مزید خبریں

Iکا بورڈ آف ٹرسٹیز مدت ختم ہونے کے بعد بھی قائمEOBـ

نجی شعبہ کے ملازمین کو تاحیات پنشن فراہم کرنے والے قومی فلاحی ادارہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں چہار سو بے قاعدگیوں اور سنگین بدعنوانیوں کا دور دورہ ہے ایسے میں جہاں جس کا بس چلتا ہے وہ مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ پچھلے دنوں ای او بی آئی کی چیئر پرسن ناہید شاہ درانی کے تبادلہ کے بعد نئے چیئرمین پرویز احمد جونیجو نے تاحال عہدہ کا چارج نہیں سنبھالا جبکہ ادارہ میں پہلے ہی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز، ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ اور سیکرٹری بورڈ آف ٹرسٹیز کی اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔

وزارت نے ادارہ کے روزمرہ امور انجام دینے کے لیے فنانشل ایڈوائزر ناصرہ پروین خان کو چیئرمین کا عارضی چارج دیا ہے جن کے پاس پہلے ہی ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ کا چارج موجود ہے ادارہ میں بڑے پیمانے پر افسران اور اسٹاف ملازمین کی ریٹائرمنٹ اور بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے دانستہ طور پر نئی بھرتیاں نہ کرنے کے باعث قومی فلاحی ادارہ 40 فیصد عملہ پر کام کرنے پر مجبور ہے اس تشویشناک صورت حال کے نتیجہ میں ای او بی آئی ایک لاوارث ادارہ بن گیا ہے اور اس کا خمیازہ ہزاروں بوڑھے، معذور، بیوگان اور یتامیٰ کو اپنی پنشن کے حصول میں سخت مشکلات کی صورت میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ وفاقی حکومت کی ای او بی آئی کے معاملات سے غفلت کا یہ عالم ہے کہ ادارہ کے 16 رکنی سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز کی مقررہ دو برس کی مدت 2015ء میں ختم ہونے کے باوجود متنازعہ بورڈ آف ٹرسٹیز بدستور کام کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ای او بی آئی کے سابق افسر تعلقات عامہ اور ڈائریکٹر سوشل سیفٹی نیٹ پاکستان اسرار ایوبی نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ضعیف العمر ملازمین فوائد قانون مجریہ 1976ء کے تحت ای او بی آئی کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز تشکیل دیا گیا تھا۔

جس میں وفاقی حکومت کے چار نمائندوں کے علاوہ چاروں صوبائی حکومتوں، چاروں صوبوں کے آجران اور چاروں صوبوں کے ملازمین کے نمائندوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان ای او بی آئی کا سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز تشکیل دیتی ہے س کی قانون کے مطابق مقررہ مدت دو برس مقرر ہے۔ وزارت کے وفاقی سیکرٹری برائے عہدہ ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ہوتے ہیں ۔ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کو ادارہ کا نظام چلانے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ جن میں ای او بی آئی کے اربوں روپے کے سالانہ بجٹ اور آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی منظوری ، نجی اداروں اور ان کے ملازمین کی رجسٹریشن اور رجسٹرڈ آجران سے کنٹری بیوشن کی وصولیابی کے سالانہ اہداف کا تعین، پالیسی سازی، ملازمین کی ترقیاں ، نئی بھرتیوں کی منظوری اور وفاقی حکومت کو ہر سال ادارہ کی سالانہ رپورٹ جمع کرانا شامل ہے۔ اسرار ایوبی کے مطابق ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا پہلا اجلاس ہفتہ 13 اگست 1977ء کو صبح 10 بجے کراچی میں منعقد ہوا تھا۔ ای او بی آئی بورڈ آف ٹرسٹیز کے پہلے صدر ایف کے بندیال، وفاقی سیکرٹری محنت و افرادی قوت،حکومت پاکستان اور سرکاری ارکان میں کے ا ین چیمہ، جی ایم باجوہ، امتیاز اے چوہدری، ایم ایم عثمانی، حفیظ اللہ، جاوید برکی، قاضی نور الحق، چاروں صوبوں کے آجران کے نمائندوں میں عبد الحمید دادا بھائی، میاں مغیث اے شیخ، سلیم سیف اللہ، منوچہر کیقباد مارکر اور چاروں صوبوں کے ملازمین کے نمائندوں میں امان اللہ قریشی، خورشید احمد، شیر محمد، حسین احمد، اور اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان اور ای او بی آئی کے مشترکہ چیئرمین ڈی ایم قریشی اور پیٹرک سیکویرا شامل تھے۔

