مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

مذہب کی تاریخ
ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بنیاد پر ’’مذہب‘‘ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کےمقام پر پہنچا۔

قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدت تکنسل آدم راہ راست پر قائم رہی اور ایک امت بنی رہی۔

پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتےتھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔

اسی خرابی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا۔ یہ انبیا علیہم السلام اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی امت بنالے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہ حق کو واضح کر کے انہیں پھر سے ایک امت بنا دیں۔
(تفہیم القرآن، سورۃ البَقَرَۃ حاشیہ: 230 )
٭…٭…٭
اگر میں صورتِ حالات کا غلط اندازہ نہیں کر رہا ہوں تو یہ حقیقت ہے کہ جو امتحان اس وقت مذہب کو درپیش ہے‘ اس سے وہ صرف اسی صورت میں کامیابی کے ساتھ گزر سکتا ہے جب کہ نوخیز نسل اس کے اندرونی نظم کی جانچ پڑتال کرکے اس امر کا پورا اطمینان کرلے کہ زندگی میں جن عملی مسائل اور جن پریشانیوں اور پیچیدگیوں سے اس کو سابقہ پڑ رہا ہے ان کا بہترین حل اس مذہب میں موجود ہے۔ شخصی مذہب کا دور اب گزر چکا ہے۔ محض جذباتی مذہب کی بھی اب کسی کو حاجت نہیں۔ اس قسم کے مذہب کا زمانہ بھی اب نہیں رہا جو فرد کو صرف اس حد تک تسلی اور سہارا دے سکتا ہو کہ اس کے اخلاقی طرز عمل کے لیے کچھ ہدایات دے دے اور ایک ایسی نجات کی امید دلا دے جس کا حال مرنے کے بعد ہی کھل سکتا ہے۔

موجودہ زمانے کا سائنٹیفک آدمی تو ہرچیز کو‘ حتیٰ کہ خود صداقت کو بھی بین نتائج کی کسوٹی پر پرکھ کردینا چاہتا ہے۔ اگر اس کو مذہب کا اتباع کرنا ہے تو وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اس کو یہ بتائے کہ وہ اس کی زندگی کے عملی مسائل کا اپنے پاس کیا حل رکھتا ہے۔ بہت سے جنموں کے بعد آخر کار نروان حاصل ہونے کی امید‘ یا موت کے دروازے سے گزر جانے کے بعد آسمانی بادشاہت میں پہنچ جانے کی توقع ایسی چیز نہیں ہے کہ صرف اسی کی بنیاد پر وہ مذہب کو قبول کرے۔ اس کی فلسفیانہ جستجو کے لیے مذہب کو سب سے پہلے تو وہ کلید فراہم کرنی چاہیے جس سے وہ کائنات کے معمے کا کوئی قابلِ اطمینان حل پاسکے۔ پھر اسے ٹھیک ٹھیک سائنٹیفک طریقے پر علت اور معلول‘ سبب اور نتیجے کا بَیَّن تعلق ثابت کرتے ہوئے یہ دکھانا چاہیے کہ انسان ان طاقتوں کو کس طرح قابو میں لائے جو اس وقت بے قابو ہو کر نوعِ انسانی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے تباہ کر دینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں اور کس طرح وہ بے روزگاری‘ غیر معقول عدمِ مساوات‘ ظلم و ستم‘ معاشی لوٹ‘ جنگ‘ اور دوسری اجتماعی خرابیوں کا انسداد کرے اور افراد کی باہمی کشمکش اور خاندانی نظام کی برہمی کو کس طرح روکے جس نے انسان کی مسرتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ (لارڈ لوتھین کا خطبہ، ترجمان القرآن، مارچ 1938)