مزید خبریں

انٹرویو برائے نو منتخب امیدوار جنرل نشست لاہور رفعت پراچہ

میرا نام رفعت قیوم پراچہ ہے. شوہر کا نام سعید احمد پراچہ اور اللہ نے اپنی رحمت اور نعمت دونوں سے نوازا ہے میرے چار بچے ہیں
میرے دادا حاجی عبدالمجید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے ہیں اور سسر مولانا گلزار احمد مظاہری عالم دین بھی ہیں اور اتحاد بین العلماء کے صدر رہے ہیں اور جماعت کی شوری کے رکن بھی رہے. والد صاحب جماعت سے منسلک تھے.
میں کوئی کتابی کیڑا تو نہیں تھی لیکن پھر بھی اسکالرشپ لیا. پوزیشن ہولڈر رہی. گریجویشن کیا. ماسٹر شادی کے بعد کیا.

سوال نمبر04 :شادی کب اور کہاں ہوئی؟
جواب =1979 میں شادی خاندان میں ہوئی.میرے شوہر بہت دوستانہ اور دین کے کاموں میں الحمداللہ معاون ہیں – میرے چار بچے ہیں – سب کو دین و دنیا کی تعلیم دلوائ – الحمداللہ سب اچھے شعبہ جات میں روز گار سے منسلک اور اپنے اپنے دائرہ کار میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں

سوال نمبر 04: آپ کے مشاغل اور پسندیدہ ادبی شخصیات کون ہیں؟
ـ▪️جواب=میرے مشاغل میں کتابیں پڑھنا شامل ہے. اس کے علاوہ اخبارات کا مطالعہ تو ہمیشہ سے رہا ہے اور اس وقت اخبار میں عمران سیریز آتی تھی جسے ہم بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے. نسیم حجازی کی تقریبا تمام کتب کا مطالعہ کیا تاریخ سے بہت دلچسپی رہی.

ـسوال نمبر05: بیرون ملک سفر کہاں کیا ہے؟ تجربہ کیسا رہا؟
ـ▪️امریکہ،ترکی اور سعودی عرب میں رہنے کا اتفاق ہوا.
امریکہ میں رہ کے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے کام کا اغاز صبح سویرے کرتے ہیں اور مغرب کے بعد ختم کر دیتے ہیں. جو چیز ہم مسلمانوں میں ہونی چاہیے تھی وہ ان کے اندر ہے اور یہ چیز دیکھ کے تھوڑا دکھ ہوتا ہے.

سوال نمبر 06: کیا مرد و زن کو یکساں تعلیم ملنی چاہیے؟
ـ▪️جواب = مرد اور زن کو یکساں تعلیم کے مواقع ملنے چاہیے- لیکن اس میں صلاحیتوں کے اعتبار سے درجات یونے چاہیں – جو شعبے خواتین کے لیے ضروری اور ناگزیر ہیں ، ان کی تعلیم کو خواتین کے لیے مخصوص کیا جائے ۔جو غیر ضروری ہیں ، وہاں خواتین کو بلاوجہ گھسانے سے اجتناب کیا جائے –
لیکن مخلوط تعلیم کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے.

سوال نمبر 07: کیا پاکستان سے محبت اور اسلام سے محبت دو علیحدہ جذبات ہیں؟
ـ▪️ایک مسلمان کے لیے سب سے پہلے اللہ کی محبت پھر رسول کی پھر اسلام اور وطن کی محبت شامل ہے. لیکن چوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا خطہ ارضی ہے لہذا پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے عملی جدوجہد لازم اور ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ۔

سوال نمبر08: کیا ہم نظریے پاکستان کو علیحدہ کر کے ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں؟
ـ▪️نظریہ پاکستان سے جڑنا بہت ضروری ہے. ہمارے قومی زوال کی یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے نظریے کو بھول چکے ہیں. اسی نظریے کی فراموشی نے پہلے وطن عزیز پاکستان کو دو لخت کیا – اگر اب بھی نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان سے نہ جوڑا گیا تو مستقبل میں نظریاتی بحران کا سامنا ہو گا

سوال نمبر 09: آپ خود ایک خاتون ہیں. خواتین معاشرے کی اصلاح میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟
ـ▪️خواتین کا معاشرے میں بنیادی کردار ہے. خاتون ایک ماں کی حثیت سے اور ایک استاد کے رتبے میں تربیت کا گہوارہ ہے اور اسی کے ہاتھ میں آنے والی نسل ہے -قران میں بھی خواتین کو بہت مقام و مرتبہ حاصل ہے. وہ اپنے مقام اور مرتبے کو پہچانے تو معاشرے کی اصلاح خود بخود ہو جائے گی.

