مزید خبریں

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا اقتصادی منشورکا اعلان

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے 27جنوری وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت(ایف پی سی سی آئی)میں تاجروں سے خطاب میں کہا کہ جماعت اسلامی زندگی کے تمام شعبوں میںاقتدار میںآنے سے قبل ہی کا م کر رہی ہے ۔ا س موقع پرا میرِ جماعت کرچی حافظ نعیم الرحمان نے میں خطاب کیا ۔ا میرِ جماعت نے ملک کی اقتصادی صورتحال کا تفصیل جائیزہ لیتے ہو ئے کہا ملک میں مسائل کا انبار ہے لیکن حل کر نے والا دور تک نظر نہیں آرہا ہے ۔فیڈریشن کے ارکان سے انھوں کہا ملک میں ہو نے والی سیاسی لڑائی نے اقتصادی صورتحال کو تباہ کر دیا ہے ۔ امیر جماعت اسلامی کی خصوصی خطاب عوام بھی سن لیں کہ امیر جماعت اسلامی کس طرح ملک میں غربت بے روزگاری ختم کر ے گی ۔

عدلیہ،اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کو غیرجانبدار اورغیرسیاسی ہونا چاہیئے،ہم اقتدار میں آکر ٹیکس میں اضافہ کریں گے،،جماعت اسلامی امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ 8فروری کے الیکشن میں جو لاڈلا بن رہا ہے تو دوسری مخالف پارٹی کو اعتراض ہے کہ وہ لاڈلا مکیوں نہیں ہے،عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ یاپیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو آئندہ5سال تک ملک میں جھگڑا اور فساد ہی رہے گا جس سے ملک کو مزید نقصان پہنچے گا ،دونوں کا مقصد ملکی دولت کی لوٹ مار اور مزید ٹیکسز لگاکر غریب عوام کا خون نچوڑنا ہے،جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ عدلیہ،اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کو غیرجانبدار اورغیرسیاسی ہونا چاہیئے،ہم اقتدار میں آکر ٹیکس میں اضافہ کریں گے،تاجر ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن وہ چوروں کو ٹیکس نہیں دے رہے،اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کی پالیسی پر چل رہا ہے لیکن ہم مرکزی بینک کو آئی ایم ایف سے نجات دلائیں گے،ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 8 فروری کے بعد پاکستان کے ساتھ ایران اور افغانستان کو ایک میز پر بیٹھائیں گے ،کیونکہ میری معلومات کے مطابق ہمارے دشمن نے تکونی جنگ کا منصوبہ بنایا ہے اس کے نتیجے میں امریکہ میں خوشحالی ہوگی،ہم یہ چاہتے ہیں اس خطے میں امن ہو ،ہم تینوں ممالک کو بلا کر ایک امن کانفرنس بلائیں گے ،ہمارا ارادہ ہے کہ زہر پولائزیشن کو ختم کیا جائے اور اسی لئے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلیشمنٹ کو ایک ساتھ بیٹھائیں گے ، ہمیں بڑے د شمن سے لڑنا ہے اور اس کے لئے سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار ہفتے کو وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت(ایف پی سی سی آئی)میں تاجروں سے خطاب میں کیا۔اس موقع پرایف پی سی سی آئی کے قائمقام صدر ثاقب فیاض مگوں،جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الحق نے بھی خطاب کیا جبکہ فیڈریشن کے نائب صدر امان پراچہ، معروف بزنس لیڈر زبیرطفیل،خالدتواب،حنیف گوہر،میاں زاہد حسین،زاہد سعید،خرم اعجاز،شکیل ڈھینگڑا،منظر عالم اور دیگر بھی موجود تھے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے بہت سارے نظرئیے ہیں ،سب کا خلاصہ یہی ہے کہ مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم ہیں ،اس دنیا میں وسائل کی کمی نہیں ہے ،میرے گھر میں جتنی جگہ ہے اتنے ہی مہمان بلاتا ہوں، پاکستان کا معاشی مسئلہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے ،ہمارے مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم ہیں تو وسائل کو بڑھانا ہوگا ،سوال یہ ہے اپنے وسائل کو کیسے بڑھائیں گے ،میں دو بار کے پی کے کا وزیر خزانہ رہا ہوں ،میں جب آیا تو میرا صوبے پر قرضہ تھا ،ہم نے اپنے دور میں قرضہ ختم کیا ،اس کی وجہ سے وفاقی حکومت نے عالمی بینک کی سفارش پر مجھے تحفتاً 1.4 بلین دیئے تھے۔انکا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے سب سے پہلے قوم کے سامنے اپنا منشور پیش کیا ہے۔ یمارے پاس مخلص قیادت اور مسائل کے حل کے لیے ویڑن بھی ہے ،پاکستان میںمسئلہ دیانت داری کا ہے ،یہاں تو پارٹی پہلے بنتی ہیں اس کے بعد دیگر فیصلے ہوتے ہیں ،جماعت اسلامی پاکستان گزشتہ ایک سال سے اپنے منشور پر کام کیا ہے ،ہمارے پاس ہر شعبے کے ماہرین ہیں جن کی تعداد 1200 ہے،زراعت،صنعتی ،تعلیم اور صحت کی ترقی کیلئے مکمل منصوبہ ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کا بجٹ ایک ہی کلاس کے لوگ بناتے ہیں جو کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے ،وہ آئی ایم ایف کے لوگ ہوتے ہیں جو ان کے فیصلے پر ہی عمل کرتے ہیں،اس وقت پاکستان کا 14 ہزار کا مجموعی بجٹ ہے ،جب اس میں 7200ارب روپے سود کی میں ادا کریں گے تو مزید قرضے ہی لئے جائیں گے،

