مزید خبریں

امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ 239ضلع جنوبی فضل الرحمٰن نیازی

جماعت اسلامی نے این اے 239سے فضل الرحمن نیازی کو اپناامیدوار نامزد کیا ہے‘ جسارت نے قارئین جسارت کے لیےان سے خصوصی بات چیت کی پیش خدمت

میرا نام فضل الرحمن نیازی ہے،میرا ذاتی کاروبار پشاور میں ہے،میرے حلقہ انتخاب میں 10 یو سی ہیں ،تقریباً 2وارڈ ہیں اور اس کا جو حدود عربہ جو ہے تقریباً لیاری پر مشتمل ہے جو دو تین یوسیز نکال کر۔اس میں آگرہ تاج ، کلری،نواں آباد،میمن سوسائٹی، موسیٰ لین، بغدادی ، شاہ محمود لین، سیفی لین، بہار کالونی، بلوچستان کالونی، رانگی واڑہ، کلاکوٹ ہے۔ اس طرح لی مارکیٹ کا کچھ علاقہ شامل ہے۔میرے حلقے کے ووٹرز کی تعداد 4لاکھ 22 ہزار ہے۔

حلقے کے بڑے مسائل ہیں جن میں ناخواندگی، بے روزگاری، منشیات کا عام استعمال، پانی کی کمی، گیس کی نایابی، بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ، پارکس کی کمی ہے اور اسی طرح کے دیگر مسائل ہیں۔ مڈٹرم سے قبل شک و شبہات تھے، اور اس سے پہلے طویل عرصے تک پیپلز پارٹی کا تسلط رہا ہے اور لیاری میں کوئی خاص کام نہیں ہوا ہے۔

جس کی وجہ سے یہ مسائل لوگوں کو درپیش ہیں۔ جیتنے کے بعد میری ترجیحات بھی ہیں جو مسائل بیان کی ہیں ان کا حل ہوگا اور لوگوں کے ساتھ جو ہے رابطہ رکھا جائے گا لوگوں کے مسائل جو حل کیے جائیں گے۔لوگ اس لیے ووٹ دیں گے جماعت اسلامی ایک واحد جمہوری جماعت ہے جماعت اسلامی عام لوگوں کی جماعت ہے جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہے جماعت اسلامی کرپشن سے پاک جماعت ہے اور جماعت اسلامی خدمت عوام کی 12 مہینے خدمت کرتی ہے اس لیے اور دوسری جو پارٹی ہیں وہ ناکام رہی ہیں اس لیے جماعت اسلامی کو موقع ملنا چاہیے۔

ووٹ کسے ڈالیں

منیر منصوری

خبر ہے کہ این اے 119 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر مہر محمد وسیم کارکنان سمیت ن لیگ میں شامل ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے کے بعد ان کو نون میں ایسا کیا نظر آگیا جو چند روز پہلے تک اوجھل تھا۔ ابھی 8 فروری میں کچھ دن باقی ہیں۔ ایسی مزید خبریں بھی آسکتی ہیں۔ نہیں معلوم وہ جمہوریت میرے وطن میں کب آئے گی جس کے بارے میں پڑھا تھا کہ لوگ آزادانہ رائے سے اپنی حکمران منتخب کرتے ہیں۔ خان دوبارہ آجائے، نون ٹبر مسلط کر دیا جائے یا بھٹو زرداری کو باری دی جائے یا کسی جبّے کو آگے لایا جائے، قوم، ملک، جمہوریت، معیشت، اخلاق، صحت اور تعلیم کا نظام سب ایسے ہی رہیں گے، فرق نہیں پڑنا۔ لیکن اصولی بات یہ ہے کہ ڈرامے کے جو بھی اصول ہیں اصولاً سب کرداروں پر یکساں لاگو ہونے چاہئیں۔

سندھ اور خاص طور پر، سندھ کے دارالحکومت کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات سے پی پی قسم کی موروثی پارٹیوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ جو سیکھا ہے وہ درس جامع الخبائث ہے۔ بے اصولی، مکاری، دھونس، دھاندلی کے دھندے میں الیکشن عملے سمیت ہر کوئی شریک رہا۔ اس بلدیاتی الیکشن میں پی پی کی مرضی کی حلقہ بندیوں سے لے کر ”چنے“ ہوئے نمائندوں کی خریداری تک ہر مرحلے پر بے شرمانہ بے مثال دھاندلی کی تاریخ رقم ہوئی۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں سب سے ”گہرا“ سبق پی ٹی آئی کی قیادت اور ووٹر کے لیے ہے۔ ووٹر کے لیے یہ سبق ہے کہ پی ٹی آئی کو ڈالے گئے ووٹ پی پی، نون اور دیگر گرگوں کے کام آنے کے امکانات روشن ہیں۔ حالات نے ثابت کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار اور منتخب نمائندے فی الحال زیادہ قابل بھروسا نہیں ہیں۔ کارکنان کی محنت سے منتخب تو ہوجاتے ہیں لیکن دباؤ برداشت نہیں کر پاتے اور مالی لالچ بھی ان کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش بن جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کو بلا نہ ملنے کے بہت سارے نقصان دہ اثرات ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ جس پارٹی کے پارٹی نشان پر منتخب لوگ دھوکہ دے سکتے ہیں، اس کے نمائندے جب آزاد منتخب ہوں گے تو ان کا ”منڈی“ کے گھوڑے یا لوٹے بننے کے راستے میں کیا رکاوٹ ہوگی! پی ٹی آئی کے ووٹوں سے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے رکن کے لیے پی پی یا نون میں جانے میں کوئی قانونی مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے امکان ہے کہ پی ٹی آئی کو زیادہ تر منتخب ارکان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔

