مزید خبریں

موٹاپا امراض قلب ، بلند فشار خون، کولیسٹرول، ڈیمنشیا اور الزائمر سمیت متعدد موذی بیماریوں کا سبب ہے

کراچی ( رپورٹ خالد مخدومی) موٹاپا امراض قلب اور میٹابولک امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کا باعث بنتا ہے، موٹاپے سے متاثرین کی دنیا بھر میں تعداد تقریباً 780 ملین ہے، خواتین موٹاپے کا زیادہ شکار ہیں ، موٹاپے کا شکار ہونے پر بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشربڑھ جاتا ہے، بڑھاپے کی جانب سفر بہت تیز ہوجاتا ہے، متاثرہ فرد درمیانی عمر میں ہی بوڑھا نظر آنے لگتا ہے، موٹاپے کاشکار ذہنی مریض بھی بن سکتاہے، موٹاپے سے یادداشت متاثر ہونے کے ساتھ ڈیمینشیا اور الزائمر جیسے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، امریکا میں مقیم معروف کارڈیو لوجسٹ ڈاکٹر شاہد عقیل کے مطابق یہ کوئی راز نہیں کہ جسمانی وزن میں اضافہ یا موٹاپا طویل المعیاد بنیادوں پر صحت کیلیے متعدد خطرات بڑھاتا ہے مگر اب ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کسی فرد میں موٹاپے کے شکار رہنے کا دورانیہ امراض قلب اور میٹابولک امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق موٹاپا کسی فرد کی صحت کیلیے تباہ کن ہوسکتا ہے مگر ہر ایک میں مختلف جان لیوا امراض کا
خطرہ یکساں نہیں ہوتا، موٹاپے کی مدت یعنی کچھ ماہ، سال یا دہائیوں سے صحت پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 10 سے 40 سال کی عمر کے 20 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی تحقیق سے دریافت ہوا ہے کہ کسی فرد میں موٹاپے کا طویل عرصہ اس میں جان لیوا امراض کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی وزن کو کنٹرول رکھنا کتنا ضروری ہے، تاہم اگر کوئی موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے تو جسمانی وزن میں جلد کمی لاکر جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرنا ممکن ہے۔ تحقیق کے مطابق اگر کسی فرد کا جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ اسے وہاں پر ہی روک لیتا ہے تو بھی اس میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یعنی صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ خواتین کے امراض کی ماہرڈاکٹر صادقہ خان نے جسارت کے سوال کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ موٹاپا ایسا پھیلتا ہوا مرض ہے، جس کے متاثرین کی دنیا بھر میں تعداد قریب 780ملین ہے، جن میں اکثریت نوجوان خواتین کی ہے۔ ایک نئی تحقیق میں موٹاپے کے سبب مردوں اور خواتین میں ذہنی امراض کی شرح میں بہت فرق دیکھا گیا۔دنیا بھر میں موٹاپے یا فربہ پن کا شکار تقریبا 780 ملین انسانوں میں بہت بڑی تعداد نوجوان خواتین کی ہے۔ ان کا کہناتھاکہ یہ مرض مردوں اور خواتین میں نفسیاتی بیماریوں کی وجہ بننے کے حوالے سے بہت مختلف اثرات کا حامل ہوتا ہے اور ذہنی طور پر خواتین اور مردوں کو کافی مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔ جسم فربہ ہونے سے میٹابولک اور دل کے امراض کے علاوہ ذہنی امراض کا شکار ہو جانے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے اور ایسے متاثرین میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔س امر سے تو سبھی واقف ہیں کہ موٹاپے سے ذہنی امراض کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ان کامزید کہناتھاکہ دنیا بھر میں نوجوان خواتین میں موٹاپے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کو کنٹرول کرنے کیلیے بروقت اسکریننگ اور فربہ پن سے متعلق آگہی پھیلانا اشد ضروری ہے۔ ممتاز غذائی ماہر ڈاکٹر شگفتہ فیروز نے بتایا کہ دنیا کے 194 ممالک میں فربہ افراد کی تعداد نارمل سے کہیں زیادہ ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 65 واں ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر 15 سے 40 برس تک کی عمر کی لڑکیاں اور خواتین موٹاپے کا شکار ہیں جسمانی بلوغت کو پہنچنے پر ایام خاص کے آغاز کے ساتھ ہی نسوانی جسم میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے لڑکیوں کے جسم فربہ ہونے لگتے ہیں۔ پھر شادی اور بچوں کی پیدائش کے ساتھ بھی مسلسل وزن بڑھتا ہے۔ڈاکٹر شگفتہ کے مطابق موٹاپے سے ذہنی امراض مثلا ڈپریشن اور اینگزائٹی کا شکار ہو جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے کیونکہ فربہ انسانوں کا اپنے بارے میں تاثر منفی اور کمزور ہوتا ہے۔ وہ اپنے جسمانی خدوخال اور ظاہر سے متعلق منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور یہ رجحان خواتین میں مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر فیصل ظفر نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ تو اب کافی حد تک لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے کہ جسمانی وزن میں اضافہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا، مگر یہ اضافی چربی مجموعی صحت کیلیے کتنی تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ درحقیقت طبی ماہرین تو اسے صحت کیلیے بہت زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں جو متعدد جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ جن میں سے کچھ تو فوری اور جبکہ کچھ طویل المعیاد بنیادوں پر سامنے آتے ہیں ۔کولیسٹرول خون میں چربی کو کہا جاتا ہے، جو کہ جگر قدرتی طور پر بناتا ہے، یعنی ہر ایک کے جسم میں کولیسٹرول موجود ہوتا ہے جو کہ ہر خلیہ اسے استعمال کرتا ہے تاہم ہم صحت مند رہ سکیں۔ کولیسٹرول کا کچھ حصہ اس غذا سے آتا ہے جو ہم کھاتے ہیں۔ مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ موٹاپے کا شکار ہونے پر بلڈ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں امراض قلب کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔ آسان الفاظ میں جسمانی وزن طویل المعیاد بنیادوں پر صحت پر اہم اثرات مرتب کرتا ہے۔اضافی جسمانی چربی جوڑوں کے امراض کی ذمہ دار ہوتی ہے، طبی ماہرین کے مطابق جسمانی وزن زیادہ بڑھ جانے سے گھٹنوں، کہنی اور ٹخنوں کے جوڑ پر بوجھ زیادہ بڑھ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں تکلیف دہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ انسولین وہ ہارمون ہے جو گلوکوز کو دوران خون سے باہر منتقل کرتا ہے، موٹاپے کے شکار افراد میں یہ کبھی کام کرتا ہے، کبھی نہیں، اس کے نتیجے میں خون میں گلوکوز جمع ہونے لگتا ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ مختلف طبی مسائل بالخصوص ذیابیطس ٹائپ ٹو کا باعث بن جاتا ہے۔جسمانی چربی زیادہ ہونے سے مثانے کے غدود بھی پھیل جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کینسر زدہ خلیات کی نشوونما وہاں ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ مردوں میں عام اور جان لیوا کینسر ہے۔ اینڈوکرائن گلینڈز متعدد فعال ہارمونز کو خون کا حصہ بناتے ہیں، مگر اضافی جسمانی چربی کے نتیجے میں اینڈوکرائن ہارمونز بننے کا عمل رک جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں جسم میں ہارمونز کی سطح میں عدم توازن کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جسم میں اضافی چربی اعضاء اور جوڑوں پر غیرضروری بوجھ بڑھاتی ہے اور اسے برداشت کرنے کے لیے انہیں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، اس جسمانی تناؤ اور دبائو کے نتیجے میں بڑھاپے کی جانب سفر بہت تیز ہوجاتا ہے اور متاثرہ فرد درمیانی عمر میں ہی بوڑھا نظر آنے لگتا ہے۔ آدھے سر کا درد یا مائیگرین اور اس سے ملتی جلتی علامات درحقیقت اعصاب میں ورم کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق جب جسم میں چربی کی سطح بڑھنے لگتی ہے تو اس کے نتیجے میں سر کی جانب آکسیجن ملے خون کی روانی متاثر ہوتی ہے، جو اس عارضے کا باعث بنتی ہے۔ یہی اضافی جسمانی چربی کولیسٹرول کی سطح بڑھاتی ہے، جو کہ دماغی خلیات کی تنزلی کی رفتار بڑھانے والا عنصر ہے، جس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے بلکہ ڈیمینشیا اور الزائمر جیسے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جسمانی وزن میں اضافہ کسی فرد کی جانب سے ناقص غذا کے استعمال کا عندیہ بھی دیتا ہے، کچھ مقدار میں چربی صحت کیلیے اچھی اور ضروری ہے تاکہ جسمانی افعال مناسب طریقے سے کام کرسکیں، مگر بہت زیادہ چربی کھانے کے نتیجے میں آنتوں کیلیے اسے پروسیس کرنا ناممکن ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے قبض کا مرض اکثر شکار بنانے لگتا ہے۔ ایسی حاملہ خواتین جو موٹاپے کا شکار ہوں، ان میں ہائی بلڈ پریشر، خون کی روانی رک جانے اور بچے کی پیدائش کیلیے آپریشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