مزید خبریں

ـ5 فروری ‘ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن

5 فروری پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے کیونکہ اسے ملک میں یومِ کشمیر یا پھر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن جموں کشمیر کے خطے میں جاری تنازعہ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور اس خطے کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے وقف ہے جو طویل عرصے سے اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ کشمیر کی صورتحال بہت سنگین ہوچکی ہے۔ خواتین اور بچے خاص طور پر بہت کمزور ہیں، ان کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل صرف پاکستان اور بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ وسیع تر عالمی برادری کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت موقف اختیار کرے اور تنازع کے پْرامن اور منصفانہ حل کے لیے دباؤ ڈالے۔ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جوکہ آزاد ہیں۔

افسوس کہ ہر سال پانچ فروری کو دنیا بھر میں کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اجتماعات، جلسے جلوس اور مظاہرے کیے جاتے ہیں اور دنیا کو یاد دلایا جاتا ہے کہ بھارت کشمیریوں کا حق آزادی غصب کرکے بیٹھا ہے۔ کاش پاکستان کی حکومت اس طرف بھی توجہ کرے اور بھرپور طریقے سے کشمیریوں کا ساتھ دے اور انشاء اللہ ہم اگلے سال کشمیر ڈے منانے کی بجائے کشمیر کی آزادی کا دن منائیں۔ کاش کہ اسلامی اُمہ جوکہ آج ایٹمی طاقت سے مالامال ہے، جن کے پاس تیل اور ہیرے جواہرات کی دولت ہے اگر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوجاتے تو آج جو حال فلسطین اور غزہ کے اندر بے شمار شہادتیں ہوئی ہیں وہ بھی نہ ہوتیں اور کشمیر بھی آزاد ہوچکا ہوتا۔ یہ اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، انسانی جان کی بے توقیری، خواتین پر بے حرمتی اور بچوں کو بینائی سے محروم کرنے کے جو واقعات ہورہے ہیں، اس نے انسانیت پر ایمان رکھنے والے لوگوں کو دنیا بھر میں شدید پریشانی کے عالم میں مبتلا کردیا ہے۔ کسی ریاست کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سیاسی مفادات اور ریاستی حکمت عملی کے نام پر انسانیت کے اْن مسلمہ اصولوں کو پامال کرے جن پر عالمی ضمیر ہمیشہ یک سو رہا ہے اور جنہیں مہذب معاشرے میں کبھی گوارا نہیں کیا گیا۔
کشمیر میں جاری ظلم و جبر کے خلاف قراردادیں پیش کرنے سے اور ترانے گانے بجانے سے ’’چھوڑ جا میری وادی کو اے کشمیر‘‘ کہنے سے کشمیر کبھی بھی آزاد نہیں ہوسکتا۔ کشمیر تب ہی آزاد ہوگا جب محمود غزنوی کے گھوڑے آئیں گے۔ کشمیر تب ہی آزاد ہوگا جب محمود غزنوی جیسا کوئی حکمران آئے گا۔ مگر افسوس کہ اب محمود غزنوی تو دوبارہ نہیں آسکتا۔

کشمیر کی عورتیں اور بچے دیواروں کے ساتھ کان لگا کر سوچتی ہوں گی کہ کیا اب دوبارہ محمود غزنوی نہیں آئے گا؟ کیا دوبارہ محمد بن قاسم نہیں آئے گا؟ جو آئے اور ہمیں آزاد کروائے۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ کو مسخ کردیا گیا۔ ایک وہ بھی وقت تھا کہ ایک عورت کا خط پڑھ کر محمد بن قاسم نے راجہ داہر اور اس کی فوج کو تہس نہس کر دیا۔ افسوس کہ ان مجبور اور مظلوم کشمیریوں کو آزاد کروانے کا جذبہ کسی میں رہا ہی نہیں۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 76 سال گزر گئے ہیں اور ہر پاکستانی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتا ہے لیکن آج بھی کشمیری عوام محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور شہاب الدین محمد غوری جیسے لیڈروں کا انتظار کررہی ہے کہ جو آئیں اور اْن کو آزاد کروائیں۔ آج کے اس ترقی یافتہ اور امن کے دور میں جب بھی کوئی کشمیری مسلمان ناجائز نقطہ اجل کا شکار ہوتا ہے تو کیوں کوئی بااثر دھمکی آمیز آواز نہیں اْٹھائی جاتی ماسوائے کشمیریوں کے پختہ ارادوں اور جذبوں کے۔ کشمیر کی سرحد پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے جس سے یہ ثابت کرایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے کئی جنگیں بھی لڑی گئیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو لے کر کئی معاہدے بھی طے پائے لیکن بھارت کی چالاکیاں اور بے ایمانیاں ہمیشہ کشمیری مسلمانوں کے حقوق کو دباتی رہی ہیں۔ کشمیری اپنی زندگی کو آزادی سے گزارنے پر بھی محتاج ہیں اور ہر وقت کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔ بھارتی فوج نے کشمیر میں کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کرکھی ہے اور لاکھوں کشمیری مسلمان آزادی کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کئی ماؤں کے بیٹے اور کئی بہنوں کے بھائی ایک دوسرے سے جْدا ہوگئے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیریوں نے اپنے خون کے نذرانے بھی پیش کردئیے لیکن آج بھی کشمیریوں کی نظر کسی ایسے مسیحا کو ڈھونڈتی نظر آرہی ہے کہ جو آئے اور ان کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر آزادی کی روشنیوں میں لے آئے۔

