مزید خبریں

امیدوارکروڑوں کےا خراجات اربوں روپے عوامی ٹیکس سے وصول کر یں گے

نہیں معلوم یہ سب کچھ اعلان کس کے لیے ہوتا ہے زمینی حقیقت یہ ہے کہ سوائے چند سیاسی جماعت ہی الیکشن کمیشن کے معیار پر پورے اترتے ہوں اس لیے کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو گوشواروں کی تفصیلات 29 اگست 2023ء تک جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام جماعتیں آمدنی، اخراجات، واجبات اور فنڈنگ کے ذرائع سے متعلق مکمل ریکارڈ جمع کرائیں۔الیکشن کمیشن نے مزید کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اکاؤنٹس آڈٹ اور چارٹڈ اکاؤنٹنٹ کی رپورٹ بھی جمع کرانا ہو گی، ممنوعہ ذرائع سے فنڈز نہ حاصل کرنے سے متعلق سرٹیفکیٹ بھی جمع لازمی دینا ہوگا۔یہ سب کس کس نے جمع کر ائے اس بارے میں کچھ

کہنا ناممکن ہے
پاکستان میں برسوں سے الیکشن کی یہی روایت ہے کہ وہ سیاسی پارٹی جس کے نصیب میں لاڈلابنناہوتا ہے اس کی ہر چیز معاف اور اپوزیشن کا ہر حلال حرام قرار پاتا ہے
رواں مالی سال ملک میں مہنگائی کی اوسط شرح 33 فیصد ہے، تاہم انتخابی مہم میں امیدوار کا انتخابی خرچ آج بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ہے۔الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار اپنے حلقے میں زیادہ سے زیادہ 40 لاکھ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار اپنے حلقے میں زیادہ سے زیادہ 20 لاکھ روپے تک الیکشن مہم کی مد میں خرچ کر سکتا ہے، گزشتہ 10 عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن مہم کے اخراجات میں 6 بار ردوبدل کیا گیا ہے۔لیکن اگر الیکشن کے اخراجات پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے” ن”لیگ اور پی پی پی کے ایک ایک امیدوار نے ایک سے دو کروڑ کی گاڑیوں پر اپنی اور اپنے پارٹی رہنما کی تصاویر رنگ کر ا رکھی ہے اور اسی طرح کا رکنان کو پارٹی رہنماؤں کو بھاری رقم دیکر ٹکٹ حاصل کیا گیا

ہے
1970ء میں ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات میں نیشنل اینڈ پراونشیل اسمبلیز الیکشن آرڈیننس 1970ء کے تحت مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار اپنے حلقے میں زیادہ سے زیادہ 25 ہزار روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار اپنے حلقے میں زیادہ سے زیادہ 15 ہزار روپے تک الیکشن مہم کی مد میں خرچ کر سکتا تھا، اس سے قبل یہ رقم قومی اسمبلی کیلئے 15 ہزار

روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے 10 ہزار روپے تھی۔
1977ء میں ہونے والے عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے اخراجات میں ایک بار پھر تبدیلی کر دی گئی، قومی اسمبلی کے امیدوار کی الیکشن مہم اخراجات کی حد 60 فیصد اضافے کے ساتھ 40 ہزار روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے یہ حد 66 فیصد اضافے کے ساتھ 25 ہزار روپے کر دی گئی تھی، 1985ء￿ میں ہونے والے غیر جماعتی

انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی انتخابی اخراجات کی حد برقرار رکھی گئی تھی۔
1988ء کے عام انتخابات میں امیدواروں کی الیکشن مہم کے اخراجات میں 1 ہزار 150 فیصد تک اضافہ کرتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے اخراجات بالترتیب 5 لاکھ اور 3 لاکھ کر دیئے گئے، 1990ء کے عام انتخابات میں انتخابی امیدوار کیلئے الیکشن مہم پر ہونے والے اخراجات کی حد کو برقرار رکھا گیا، تاہم 1993ء کے انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں انتخابی مہم پر خرچ ہونے والی رقم کی حد میں دوگنا اضافہ کر دیا گیا، 1993ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کا امیدوار اپنی الیکشن مہم پر زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار 6 لاکھ روپے خرچ کر سکتا تھا۔1997ء کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی و صوبائی اسمبلی کی الیکشن مہم پر اخراجات کی حد کو برقرار رکھا گیا، 2002ء میں الیکشن کمیشن آرڈیننس 2002ء متعارف کرایا گیا، جس کے تحت قومی اسمبلی کے امیدوار کی انتخابی مہم کے اخراجات کی حد کو 50 فیصد اضافے کے ساتھ 15 لاکھ روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کیلئے یہ حد 66 فیصد اضافے کے ساتھ 10 لاکھ روپے کر دی گئی تھی، 2013ء کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی انتخابی مہم کے

