مزید خبریں

الیکشن2024ء پاکستان کا معاشی بحرانحل کرے گا ؟

سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ جوپاکستان میں برسوں سے اقتدار پر قابض ہیں اور ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کی مد د سے اقتدار پر قابض ہو نے کوشش کر رہے ہیں وہ ملک کے عوام کو کسی بھی طرح سے معاشی سکون دے سکیں گئے ؟اس کا جواب مثبت میں ہو ہی نہیں سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ماضی میں اپنے دورِ اقتدار میںملک کی عوامی معیشت کو تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں دیا اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ ۔موجودہ نگران حکومت نے وہ معاشی اصلاحات کیں ہیں جس کی آئی ایم ایف کو ضرورت اور عوام کی میں مشکل اضافہ کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو برقراقراور الیکشن سے چند دن قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ملک کی عوام پر مالیاتی بوجھ ڈال دیا ہے ؟بزنس کمیونٹی کئی ماہ سے شرح سود میں کمی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن اسٹیٹ بینک سود بڑھانے کی کو شش میں مصروف نظر آرہی ہے تاجروں نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا اور اس کا اثر براہِ راست روزمرہ استعمال کی اشیا ضروریہ پر پڑے گا، ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے سارا بوجھ عوام پر ڈالنا ظلم ہے۔انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، عوام کب تک ان کی نا اہلی کی قیمت ادا کریں گی کیا ارباب اختیار مزید تباہی کا انتظار کریں گی۔

ملک کے نامور ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمہ دار طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے، ناجائز مراعات حاصل کرکے اورقرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ اشرافیہ ہر جگہ موجود ہے اسے بعض سیاست دانوں کا تعاون بھی حاصل ہے، انہیں اداروں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے اس لیے آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ ”ان کے بقول،”اشرافیہ کا یہ مافیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی توڑ دیتا ہے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ عوام یہ بات کہنے کا حق ہے کہ حکمرانوں نے غریبوں سے جینے کا حق چھیننے کی ٹھان لی ہے، عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ،خدا کے لیے عوام پر رحم کریں عوام آپ کا بوجھ مزید برداشت نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس گئی،دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا، حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے۔

پاکستان کے چوٹی کے ماہرین معیشت نے کہا ہے کہ ملکی تاریخ کے سنگین ترین اقتصادی بحران کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ملک کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سمیت سب کا ہاتھ ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے جولائی سے جنوری کے لیے 5ہزار 115 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا اور اس طرح ایف بی آر 7ماہ میں ہدف سے35 ارب روپے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا۔ جنوری میں ایف بی آر نے 681 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے اور جولائی سے جنوری تک 5ہزار 150 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا لیکن یہ سب کون کھا جائے گا اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے

اب یہ بات سب ہی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ بحران کی زیادہ ذمہ داری ملکی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جو چار ہزار ارب کی مراعات لیے ہوئے ہے وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ پاکستان کی بہترین بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فی صد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔ ” دوسری طرف گھی ، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ بائیس تیئس سالوں کی کہانی ہے جس میں سول اور ملٹری دونوں طرح کی حکومتیں شامل ہیں۔ ملک کو درکار ضروری معاشی اصلاحات کرنے، معیشت کو دستاویزی بنانے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں سے جان چھڑانے کے لیے جتنی کوششیں کی جانی چاہیں تھیں وہ دیکھنے میں نہیں آئیں۔

اس بات سے انکا ر نہیں ہے کہ موجودہ اقتصادی بحران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پریشان کن اور مشکل بحران ہے۔ ”ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کووڈ کی وبا، تاریخ کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔”صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے میں ملکی قرضے دوگنا ہو گئے ہیں۔ پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ یہ بحران حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار ہیں لیکن ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔ ملک کی بیوروکریسی کے زوال نے بھی ملک کے اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیا ہے۔ ان کی اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل اوراقتصادی پالیسیوں کے نفاذ میں ناکامی نے بھی ملک کے معاشی بحران کو بڑھاوا دیا ہے۔

پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات پروفیسر ڈاکٹر اکمل حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی بحران ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ملک کا سیاسی نظام بھی بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔ ان کے بقول یہ ایک ایسا وقت ہے جب ملک میں ریاست اورعوام کا رشتہ بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔

ڈاکٹر اکمل حسین سمجھتے ہیں کہ اس اقتصادی بحران کی ذمہ دار اشرافیہ ہے جس نے ملکی معیشت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ٹیلنٹ اور انٹرپرائزز کی بجائے بیرونی قرضوں کو بٹھا دیا ہے۔ ان کے مطابق ”ملک کے معاشی فیصلے دو سوبیس ملین لوگوں کے لیے ہونے چاہییں نا کہ صرف ایک ملین مراعات یافتہ لوگوں کے لیے۔‘‘

ملکی بحران کے حل کے دو راستے ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے راستے پر جا کر بجٹ میں توازن لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سب سیڈیز ختم کی جائیں۔ ان کے خیال میں اس سے ملکی معیشت کی رفتار سست ہو گی۔ اور بے روزگاری، مہنگائی اورغربت میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ان کے مطابق اس بحران کے خاتمے کا دوسرا حل یہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں موجود قیمتی سرکاری اراضی کو عالمی تجارتی کمپنیوں کو لیز پر دے کر، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے قرضے ادا کر دیے جائیں اوراس سے قبل قرضوں پر خرچ کی جانے والی رقوم لوگوں کی صحت اور تعلیم کی بہتری پر خرچ کی جائے۔ اس طرح لوگوں کو تربیت دے کر ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے اور ”ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس‘‘ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگر ایسا ہواتو اقتصادی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا وگرنہ بیرونی قرضے پہلے سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد پھر معاشی بحران آن کھڑا ہو گا۔

عوام کا اصل میں مسئلہ کیا ہے، کیسے ہماری توانائیاں، وقت اور سرمایہ ضائع ہو رہا ہے اور کیوں ہم دنیا سے پیچھے ہیں، حکمران طبقہ کیسے ہمارا خون نچوڑ رہا ہے اور پاکستان کا عام شہری زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ کون اٹھاتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوتا ہے، کون ہے جو انتخابات کے نتیجے میں فیض یاب ہوتا ہے اور کس کی زندگی مزید مشکلات میں گھر جاتی ہے۔ یقینا سب سے زیادہ فائدہ حکومت کرنے والے اٹھاتے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان وسائل سے محروم طبقے کا ہوتا ہے، سب سے زیادہ فائدہ وہ اٹھاتے ہیں جو عوام کے ہمدرد بننے کی اداکاری کرتے ہیں۔

ماضی میں قوم پر حکمران کر نے والے پی پی پی اور “ن” لیگ قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے ایک اچھا بیانیہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ پاکستان کے مسائل کا حل فوری طور پر شفاف انتخابات ہیں معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ درحقیقت مسائل کا حل انتخابات نہیں بلکہ انتخابات ہی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان میںجتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں اور انتخابات کے نتیجے میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں اس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت بہت کمزور ہوئی ہے۔آئندہ بھی خفیہ ہاتھوں کا یہی کما ل ہو گا کہ ملک میں ایسی حکومت قائم ہو جس عوام کے بجائے اشرافیہ کو مزید سہولت دی جائے تاکہ وہ عوام کو دوبارہ لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیں۔