مزید خبریں

240202-06-6
حسد: اثرات و علاج
ڈاکٹر تابش مہدی
حسد کے روحانی مرض میں مبتلا شخص گرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوںسے بہرہ ور افراد کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرکے اپنے نفس کی تسکین محسوس کرتا ہے اور بسا اوقات ’محسود‘ کو وہ کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ تاہم، ’محسود‘ کا یہ نقصان یا کسی قسم کی تکلیف و پریشانی وقتی و عارضی ہوتی ہے۔ اس نقصان یا تکلیف وپریشانی کی تلافی اس کے صبر وتحمل اور ایمانی استقامت کے ذریعے سے بہت جلد ہوجاتی ہے، جب کہ حاسد کی زندگی ہمیشہ دکھ، درد، اضطراب اور بے چینی سے دوچار رہتی ہے۔ اس کے حالات وکیفیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرحت وانبساط، مسرت وشادمانی اور بشاشت و تازگی کی دولت سے محروم ہوچکا ہے۔ بعض حکما نے حسد کو جسمانی مرض بھی بتایا ہے۔ الحسد داء الجسد (حسد جسم کی بیماری ہے) کا عربی مقولہ بہت مشہور ہے۔ حاسد کا وقار گرجانا، لوگوں کا اس سے منحرف ومتنفر ہوجانا اور اس کو مشکوک و مشتبہ نگاہوں سے دیکھنا حسد کے لازمی اثرات میںسے ہے۔ یہ اثرات حسد کرنے والے کی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ وہ کبھی باعزت و سرخ رو نہیں ہوسکتا۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’سب سے برا وہ شخص ہے، جو لوگوں سے بغض و کینہ رکھے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے بغض و کینہ رکھیں‘‘۔ (المعجم الکبیر، الطبرانی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم اپنے آپ کو حسد سے بچائو، اس لیے کہ حسد نیکیوںکو اس طرح جلادیتا ہے، جس طرح کہ آگ لکڑی جلادیتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شب و روز کی زندگی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بیماری ہمارے اندر سرایت کرکے ہمارے خرمنِ دین و ایمان کو جلاکر راکھ کررہی ہو، تاکہ ہم جو کچھ چھوٹی بڑی نیکیاں کررہے ہیں اور جو ہم سے تھوڑے بہت کار خیر انجام پارہے ہیں، وہ ہمارے لیے اْخروی فلاح وکام یابی اورحصولِ جنت کا وسیلہ بن سکیں۔
امام احمد بن حنبلؒ نے سیدنا انس بن مالکؓ کے طریق سے ایک حدیث بیان کی ہے: ’’نبی کریمؐ نے ایک صحابیِ رسولؐ کے سلسلے میں جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ نے اْن صحابی کے اعمال کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا تو اْنھیں اعمال کے اعتبار سے کسی اعلیٰ و بلند مقام پر نہیں پایا۔ اْن سے نبی کریمؐ کی دی ہوئی بشارت کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایاکہ میرے حق میں جنت کی بشارت کی وجہ صرف یہ ہے کہ میںنے آج تک کسی بھی مسلمان سے بغض و حسد کا معاملہ نہیں کیا‘‘۔ (مسند احمد)
حسد کا علاج
حسد کا علاج کسی دوا دارو، جھاڑ پھونک یا شیخ و مرشد کی توجہ سے ممکن نہیں، بلکہ یہ علم و عمل دونوں کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر حسد کا علاج نہیں ہوسکتا۔ یہ بات ہم سب پر واضح رہنی چاہیے کہ حسد سے ’محسود‘ کا نہ کوئی دنیوی نقصان ہوتا ہے اور نہ اْخروی، بلکہ اخروی طور پر اس کے لیے یہ مفید اور باعث اجرو ثواب ہے۔ اس لیے کہ حاسد غیبت، چغلی اور لگائی بجھائی کے ذریعے سے ’محسود‘ کی آخرت کے لیے ہدیہ و توشہ فراہم کرتا ہے۔ میں نے کبھی کہا تھا ؎
مری ذات ہی اس کا موضوع تھی
وہ میرے گناہوں کو دھوتا رہا
اِس شعر میں اس فرمانِ رسولؐ کی ترجمانی کی گئی ہے، جس میں حاسد کو ’محسود‘ کے گناہوں کا دھوبی کہا گیا ہے۔ جب کوئی کسی کی غیبت کرتا ہے یا اس کی شبیہ بگاڑنے کا کام کرتا ہے تو گویا وہ اس کے گناہوں اور خرابیوں کا صفایا کرتا ہے۔
حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کامیابی ہمیں ایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں۔ اس کی ترقیِ درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔ اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت وشادمانی کا اظہار کریں۔ اگر ممکن ہو تو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں۔ جس محفل ومجلس میں اس کا تذکرہ ہورہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف وہدایا کا اہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت مؤثر و مفید شفا پوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقۂ علاج ہم نے اختیارکرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیرمعمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