مزید خبریں

انتخابات منصفانہ ہوں تو ملک میں معاشی استحکام اور آئین کی پاسداری ممکن ہے

 

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) انتخابات منصفانہ ہوں تو ملک میں معاشی استحکام اور آئین کی پاسداری ممکن ہے‘الیکشن کے بعدمنتخب سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ ملکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں‘جماعت اسلامی اقتدار میں آکر جمہوریت کو مستحکم کرے گی‘ مجھے الیکشن سے بہتری کی کوئی گنجائش نظرنہیں آتی‘پاکستان میں جمہوریت ابھی تک پنپ نہیں سکی‘الیکشن کے بعدمنتخب سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ ملکر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ ان خیالات کا اظہار بیرون ملک مقیم افراد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا بیرون ملک پاکستانیوں کے نزدیک انتخابات بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں؟‘‘عارف افضال عثمانی نے کہا کہ اس الیکشن میں کامیاب ہونے والی جماعت کو ملک اور قوم کی خدمت کرنے کا بیڑہ اٹھانا ہوگا اور بحیثیت سچے اور پکے پاکستانی میں یہ پھر کہنا چاہوں گا۔ پاکستان کے عوام کسی بھی سیاسی جماعت کو منتخب کریں خواہ کوئی بھی ہو وہ اور اسٹیبلشمنٹ مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالیں‘ 77 سال بہت ہوتے ہیں اب ترقی کا عمل شروع ہونا چاہیے۔لندن برطانیہ میں مقیم پاکستان کوئز سوسائٹی انٹرنیشنل کے بانی چیئرمین سید عاصم علی قادری نے کہا کہ بظاہر تو کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آ رہا جس کے اندر اتنی قابلیت اور اہلیت ہو جو پاکستان کے لیے بہتر اقدامات کرسکے‘ سب سیاستدانوں کو قوم ان کے کردار، اخلاق اور گفتار کی وجہ سے جانتی ہے اور میں تو سمجھتا ہوں کہ لیڈرمحب وطن ہونے کے ساتھ اسلامی مملکت کے قیام کے لیے خلوص نیت سے جدوجہد کرے‘ تاکہ وہ مقصد پورا ہوسکے جس کے لیے اس ملک کا قیام عمل میں آیاتھا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں ہے جس کو ہم یہ کہیں کہ وہ کوئی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ ماضی کی ہماری حکومتوں نے بین الاقوامی سطح پر ملک کواتنا زیادہ مقروض کر دیا ہے کہ کسی بھی سیاست دان کے لیے اس مسئلے کا حل تلاش کرنامشکل ہوگا ‘ قومیں اتحاد سے بنتی ہیں ‘ سیاسی جماعتوں نے کوئی پالیسی نہیںبنائی یہ صرف کھوکھلے نعرے لگارہے ہیں۔ندیم سبطین نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے کھچڑی بنی ہوئی ہے‘ سیاسی و معاشی نظام درہم برہم ہے‘ جماعت اسلامی عام انتخابات میں کامیابی کے لیے جدوجہد کررہی ہے اس کا ماضی بے داغ ہے ‘ ایم کیو ایم کی کوئی شکل نظر نہیں آرہی‘ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے‘ میاں نواز شریف کو واپس لایا ہی اسی لیے گیا ہے کہ ان کو حکومت دی جاسکے ‘ابھی تک ہمارے ملک میں عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے کاکوئی رواج نہیں ہے ‘ ڈرائنگ روم میں پہلے ہی فیصلے ہوجاتے ہیں‘کون وزیر اعلیٰ اورکون وزیراعظم ہوگا۔ سید محمود معین الدین نے کہا کہ آزادانہ و منصفانہ انتخابات کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ناگزیر ہیں‘ لیکن سلیکشن ہوتو ملک داؤ پر لگ سکتا ہے‘ضمیر فروش طاقتور افراد چند لوگوں کو ملک کی باگ دوڑدیتے ہیں جو25کروڑ عوام پرغیرمنتخب افراد کو مسلط کرنے مترادف ہے جو ملک کا بیڑا غرق کرتے ہیں‘عوام کے ووٹوں کی طاقت سے مخلص اور قابل لوگ اقتدار میں آئیںگے تو ملک ترقی کرے گا۔پاکستان ویلفیئر سوسائٹی کے نائب صدر اور کشمیر کمیٹی جدہ کے نومنتخب ممبر شریف زمان نے کہاکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی نظر میں عام انتخابات ہمیشہ ملک میں بہتری کا پیش خیمہ ہوتے ہیں‘ ہر آنے والی نئی حکومت سے اچھی توقعات رکھتے ہیں‘ حکومت کو چاہے کہ وہ ملک میں ایسے قومی منصوبے شروع کرے جس میں اوورسیز پاکستانیز کی سرمایہ کاری محفوظ ہو ۔