مزید خبریں

انتخابات سے معیشت میں بہتری متوقع ہے؟

اگر وقت پر شفاف انتخابات ہو جاتے تو شاید ملک بہتری کے راستے پر چل پڑتا ۔ملک کا ہر شہری گزشتہ دو سالوں سے جاری بدترین معاشی بحران سے پریشان ہے۔ حکومت مہنگائی میں اضافے کی سالانہ شرح 30 فیصد کے قریب بتاتی ہے۔غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں پسے عوام انتخابات سے امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ ہرجگہ یہی بحث تھی کہ کیا 8 فروری کو انتخابات ہو ں گے یا نہیں اور اگر ہو گئے تو ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کیا اتنی مضبوط ہوگی کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال سکے؟

الیکشن منعقد ہوچکے ہیں اوراب عوام سرکاری نتائج کے اعلان اورانتقال اقتدارکے منتظرہیں۔ نئی حکومت کواقتدارسنبھالتے ہی بجٹ کی تیاری اور پہاڑ جتنے قرضے کی ادائیگی کا انتظام کرنا ہوگا جس کے لئے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام ضروری ہوگا کیونکہ عالمی ادارے سے موجودہ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ اگلے ماہ کے آخرمیں ختم ہوجائے گا۔تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے منشورمیں معیشت کواہمیت دی ہے اس لئے عوام کوامید ہے کہ نئی حکومت انھیں معاشی عذاب سے نکالنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی۔

مقامی اورغیرملکی قرضوں کی ادائیگی اور ان کا سود بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ان قرضوں کا حجم اور ان کا سود اتنا بڑھ چکا ہے کہ حکومت آپریشنل اخراجات کے لیے بھی قرضے لینے پرمجبورہے۔قرضوں کا حجم بڑھنے کی بنیادی وجہ ٹیکس سسٹم کی کمزوری ہے۔ اسکے علاوہ قرضوں کی بڑی مقدارکومعیشت کوبہتر بنانے کے بجائے سیاست کوبہتربنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ ملک میں ایسے منصوبوں کی کمی نہیں جن کی منصوبہ بندی ناقص تھی جبکہ سیاسی فوائد کے لئے بہت سے غیرضروری پراجیکٹ بھی لگائے گئے ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے سرمایہ پانی کی طرح بہانے کی وجہ سے قرضہ جی ڈی پی کے 82 فیصد کے برابرپہنچ گیا ہے جوکہ حکومتی محاصل سے 667 فیصد زیادہ ہے۔

یہ قرضہ ہماری برآمدات سے 328 فیصد زیادہ ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ملک کا قرضہ گزشتہ سات سال کے دوران دگنا ہوکر 124 ارب ڈالرتک پہنچ گیا ہے جس میں سے بائیس فیصد ایک سال سے کم عرصہ میں ادا کرنا ہے۔ سیاسی قائدین اور اسٹیبلشمنٹ کویہ یقین ہوگیا ہے کہ اب ملک کو اس طرح نہیں چلایا جا سکتا ہے جیسے کہ چلتا رہا ہے۔ اب بھی اگراصلاحات اورسخت فیصلے نہ کئے گئے تومعاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت عوام کوریلیف دینے اورصنعت وزراعت کی بحالی کے لئے کیا کرتی ہے اوریہ کہ زرعی آمدنی، ہول سیلرزاورریٹیلرزپرٹیکس عائد کرنے اورزیرزمین معیشت کاحجم کم کرنے کے لئے اقدامات کرتی ہے یا نہیں۔

عام انتخابات کے بعد پہلے ہی دن پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا بھٹہ بیٹھ گیا۔جمعہ کو نہ صرف اسٹاک مارکیٹ کریش ہو گئی بلکہـ100 انڈیکس بھی1200پوائنٹس گھٹ گیااور مارکیٹ64ہزاراور63ہزار پوائنٹس کی دو بالائی حد سے نیچے گر گئی،بدترین مندی سے سرمایہ کاروں کو1کھرب62ارب روپے سے زاید کا خسارہ برداشت کرنا پڑا جبکہ مارکیٹ کا مجموعی سرمایہ 93کھرب روپے سے گھٹ کر91کھرب روپے رہ گیا اور75.54فیصد حصص کی قیمتیں بھی گھٹ گئیں۔