این اے 119 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر کی نون کے حق میں دستبرداری آنے والے حالات کی ایک جھلک ہے۔ نیازی صاحب کی محبت میں لوٹوں، لٹووں اور گھوڑوں کو ووٹ دینے سے پہلے ووٹر اچھی طرح غور کرلیں کہ ووٹ کس کو دے رہے ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے نیازی کے حامیوں کے ووٹ نون اور زرداری کے کام۔ آئیں گے۔ زرداری کا بیٹا پہلے ہی راگ الاپ رہا ہے کہ پی پی آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ آٹھ فروری میں ابھی وقت ہے۔ اس دوران کتنے اور ٹکٹ ہولڈر نون اور ذال کے ”حق“ میں دستبردار کروائے جائیں گے، کچھ نہیں کہا جا سکتا!

منتخب ہونے کے بعد کتنے پی ٹی آئی والے پی ٹی آئی کے ساتھ رہیں گے اور کتنے ہوں گے جوکسی اور کے استھان میں بندھنے کو تیار ہوجائیں گے یہ سمجھنا مشکل نظر نہیں آرہا ہے۔ بولیاں لگیں گی اور ”آزاد“ رکھے گئے گھوڑے ہاتھوں ہاتھ بکیں گے۔ پرانے گھاگ خریداروں نے خریداری میں دلچسپی کا ”برملا“ اظہار بھی کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی بلکہ خان کے ووٹرز کو مشورہ ہے کہ اپنے ”عقیدت مندانہ“ ووٹ لوٹوں میں ڈال کر ضائع نہ کریں! ظاہری حالات میں یہی اندازہ ہورہا ہے کہ خان کے نام پر چنے جانے والے کسی اور جگہ ”چن“ یا ”چنوا“ لیے جائیں گے۔ پانی کی بوتل کے ڈھکن کھولنے والے ایک پی پی لیڈر نے بتایا ہے کہ پی پی کو کراچی سے قومی کی 13 اور صوبائی کی 27 سیٹیں ”ملیں گی“۔ (اتنی پکی گنتی اور یقینی بات ووٹوں کی بنیاد پر تو نہیں کہی جاسکتی۔ یہ تو ”ووٹ گننے والوں“ کی کرامات ہی کی بدولت ممکن ہوسکے گا!)۔

بھٹو، نون اور الطاف کی طرح پی ٹی آئی بھی کوئی نظریہ نہیں ایک شخصیت کا نام ہے۔ آج نیازی صاحب کوئی نیا نام اختیار کرلیں پارٹی صفر ہوجائے گی۔ کسی دیرپا مضبوط نظریے کے بغیر محض ایک شخص کے نام پر لوگ کب تک سختیاں برداشت کر سکتے ہیں۔ ایسے شخصیت پرست لوگوں کا مال کے لالچ میں آجانا اور مشکلات کے سامنے جلد گھٹنے ٹیک دینا حیرت کی بات نہیں۔ طویل عرصے یا عمر بھر ظلم کے سامنے صرف حقیقی نظریاتی لوگ ہی کھڑے رہ سکتے ہیں۔ وہ چاہے کمیونزم کے علمبردار ہوں یا اسلام کے سپاہی! نظر آ رہا ہے کہ ماہرین نے طاقت کے نشے میں آٹھ فروری کا کھیل (اگر ہوتا ہے تو) بڑی محنت، اور مکروہ منصوبہ بندی سے ترتیب دیا ہے۔ کھیل تو کامیاب ہوجائے گا لیکن جمہوریت، ملک اور قوم ہار جائیں گے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جمع پونجی لے کر باہر کے دیسوں میں جا بسنے والوں کی دنیا خوشحال رہے گی، ساٹھ سال سے ملک پر بالواسطہ وبلاواسطہ مسلط مترفین اشرافیہ کے کھیل سے ملک مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ سارا کھیل واضح ہے اور عوام کو بھی سمجھ میں آرہا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ عوام بے بس ہےں، بے خبر نہیں! لوٹے میں ووٹ کوئی نہیں ڈالتا۔ لیکن اس دفعہ ڈالے جائیں گے اور بڑی خوش فہمیوں اور بڑی خواہشات کے ساتھ کافی بڑے پیمانے پر ڈالے جانے کا امکان ہے۔