سعودی عرب میں مقیم ہوپ پروفیشنلز فورم کے مرکزی چیئرمین عرفان احمد میمن نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی بالکل اجازت ہونی چاہیے تا کہ وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘پاکستان کو ایک اچھے لیڈر کی اشد ضرورت ہے۔ پاک یونائیٹڈ میڈیا فورم کے مرکزی چیئرمینعابد شمعون چاند نے کہا کہ آج ہونے والے الیکشن کے شفاف ہونے کی کوئی امیدنہیںہے‘ ملک میں ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی ہے‘ جبر عوام کی سیاسی ،سماجی و معاشی زندگی کو گزشتہ2 سال سے متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں بہتری کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے‘ تحریک انصاف کے خلاف کارروائیوں نے آزادی اظہار رائے پر بھی ایک ان کہے خوف کو مسلط کر دیا ہے ۔شارجہ، یو اے ای میں مقیم خادم شائین حسین نے کہا کہ عام انتخابات ملک میں کسی بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں جب مخلص اور قابل افراد کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا جائے‘ یہ الیکشن نہیں ہورہے یہ تو تماشہ ہورہاہے ‘ لوگوں کو پریشا ن کیا جارہا ہے ہیں یہ الیکشن نہیں ہو رہا یہ تماشہ ہو رہا ہے ‘ووٹ ڈالنے والوں کو کچھ فائدہ بھی ہوگا یا نہیں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اسکاٹ لینڈ مقیم ندیم ربانی نے کہا کہ ہمیں موجودہ انتخابی سسٹم سے کوئی خاص امید نہیں ہے کیونکہ ماضی کے تمام انتخابات دھاندلی زدہ رہے ہیں اس کے باوجود اللہ تعالی سے بہتری کی امید ہے‘ اس بار جماعت اسلامی کو موقع دیں اور جماعت اسلامی پر لوگ بھروسہ کریں تو کچھ تبدیلی کی امید رکھی جا سکتی ہے ۔امریکا میں مقیم وقارنے کہا کہ مجھے الیکشن سے بہتری کی کوئی گنجائش نظرنہیںآتی‘مجھے یہ امید بھی نہیں ہے کہ یہ الیکشن منصفانہ الیکشن ہوں گے۔امریکاسے منصورصلاح الدین نے کہا کہپاکستان میں عام انتخابات پاکستان کے مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں‘ ہم اپنے لیڈروں کا انتخاب کس طرح کرتے ہیں یہ فیصلہ سوچ سمجھ کرکرناچاہیے ‘ عام انتخابات بہتری کی طرف تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں بشرطیکہ عوام اپنی حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کریں اور گھروں سے باہر نکل کرووٹ ڈالیں۔برمنگھم، برطانیہ میںمقیم منصور زاہد نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر حکومت کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہوتا ہے‘یہ نہیں ہونا چاہیے‘ انتخابات ہونے چاہیے اور ہر گورنمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنا چاہیے ‘ منصفانہ الیکشن ہونے چاہئیں انتقام کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ٹورنٹو، کینیڈا میں مقیم انتظام اللہ نے کہا کہ جماعت اسلامی انشاء اللہ اقتدار میں آکر جمہوریت کو مستحکم کرے گی۔ امریکا میں مقیم ارشد اسد علی نے کہا کہپاکستانی کمیونٹی ایسے انتخابات دیکھنا چاہتی ہے جو عوام کی مرضی کی نمائندگی کرتے ہوں‘ سیاسی انتشار کافی خراب ہے‘ ہم ایسی حکومت دیکھنا چاہتے ہیں جو عوام کی بنیادی مسائل کو حل کرے۔ سعودی عرب میں مقیم سابق سفارت کار ، پاک انٹرنیشنل اوورسیز میڈیا فورم کے بانی چیئرمین سید تحسیم الحق حقی نے کہا کہ ووٹ ایک گواہی ہوتا ہے ‘ جس امیدوار کو ووٹ دیا جائے وہ صدق دل سے عوام اور ملک کی بے لوث خدمت کرے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں عام انتخابات میں ہر دور میں تنقید ہوتی رہی ہے کہ انتخابات صاف و شفاف نہیں ہوئے ‘ آج ہونے والے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیاگیا ہے اس سے قبل ہی ایک جماعت کے امیدواروں کی گرفتاریاں کی گئی ہیں ۔سعودی عرب میں مقیم مبشر انوار نے کہا کہ جمہوری معاشروں میں جمہور کی’’آزادانہ رائے‘‘کی اہمیت و ترجیح ہمیشہ مقدم رکھی جاتی ہے پاکستان میں جس طرح انتخابات کروایا جا رہا ہیں، وہ صریحاً جمہوری روایات کے ساتھ کسی سنگین مذاق سے کم نہیں ہیں‘ ان انتخابات میں ارباب اختیار نہ جمہور کو آزادی رائے کا حق دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی ایک سیاسی جماعت کے امیدواران کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں۔