پاکستان کے پاس 25 ارب ڈالر کے برابر کوئلہ ہے،ہمارے پاس 79 ملین ایکٹر زمین ہے اور صرف 22 فیصد پر ہی کاشت ہوتی ہے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ کہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کے بجائے ہمیں بیروزگاری اور جہالت اوردشمنوں کیخلاف لڑنا ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ امن ہو ،میں نے وزیر خزانہ سے پوچھا تو انہوں نے بار بار مزید قرض لینے کا بتایا،آئس اور ہیروئن سے بڑانشہ قرض کا ہے اور یہ سب اس میں مبتلا ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ایشیائی خطے میں پاکستان، ایران اور افغانستان کی جنگ سے امریکا کی اسلحہ کمپنیوں کا کاروبار چمک جاتا ہے۔سراج الحق نے مزید کہا کہ 79 ملین زرعی ایکٹر زمین سے صرف 22 فیصد زمین کاشت کی جاتی ہے،لائیو اسٹاک میںپاکستان کا پانچواں نمبر ہے اسکے باوجود خالص دودھ میسر نہیں،پاکستان میں کوئلے کے کھربوں روپے کے ذخائر ہیں اسکے باوجود توانائی کا بحران ہے،افغانستان،نیپال،انڈیا اوربنگلہ دیش کی کرنسی پاکستان کی کرنسی سے زیادہ بہتر ہوگئی ہے،پاکستان میں 2 کروڑ 80 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں،90 لاکھ سے زائد بچے نشے میں مبتلا ہوگئے ہیں ،8 فروری کے بعد سب سے پہلا کام ا یہ ہو گا کہ میںپنے آپ کو نمونے کے طور پر پیش کروں گا ،ملک سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرنا اولین مقصد ہے،غریب قوم کے ٹیکسز پر مغل بادشاہوں کی طرز پر زندگی گزارنا سرکار کو زیب نہیں دیتا،آئی پی پی کے معاہدوں کا بوجھ یکدم اتارنا ہوگا،

