مزید خبریں

ماہِ شعبان‘ احکام و فضیلت

ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ’’شعبان‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’شَعّبہ‘‘ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ’’شعبان‘‘ رکھا گیا۔ (عمدۃ القاری)
نبی کریمؐ اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسولؐ نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپؐ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں‘‘۔ (بخاری و مسلم) ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں کہ رسولؐ کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں‘‘‘۔ (کنزالعمال)
اسی طرح سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں: ’’میں نے رسولؐ کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دو مہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ (ترمذی) یعنی نبی کریمؐ رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔

ماہِ شعبان میں روزے کی حکمتیں
ماہِ شعبان میں رسولؐ کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی اسباب اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، علامہ محب طبریؒ نے چھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں، (عمدۃ القاری) جن میں سے چار حکمتیں وہ ہیں جن کی طرف احادیث میں بھی اشارہ کیا گیا ہے، انھیں کو یہاں ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

1۔رمضان کی تعظیم اور روحانی تیاری
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ سے سوال کیاگیا کہ: رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ… الخ (ترمذی) یعنی رمضان المبارک کی عظمت، اس کی روحانی تیاری، اس کا قرب اور اس کے خاص انوار وبرکات کے حصول اور ان سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ ماہِ شعبان میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کا سبب بنتا تھا اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔ (الطائف المعارف لابن رجب، معارف الحدیث)

ـ2۔اللہ تعالیٰ کی طرف اعمال کا اٹھایا جانا
سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں؛ حالانکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان، فتح الباری)
3۔مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسولؐ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔ (مسند ابو یعلی، فتح الباری)

ـ4۔ہر مہینے کے تین دن کے روزوں کا جمع ہونا
ایک حکمت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ نبی کریمؐ تقریباً ہر مہینے تین دن یعنی ایامِ بیض (تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے رکھتے تھے۔ (نسائی) لیکن بسا اوقات سفر وضیافت وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور وہ کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے، تو ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے۔
فائدہ(1): مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریمؐ کئی حکمتوں کی وجہ سے شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو‘۔ (ترمذی) تو علما نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے، ایسے لوگوں کو اس حدیث شریف میں یہ حکم دیا گیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو؛ بلکہ کھاؤ پیئو اور طاقت حاصل کرو؛ تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ رکھ سکو اور دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دے سکو اور نبی کریمؐ چونکہ طاقتور تھے، روزوں کی وجہ سے آپؐ کو کمزوری لاحق نہیں ہوتی تھی؛ اس لیے آپؐ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھتے تھے اور امت میں سے جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں اور روزے ان کو کمزور نہیں کرتے وہ بھی نصف شعبان کے بعد روزے رکھ سکتے ہیں، ممانعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کو کمزوری لاحق ہوتی ہے۔ (فتح الباری)
فائدہ (2): ماہِ شعبان کے روزے صحیح روایات سے ثابت ہیں، جیسا کہ تفصیل گزرچکی؛ لہٰذا شعبان کے کم از کم پہلے نصف حصے میں روزے رکھنے چاہییں اور اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے؛ اگرچہ یہ روزے نفلی ہیں نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں۔

شبِ برأت کی فضیلت و اہمیت
ماہِ شعبان کی پندرہویں شب ’’شبِ برأت‘‘ کہلاتی ہے، برأت کے معنی ’’رستگاری وچھٹکارا‘‘ کے ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: شب برأت کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی برأت ہوتی ہے: (1) ایک برأت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ (2) دوسری برأت خدا کے دوستوں کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔ (غنیۃ الطالبین)
نیز فرمایا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر و عیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کے لیے آسمان پر دو راتیں (شبِ برأت وشبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔ مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔ (غنیۃ الطالبین)
احادیث شریفہ میں شبِ برأت کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے، جن میں سے چار حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:

بے شمار لوگوں کی مغفرت:
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریمؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپؐ کی تلاش میں نکلی، تو میں نے دیکھا کہ آپ بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں۔ آپؐ نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)

صبح تک اللہ تعالیٰ کی ندا:
سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ کا ارشاد ہے: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرو؛ اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟ کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ (ابن ماجہ)

کن لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی:
سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جھانکتے ہیں یعنی متوجہ ہوتے ہیں نصف شعبان کی رات میں، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔ (ابن ماجہ)
اہم فائدہ: ’’مشاحن‘‘ کی ایک تفسیر اس بدعتی سے بھی کی گئی ہے جو مسلمانوں کی جماعت سے الگ راہ اپنائے (مسند اسحاق بن راہویہ، حاشیہ ابن ماجہ) سیدنا عثمان بن ابی العاصؓ کی روایت میں ’’زانیہ‘‘ بھی آیا ہے اور عائشہ صدیقہؓ کی ایک روایت میں ’’رشتے داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی‘‘ بھی آیا ہے اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے۔ گویا احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (14) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے: (1) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (2) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (3) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (4) زانی وزانیہ (5) رشتے داری توڑنے والا (6) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا (7) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (8) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (9) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل (10) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (11) جادوگر (12) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا (13) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا (14) طبلہ اور باجا بجانے والا۔ (شعب الایمان، الترغیب والترہیب، مظاہر حق)