سوال نمبر 10: قوانین کی موجودگی کے باوجود خواتین بہت سے مسائل کا شکار رہی. اپ اس کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟
ـ▪️قوانین کی موجودگی مسئلے کا حل نہیں. قوانین پہ عمل درامد ہونا اصل مسئلہ ہے. فوری انصاف ملنا اور فورا سزا اور اصل شرعی سزاؤں پر عمل ہی مسئلے کا حل ہے.

سوال نمبر 11: ہمارے معاشرے میں عورت کا باپ اور شوہر کی وراثت میں اپنا حصہ طلب کرنا جرم سمجھا جاتا ہے. اس حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے لیکن عمل درامد کو کیسے یقینی بنایا جائے؟
ـ▪️وراثت میں تو اللہ تعالی نے عورت کو حصہ دیا ہے. شوہر کی جائیداد میں باپ کی جائیداد میں یہ تحفہ ہے عورت کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے. مگر ہماری عورت کو اس وقت یہ شعور ہی نہیں ہے. وہ سمجھتی ہے کہ میں نے اگر وراثت کا مطالبہ کیا تو یہ شاید کچھ جرم ہوگا.اس کی وجہ ہندوانہ معاشرے کی سوچ ہے۔ ہمارے منشور میں بھی یہ بات شامل ہے کہ ہم عورت کو یہ شعور دیں گے کہ جو چیز اللہ تعالی کی طرف سے مقرر ہے تو اس کو کیوں چھوڑ دیں- جب عورت اپنے وراثتی حق کے حصول کے لیے سنجیدہ ہو جائے گی تو معاشرہ بھی یہ حق دینے کا عادی بن جائے گا –
سوال نمبر 12=پاکستانی عورت کی صحت کے مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہیں ؟
ـ◼️جواب=پاکستان میں خوراک ملاوٹ زدہ ہے – اس پر توجہ ہونی چاہیے – خالص اشیا مارکیٹ میں دستیاب ہوں -صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے – ہر علاقے میں مرکز صحت ہو جس میں مکمل طبی سہولیات فراہم کی جائیں – ہنگامی صورت میں عورت کو گھر سے قریب ترین طبی سہولیات دستیاب ہوں –

سوال نمبر 13= دیہات میں عورت کی تعلیم پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ، اس کے لیے جماعت اسلامی کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ؟
ـ◼️جواب= عورت کی تعلیم و تربیت دراصل بہترین خاندان کی بنیاد ہے – جماعت اسلامی برسر اقتدار آکر ہر دیہات میں بچیوں کی تعلیم کے الگ ادارے بنائے گی – مخلوط تعلیم کے اداروں کو الگ کر کے خواتین اساتذہ کیطتعیناتی کے ساتھ طالبات کے ادارے بحال کرے گی – اس کے علاوہ دیہات کی بچیوں کو ہنرمند بنانے کے لیے ہر گاؤں میں ووکیشنل تعلیم کے ادارے کھولے جائیں گے اور تھوڑے فاصلے پر خواتین کالج قائم کیے جائیں گے اور خواتین یونیورسٹیز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا تا کہ دیہاتی بچیاں محفوظ ماحول میں اعلی تعلیم کے مواقع حاصل کر سکیں

سوال نمبر14 : آپ میں اور دوسری جماعتوں کہ نمائندہ میں کیا واضح فرق ہے جس کی وجہ سے عوام آپ کو منتخب کریں
ـ▪️جواب =ہمارا منشور قران اور سنت سے جڑا ہوا ہے اور ہمارا نمائندہ بھی اس کی عملی تصویر نظر اتا ہے.- اور دوسری بات یہ کہ قرآن کے مطابق بھی اپنے ملک کی حکومت ایماندار قیادت میں دینے کا حکم ہے جو ملکی وسائل کو ایمانداری سے عوام اور ملک کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں ۔۔
وہ ایماندار قیادت جماعت اسلامی کی ہی ہو سکتی ہے -جو اصول شریعت پر عمل پیرا ہیں –
OOOO