حکومت کو بزدلی اور خوف کی کیفیت سے باہر نکل کر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے قومی او ر اْصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم اور اس کے مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے اقدام اْٹھانے چاہییں۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ظلم جتنا بڑھتا چلا جائے آزادی کی منزل اتنی ہی قریب آتی چلی جاتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب کشمیری ہی نہیں بھارت کے دوسرے علاقوں کے مظلوم بھی ظلم سے نجات پائیں گے۔ اور آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ انشاء اللہ العزیز۔

مسئلہ کشمیر درحقیقت تقسیم ہند کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جس طرح شمالی ہند میں پاکستان مسلم اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آیا، اسی اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو 1947ء میں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن ہندوؤں اور انگریزوں کی سازشوں کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان میں شمولیت میں رکاوٹ ڈالی اور جموں و کشمیر کو سازش کے ذریعے بھارت سے الحاق کیا گیا۔ 1947ء میں مہاراجہ کشمیر اور بھارتی حکمرانوں نے ناپاک گٹھ جوڑ کرلیا اور بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرکے اس کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ تاہم کشمیریوں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں جب کشمیر آزاد ہونے کے قریب تھا تو بھارت نے اقوامِ متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ اقوام متحدہ نے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے دو قراردادیں منظور کیں جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیاگیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے گا مگر ہمیشہ سے اس مظلوم قوم کو اس حق سے محروم رکھا گیاہے۔ خانہ سوزی، عقوبت خانوں کے تشدد، خواتین سے دست درازی، چھاپوں اور گرفتاریوں کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی کی مہم شروع کی گئی۔ روزانہ خواتین کی عصمتیں تار تار کی جاتی ہیں، ماؤں اور بہنوں سے ان کے سہاگ چھینے جاتے ہیں، لاکھوں بچے یتیم ہورہے ہیں۔ بھارتی افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے جس کے تحت نہ صرف مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کیاجارہا ہے بلکہ خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔ کشمیر کی عوام پر لوہے اور ربڑ کی وہ گولیاں برسائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں لاتعداد افراد بلاناغہ معذور ہورہے ہیں۔ ایسے مشکل حالات میں پاکستان کی عوام کشمیریوں کی آواز بنی اور انہوں نے اپنے کشمیری بھائیوں کو تنہا چھوڑنے کی بجائے ان کی حمایت کا نعرہ بلند کیا اور اس نعرے کو ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کہاجاتا ہے۔ لیکن محض اعلانات اور وعدے کافی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ درست ہے کہ یوم یکجہتی منانے سے کشمیریوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر اْجاگر ہونے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں اور حکمرانوں کی طرف سے صرف اتنا کر دینے سے ہی کشمیر کے مسئلے کو کوئی تقویت مل سکتی ہے اور کیا آزادی کی منزل قریب آسکتی ہے؟ آخر کب تک ہم صرف یومِ یکجہتی مناتے رہیں گے؟ کیا ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات نہیں اْٹھانے چاہئیں؟ حالانکہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج اور ایٹمی طاقت موجود ہے۔ اب تو پاک فوج پوری قوت اور طاقت سے بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان خود تو کچھ کرتے نہیں اور پاک فوج کے ہاتھ بھی باندھ رکھے ہیں۔ پاکستانی افواج پر بھروسہ کریں اور انہیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا کہیں، اگر مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل ہو تو ٹھیک ہے ورنہ چھین لیں گے ہمارے بہادر فوجی جوان۔ کیونکہ مسلمان کبھی بھی شہید ہونے سے نہیں ڈرتا۔ مسئلہ کشمیر سیاستدانوں کے ہاتھ سے لے کر سوچیں پھر ہی اس کا کوئی حل ممکن ہے ورنہ قیامت تک سیاستدان اپنی کرسی بچانے اور تجارت و کاروبار کے چکر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم ہونے دیں گے اور بیان بازیوں سے عام عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔

مسئلہ کشمیر کروڑوں انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ پاکستان کی آزادی، سلامتی اور استحکام کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو نظرانداز کرنا پاکستان کے وجود سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔ اس وجہ سے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہاجاتاہے اور شہ رگ کٹ جانے سے باقی وجود بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ کشمیر میں رائے شماری کروائے تاکہ مظلوم کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ ہوسکے اور برصغیر میں امن و امان اور خوشحالی بحال ہو۔