اسٹاک ماہرین کے مطابق عام انتخابات میں کسی بھی پارٹی کی بھاری اکثریت سامنے نہ آنے پر مختلف قیاس آرائیاں اور نئی سرمایہ کاری کے بجائے فروخت کادباؤبڑھنے سے مارکیٹ تنزلی کا شکار ہو گئی اور کاروبار کے اختتام تک مارکیٹ مندی کے گرداب سے نہ نکل سکی۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں جمعہ کو کے ایس ای 100انڈیکس میں 1200 .12پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی جس سے انڈیکس 64143.87پوائنٹس سے بڑھ کر 62943.75 پوائنٹس پر آگیا اسی طرح 423.35پوائنٹس کی کمی سے کے ایس ای30 انڈیکس 21711.61 پوائنٹس سے کم ہو کر21288.25پوائنٹس پر بند ہوا جبکہ کے ایس ای آل شیئرز انڈیکس 43314.01 پوائنٹس سے گھٹ کر42581.61پوائنٹس ہو گیا۔ کاروباری مندی سے مارکیٹ کے سرمائے میں1 کھرب62 ارب 94کروڑ30ہزار146 روپے کی کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں سرمائے کا مجموعی حجم 93کھرب61ارب 78کروڑ15 لاکھ57 ہزار196روپے سے کم ہو کر 91کھرب9 8ارب84 کروڑ15لاکھ27ہزار50روپے ہو گیا۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں جمعہ کو12ارب روپے مالیت کے25کروڑ80لاکھ73ہزار حصص کے سودے ہوئے جبکہ عام انتخابات سے ایک دن قبل یعنی بدھ کو14ارب روپے مالیت کے 32کروڑ75لاکھ91ہزار حصص کے سودے ہوئے تھے۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں گذشتہ روز مجموعی طور پر 319کمپنیوں کا کاروبار ہوا جس میں سے55کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں اضافہ ،241میں کمی اور23کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں استحکام رہا۔کاروبار کے لحاظ سے کے الیکٹرک لمیٹڈ2کروڑ5لاکھ ،آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ 1کروڑ89لاکھ ،پاک پیٹرولیم 1کروڑ78لاکھ ،پاک ریفائنری 1کروڑ48لاکھ اور ورلڈ کال ٹیلی کام 1کروڑ34لاکھ حصص کے سودوں سے سرفہرست رہے۔
اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ الیکشن سے بے یقینی کی فضا تو چھٹ جائے گی، لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہوگا لیکن الیکشن کے بعد معاشی استحکام کی فوری کوئی امید نہیں۔

الیکشن کے بعد دوست ممالک سے امداد یا فارن ڈائرکٹ انویسٹمنٹ کے حوالے سے امیدیں حقائق کے منافی ہیں۔حکومت کہہ رہی ہے کہ 125 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آنے والی ہے۔ لیکن پچھلے 23 برسوں میں پاکستان میں کل 48 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی جس کی سالانہ اوسط 2 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اب اتنی خطیر رقم یک دم کیسے آجائے گی؟پھر پاکستان کو پرانے قرض بھی ادا کرنے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے دو عبوری قسطیں ملنی ہیں۔ اور فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان 2024ء میں ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لیگا۔ یہ قرضہ کڑی شرائط پر ہوگا۔

الیکشن کے بعد اگر دوست ممالک پاکستان کو مطلوبہ قرضہ یا امداد دے بھی دیں تو وقتی تو گزارہ ہوجائے گا لیکن اگلے سال پاکستان شاید کڑی قسطوں پر لیا گیا بیرونی قرض کی قسط ہی نہ ادا کرپائے۔ اگر پاکستان قرضوں کی ری شیڈولنگ، ری پروفائلنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کے علیحدہ نتائج ہوں گے۔اگلے کم از کم دو سال پاکستان کے لیے معاشی طور پر بہت کٹھن ہوں گے۔ اگر پاکستان توانائی ٹیکسوں کے شعبے میں اصلاحات نہیں کرتا، تعلیم و صحت کا بجٹ نہیں رکھا جاتا اور اس کو قانونی شکل نہیں دی جاتی تو پاکستان خودکشی کی جانب جارہا ہے۔