آئی پی پی کے معاہدوں میں70 فیصد پاکستانی کمپنیاں ہیں،جماعت اسلامی کاایران سے تیل اور گیس دونوں خریدنے کا پلان ہے،35 لاکھ لوگ انکم ٹیکس دیتے ہیں مزید ٹیکس بڑھانے کی حق میں نہیں،پاکستان میں7کروڑسے زائد عوام پر زکواٰۃ واجب ہے ،سودی نظام کے مقابلے میں زکواۃ کا نظام نافذ کرینگے،عوام کا اعتبار حکومت سے ا ±ٹھ چکا ہے، عوام اور سرکار کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے،اعتماد اور تعاون کے بدلے ایک سال میں گرین پاکستان دوں گا ،پاکستان میں سالانہ 5 ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے ہر حکمران نے توشہ خانہ پر ہاتھ صاف کیا ہے۔قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ ہم نے ایف پی سی سی آئی میںتمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور دینے کے لئے دعوت دی ہے اورپاکستان کی بزنس کمیونیٹی یہ جاننا چاہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں کیا منشور دے رہی ہیں،پاکستان کی معاشی مشکلات سے دوچار ہے اور ہمیں بتایا جائے کہ اس کے حل کیلئے سیاسی جماعتوں کے پاس کیا منشور ہے۔انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو بجلی اور گیس کے مسائل کا سامنا ہے، پاکستان میں انرجی کا خسارہ پانچ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے ،پاکستان میں بجلی کی قیمت ریجنل ممالک سے سب سے زیادہ ہے ،گیس کی قیمت بھی دگنا اضافہ کردیا گیا ہے ،اتنی مہنگی انرجی سے پیداواری لاگت بہت بڑھ چکی ہے۔انکا کہنا تھا کہ ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر کی اشد ضرورت ہے ،بزنس کمیو نٹی کا صرف یہ چاہتی ہے کہ پاکستان کی مشکلات کا حل کس کے پاس ہے، آئی ایم ایف اگلے مالی سال میں مزید بھاری ٹیکس عائد کرنے کیلئے دبائو ڈال رہا ہے تو ایسے میں آئی ایم ایف کے مزید اضافی ٹیکس سے بچائو کیلئے سیاسی جماعت کے پاس کیا پلان ہے،سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ حکومت بنانے سے پہلے ملک کی اپیکس باڈی ایف پی سی سی آئی سے مشاورت کریں۔

قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں امیرجماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے معلوم کیا کہ 4,000 ارب روپے کے ٹیکس گیپ کو کیسے پورا کیا جائے گا ؛ ٹیکس کی بنیاد کو کس طرح وسیع کیا جائے گا اور آنے والی حکومت کے ذریعہ SIFC کے پلیٹ فارم کا کس طرح مکمل طور پر فائدہ اٹھایا جائے گا۔امیر ِ جماعت اسلامی نے جماعت کے منشور میں ذکر کر تے ہو ئے کہا کہ قومی یا بین الاقوامی فورم پر کسی قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے اسے مشاورتی عمل کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ اب ایک تا ریخی اور خطرناک سطح یعنی 5.731 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ نئی حکومت کو ایس ایم ایز کے لیے کمرشل بینکوں سے فنانس تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک کی کلیدی پالیسی کی شرح میں کمی جیسے بنیادی اور میکرو اکنامک مسائل کو ترجیح دینی چاہیے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو منطقی بنا کر پاکستان کو علاقائی طور پر مسابقتی بنانے اور اقتصادی، مالیاتی، صنعتی، تجارتی، زرعی،انفرا اسٹرکچرو ڈویلپمنٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایس ایم ایز اور ٹیکسیشن پالیسیوں میں مشاورت، تسلسل اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے ذریعے کاروبار کرنے کی لاگت میں کمی ضروری ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ان کی جماعت غریبوں کو 300 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کے منشور کے مطابق ملک کا مالیاتی نظام سود سے پاک اور زکوٰۃ و عشر کی وصولی پر مبنی ہوگا۔ حکومتی اخراجات کی ترجیحات میں سب سے پہلے فلاحی اخراجات ہوں گے؛ پھر ترقیاتی اخراجات اور انتظامی اخراجات تیسرے نمبر پر ہوں۔بجلی کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس 25کھرب ڈالر کے کوئلے کے ذخائر موجود ہیںجو کہ تین سو سال کے لیے کافی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم اپنے قومی وسائل کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔
اس موقع پرقائمقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوںنے اس بات کو سراہا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اپنا معاشی منشور پیش کرنے کے لیے ایپکس باڈی کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا ہے؛ تاکہ وہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کو اپنے منشور میں شامل کاروباری اور انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے منصوبوں سے آگاہ کر سکیں۔