ای او بی آئی کے موجودہ 16 رکنی بورڈ آف ٹرسٹیز کی تشکیل وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے گزٹ نوٹیفیکیشن نمبر 1(5)/2013-EOBI کے تحت 6 نومبر 2013ء کو دو برس کے لیے عمل میں آئی تھی۔ جس کے صدر وفاقی سیکرٹری وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان ڈاکٹر ارشد محمود جبکہ دیگر ارکان میں وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے جوائنٹ سیکرٹری اور فنانشل ایڈوائزر، سیکرٹری محکمہ محنت و انسانی وسائل صوبہ پنجاب، سیکرٹری محکمہ محنت و انسانی وسائل صوبہ سندھ، سیکرٹری محکمہ محنت و انسانی وسائل صوبہ خیبر پختونخوا، سیکرٹری محکمہ محنت و انسانی صوبہ بلوچستان ، ملک طاہر جاوید صدر ایمپلائیرز فیڈریشن آف پاکستان و سابق سینئر نائب صدر ایوان صنعت و تجارت لاہور، محمد طارق رفیع، چیئرمین صدیق سنز کراچی، ڈاکٹر محمد یوسف سرور، ڈائریکٹر ایئریز فارما سیوٹیکلز (پرائیویٹ) لمیٹڈ پشاور، غلام فاروق، منیجنگ ڈائریکٹر فاروق بیوریجز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، کوئٹہ، چوہدری محمد محمد نسیم اقبال، صدر پاکستان ورکرز فیڈریشن لاہور، شوکت علی، جنرل سیکرٹری آل پاکستان ٹرید یونین کانگریس کراچی، محمد اقبال، صدر متحدہ لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا، پشاور اور سر زمین افغانی، جنرل سیکرٹری پاکستان مائن ورکرز فیڈریشن، کوئٹہ اور ای او بی آئی کے چیئرمین شامل ہیں۔ جبکہ اس وقت بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکرٹری کی عارضی ذمہ داری ڈاکٹر جاوید احمد شیخ قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز سندھ و بلوچستان کے سپرد ہے جن کی ذمہ داری بورڈ اجلاسوں کے ورکنگ پیپرز و ایجنڈے کی تیاری، ارکان کو ترسیل، مختلف شہروں میں بورڈ اجلاسوں کے انعقاد کا انتظام، ارکان کی شرکت کو یقینی بنانے اور اجلاسوں کی روداد کو کارروائی کے عین مطابق ریکارڈ کرنا اور صدر بورڈ سے اجلاس کی کارروائی کی روداد کو منظور کرانا شامل ہے۔ لیکن ای او بی آئی کے قانون سے بالاتر اور بااثر فنانس کیڈر کے غیر متعلقہ افسران نے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت کافی عرصہ سے سیکرٹری بورڈ ڈاکٹر جاوید شیخ کو محض ایک ربر اسٹمپ بناکر رکھا ہوا ہے۔ فنانس کیڈر سے تعلق رکھنے والے اور انتظامیہ کے منہ چڑھے یہ غیر متعلقہ اور بااثر افسران سیکرٹری بورڈ اور اس مقصد کے لیے قائم بورڈ سیکرٹریٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت نا صرف بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاسوں کے من پسند ورکنگ پیپر و ایجنڈا تیار کرتے ہیں بلکہ غیر قانونی طور پر اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شرکت کرکے 25 ہزار روپے یومیہ فیس بھی وصول کرتے ہیں۔