برآمدی شعبے کے لیے صنعتی بجلی/بجلی کی قیمت 115 فیصد تک بڑھ گئی۔ اب موجودہ نگران حکومت نے صنعتی گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ 2950 فی ایم ایم بی ٹی یو۔ SNGPLپرRLNG بلینڈ کے لیے پہلے دیسی گیس کا تناسب 50% اور RLNG 50% تھا جسے اب تبدیل کر کے 33:67 کردیا گیا ہے۔ اوگرا نے ایک بار پھر صنعت کی مشاورت کے بغیر دو گیس کمپنیوں (SSGCL اور SNGPL) کے ٹیرف کا تعین کر دیا۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ اوگرا بورڈ میں صنعت کی کوئی نمائندگی نہیں ہے جو صنعت اور برآمدات کے مفادات کے تحفظ کے لیے واضح تصویر پیش کر سکے۔ پوری صنعت کو دا? پر لگا کر گیس کے نرخ بڑھا کر حکومت کی کپمنی (SSGCL) کو بچانا انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ صنعتوں کے استحکام اور بقا کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ دو کمپنیوں کے سرکلر ڈیٹ کو ختم کرنے کے لیے، اس طرح صنعتوں کے لیے ایک اور سرکلر ڈیٹ پیدا ہوگا۔ گیس کی فراہمی کی ترجیحات میرٹ اور انصاف پر رکھی جائیں۔ سبسڈی صرف مستحق اور پسماندہ افراد کو دی جائے نہ کہ پورے گھریلو شعبے میں جس میں غریبوں کے علاوہ تمام اشرافیہ، متمول اور مراعات یافتہ طبقے کو بھی شامل کیا جائے۔ غیر پیداواری شعبوں میں زیادہ استعمال کے ساتھ دیسی گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ ایک طرف سبسڈی والی دیسی گیس سے تیار ہونے والا فیڈ اسٹاک ملک سے باہر اسمگل کیا جاتا ہے اور دوسری طرف حکومت آر ایل این جی درآمد کررہی ہے۔

سبسڈی والی گیس استعمال کرنے والی مذکورہ فیڈ اسٹاک کمپنیاں بہت زیادہ منافع کما رہی ہیں جو ان کی بیلنس شیٹ سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس قیمتی وسائل کو صرف پیداواری صنعتی استعمال پر خرچ کیا جانا چاہیے۔ ایکسپورٹ انڈسٹریز کو کراس سبسڈی کے بوجھ کے بغیر گیس کی اصل قیمت وصول کی جانی چاہیے۔یوٹیلیٹی چارجز میں بے تحاشا اور ناقابل برداشت اضافے نے ہماری ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل اشیاء￿ کو عالمی منڈیوں میں غیر مسابقتی بنا کر پاکستان کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہمارے علاقائی حریف بھی عالمی منڈی میں ٹیکسٹائل کی برآمد میں پاکستان کے حصے پر قبضہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کی یوٹیلیٹی لاگت پاکستان سے کم ہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ مارکیٹ ایک بار کھو جائے تو آسانی سے دوبارہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔مزید یہ کہ صنعتوں کو ہفتے میں دو دن گیس کی بندش کا سامنا ہے۔ مزید برآں، ڈسکا ¶نٹ پالیسی کی شرح 22 فیصد، ایکسپورٹ ری فنانسنگ اور ایل ٹی ایف ایف 19 فیصد + بینک اسپریڈ کی بلند ترین حد کو بھی چھو چکی ہے۔
صنعت اور تجارت کو بے دردی سے متاثر کرنے والے ان سخت عوامل کے تناظر میں، قومی برآمدات جولائی تا جون-

22 2021کے دوران 31.78 بلین امریکی ڈالر سے 2022-23کے جولائی سے جون کے عرصے میں 27.74 بلین امریکی ڈالر سے 12.71 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہیں۔ یہ مالی سال 2023-2022 کے لیے مقرر کردہ 32.35 بلین امریکی ڈالر کے برآمدی ہدف سے 16.61 فیصد کمی ہے۔انہوں نے حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹیز کی لاگت کو کنٹرول کرنے کے لیے غیر دانشمندانہ پالیسی اور اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئی ہیں جس سے بالآخر برآمدات کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ میں بھی کمی واقع ہو گی اور بڑے پیمانے پرملازمتیں ختم ہو جائیں گی جس سے بدامنی اور امن و امان کی صورتحال پیدا ہو گی۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ برآمدی صنعتوں کے لیے مینوفیکچرنگ کی لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مساوی مسابقتی عمل ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے پالیسی سازوں کو صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں اور فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ صنعتوں کو کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلا کر اس معاملے کو قومی مفاد میں مناسب طریقے سے حل کریں۔

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں 9.30 فیصد کمی کا اعلان کردیا ہے۔ اوگرا نے یکم فروری سے ایل این جی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ سوئی ناردرن کے سسٹم پر ایل این جی 1.20 ڈالر اور سوئی سدرن کے سسٹم پر ایل این جی کی قیمت میں 1.29 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی کی گئی ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق سوئی ناردرن کے سسٹم پر ایل این جی کی نئی قیمت 12.49 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور سوئی سدرن کے سسٹم پر ایل این جی کی نئی قیمت 12.96 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقررکی گئی ہے، جنوری میں سوئی ناردرن کے سسٹم پر ایل این جی کی قیمت 13.69 اور سوئی سدرن کے سسٹم پر 14.24 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل اوگرا نے دسمبر کے مقابلے جنوری کے لیے ایل این جی کی قیمتوں میں 7.81 فیصد تک کمی کی تھی۔
nn