انتخابات کے بعد نئی حکومت کو اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اگر فوری اصلاحات ہوجائیں اور نئی حکومت مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے عوامی مقبولیت کے فیصلوں سے اجتناب کر سکے تو دو سال کے بعد پاکستان کے اقتصادی حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔مہنگائی مزید بڑھے گی اور اگلے کم از کم دو سال پاکستان کے لیے معاشی طور پر بہت کٹھن ہوں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ الیکشن کے بعد بے یقینی کی فضا تو چھٹ جائے گی لیکن ملک ترقی اس وقت ہی کرے گا جب توانائی ٹیکس اور دوسرے شعبوں میں اصلاحات ہوں گی۔ ان اصلاحات کے نفاذ کے کوئی دوسال بعد ہی بہتری ہونا شروع ہوگی۔لیکن کیا کسی سیاسی حکومت کے لیے اصلاحات یا دیگر الفاظ میں مزید مہنگائی کرنا ممکن ہوگا؟
مشرق وسطیٰ کی صورتحال یا کسی دوسرے واقعے سے اگر کوئی بین الاقوامی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو ایسی صورت میں معاملات یکسر تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2001ء میں امریکا اور افغانستان کے درمیان جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشیت میں بہت بہتری آئی تھی۔

انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کو اصلاحات کرنی ہوں گی، اگر فوری اصلاحات ہوجائیں اور نئی حکومت مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے عوامی مقبولیت کے فیصلوں سے اجتناب کر سکے تو دو سال کے بعد پاکستان کے اقتصادی حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے، کیونکہ ا?نے والے دنوں میں مہنگائی مزید بڑھے گی اور اگلے کم از کم دو سال پاکستان کے لیے معاشی طور پر بہت کٹھن ہوں گے۔ملک ترقی اس وقت ہی کرے گا جب توانائی ٹیکس اور دوسرے شعبوں میں اصلاحات ہوں گی، لیکن کیا کسی سیاسی حکومت کے لیے اصلاحات یا دیگر الفاظ میں مزید مہنگائی کرنا ممکن ہوگا؟ دوسری جانب پاکستان کا ہر باشندہ بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کا نوحہ پڑھتا ہے۔ حکومتی مشینری کی نا اہلی اور کرپشن کے قصے سْناتا ہے۔

بجلی، پانی، گیس، اسپتال، تھانے اور دیگر درجنوں محکموں سے جْڑے مسائل پر شور مچاتا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان میں کہیں وہ سیاسی حقیقتیں ہیں جن کے ذمے ا?گے کے سفر کی سمت اور طریقہ کار کا تعین ہے۔ الیکشن کے بعد ا?نے والی حکومت کے سامنے اسی سمت اور سفر کے طریقہ کار کا تعین سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ کیا اگلی حکومت کی خواہش مند جماعتوں یا شخصیات کو اس گمبھیر صورتحال کا اندازہ ہے؟ اور آخر اْن کے پاس وہ کون سا طریقہ ہے کہ ملکی معیشت میں استحکام لایا جاسکے۔
پاکستان کو پرانے قرض بھی ادا کرنے ہیں۔ ا?نے والے دنوں میں پاکستان کو ا?ئی ایم ایف سے دو عبوری قسطیں ملنی ہیں اور فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان 2024 میں ایک بار پھر ا?ئی ایم ایف سے قرضہ لے گا، یہ قرضہ کڑی شرائط پر ہوگا، اگر دوست ممالک پاکستان کو مطلوبہ قرضہ یا امداد دے بھی دیں تو وقتی گزارہ ہوجائے گا لیکن اگلے سال پاکستان کو کڑی قسطوں پر لیے گئے بیرونی قرض کی قسط ادا کرنا مشکل ہو جائے گا، اگر پاکستان قرضوں کی ری شیڈولنگ، ری پرو فائلنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کے علیحدہ نتائج ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال یا کسی دوسرے واقعے سے اگر کوئی بین الاقوامی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو ایسی صورت میں معاملات یکسر تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔

اس وقت عوام کو درپیش اہم مسائل میں مہنگائی اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ سرفہرست ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے عام آدمی سے لے کر صنعت کار تک ہر کوئی پریشان ہے۔ حکومت ملنے کے بعد گزشتہ حکومتوں کا رونا رونے کے بجائے مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔پاکستان میں اس وقت ہر طرح کی انڈسٹری بدترین بحران سے دوچار ہے جس کی بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ انرجی کاسٹ بڑھنے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ہم مسابقت میں خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ان تمام صورتحال کی روشنی میںاس بات سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نئی حکومت عوام کو کو ئی فوری طور پر سہولت دینے میں مکمل ناکام رہے گی۔
nn