اخراجات کی حد کو ایک بار پھر برقرار رکھا۔
2017ء میں الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017ء متعارف کرایا گیا، جس کے تحت امیدواروں کی الیکشن مہم کے اخراجات میں 166 فیصد تک اضافہ کرتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئے ہونے والی الیکشن مہم کے اخراجات بالترتیب 40 لاکھ روپے اور 20 لاکھ روپے کر دیئے گئے، گزشتہ عام انتخابات میں امیدواروں کے اخراجات کی حد بھی 40 لاکھ روپے (قومی اسمبلی) اور 20 لاکھ روپے (صوبائی اسمبلی) رہی تھی۔تاہم 2023ء میں ہونے والے ممکنہ عام انتخابات میں انتخابی مہم کے اخراجات کی حد میں ابھی تک کسی قسم کا ردوبدل نہیں گیا۔ جبکہ 2018ء سے 2023ء کے دوران ملک میں مہنگائی کی اوسط شرح بالترتیب 5 فیصد، 9.4 فیصد، 9 فیصد، 9.5 فیصد، 19.73 فیصد اور 33 فیصد، جبکہ اسی عرصہ میں روپے کی مقابلے میں ڈالر کی قدر 154 فیصد اضافے کے ساتھ 109.84 روپے سے بڑھ کر 279.8 روپے پر پہنچ گئی ہے۔ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 132 کے تحت انتخابی اخراجات میں اضافہ کر

ے تاکہ انتخابی قوانین کی کم از کم خلاف ورزی ہو۔
انتخابات 2024 میں ٹرانسپورٹیشن، سکیورٹی کے فول پروف انتظامات اور دیگر اخراجات کے اضافے سے الیکشن اخراجات کا تخمینہ 49 ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے وفاقی حکومت سے 47 ارب روپے کی ڈیمانڈ کی تھی جو مرحلہ وار الیکشن کمیشن کو فراہم کی جارہی ہے۔ملک میں سکیورٹی خدشات اور سرحدی صورتحال کے پیش نظر پولیس، رینجرز ، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے سکیورٹی کے لیے الیکشن کمیشن سے مزید ساڑھے 3 ارب روپے کی ڈیمانڈ کردی ہے۔اس حوالے سے صرف پنجاب پولیس نے عام انتخابات کی سکیورٹی کیلئے الیکشن کمیشن سے ایک ارب 19کرو

ڑ روپے طلب کرلیے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار حقیقت پسندانہ لگتے ہیں۔”پاکستان میں قومی اسمبلی کے امیدوار دو کروڑ سے لے کر بیس کروڑ تک انتخابات پر خرچ کرتے ہیں۔ انتخابات کے دوران پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ اور بہت سارے شعبوں کو فروغ ملتا ہے جس کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انتخابات میں سینکڑوں ارب روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔‘‘الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک افسر نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ سن 2018 کے انتخابات میں 400 ارب روپے سے زیادہ ممکنہ طور پر لگا ہو گا۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ عام انتخابات 2024پر الیکشن کمیشن کا 58ارب روپے خرچہ ہوگا جس میں سے 17ارب روپے صرف سیکورٹی پر خرچ کئے جائینگے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے 14ہزار سے زائد امیدواروں کا حصہ لینے کا امکان ہے جن کے الیکشن پر 500ارب روپے خرچ ہونگے۔ اگر الیکشن رزلٹ ملکی مفاد میں نہ آئے تو ملک کے لئے معاشی

طور پر خطرناک ہوسکتا ہے۔
انتخابات دو ہزار چوبیس کی گہما گہمی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تازہ اعداد و شمار بھی جاری کردیے ہیں۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں چار سالوں کے دوران 21 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، خواتین ووٹرز کی تعداد 2018 کے مقابلے میں 46.7 ملین سے بڑھ کر 58.5 ملین ہو گئی ہے – جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کا تقریباً 46 فیصد ہے۔ دوسری طرف، مرد ووٹرز، کل ووٹرز کے 54 فیصد یا 68.5 ملین پر مشتمل ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرست کے مطابق 18 سے 35 سال کی عمر کے ووٹروں کی تعداد میں 90 لاکھ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، جس نے انہیں ایک اہم قوت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اگر سیاسی پارٹیاں نوجوان کو پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب ہوگئیں تو یہ انتخابات کے نتائج کو مکمل طور پر تبدیل کرسکتاہے۔جیسا کہ پاکستان 2024 کے عام انتخابات کی تیاری کر رہا ہے،اس انتخابی معرکے میں سب سے مضبوط دعویدار پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) ہے۔ڈیجیٹل سیاست کے دور میں، روایتی انتخابی مہمات کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے، جس سے ڈیجیٹل پر مبنی حکمت عملیوں کے ایک نئے دور کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ پاکستان

بھر کی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے ووٹروں سے رابطہ قائم کرنے میں ڈیجیٹل ورلڈ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ پیش کردہ فوائد ایک جانب جبکہ اخلاقی اور رازداری کے خدشات دوسری جانب ہیں، ووٹر ڈیٹا کی غلط ہینڈلنگ، جعلی خبروں کا پھیلاؤ، اور الگورتھمک تعصب کے امکانات نے انتخابی عمل کی سالمیت کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل، ڈیٹا پرائیویسی کے مسائل کے لیے ایک عالمی ویک اپ کال ہے جو کہ مضبوط ضابطوں اور حفاظتی اقدامات کی فوری ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ جمہوری اصولوں اور انفرادی رازداری کے تحفظ کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال میں توازن رکھنا پاکستان اور دنیا بھر کی اقوام کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ان حالات سے پتا چلتا ہے کہ انتخابات کو بھی خدشات کا سامنا ہے ۔
nn