مزید خبریں

امیدوار برائے صوبائی اسمبلی حلقہ90ضلع کورنگی،محمد وسیم مرزا

سوال: محترم آپ کا مکمل تعارف جس میں آپ کی تعلیمی قابلیت، رہائشی تعلق پروفیشنل ودیگر جو آپ دینا چاہے؟
پی ایس 90سے جماعت اسلامی کے امیدوار محمدوسیم مرزا نے جسارت سے گفتگوکرتے ہوا کہا کہ میں نے یو ایس اے سے بی ایس کمپیوٹر سائنس کیا ہوا ہے،21 برس سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں،یونین کمیٹی نمبر2 انڈس مہران سعودآباد کا چیئرمین ہوں، دی محمد اکیڈمی اسکول کا پرنسپل اور دی اسمارٹ اسکول شاہین کیمپس سعود آباد کا ایڈمنسٹر یٹر ہوں، جامع مسجد الکوثر اور جامع مسجد فاروقی کا خطیب ہوںملیر کا سابق نائب ٹائون ناظم رہا ہوں اور علاقے کے سیاسی وسماجی مسائل میں دلچسپی رکھتا ہوں۔
جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے حلقہ انتخاب کی تفصیلات میںانہوں نے بتایا کہ ہمارے حلقہ انتخاب پی ایس 90کے اندر ووٹرز کی تعداد تقریبا دو لاکھ 57 ہزار ہے اور یہاں کی آبادی تقریبا ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے ۔
مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے وسیم مرزا نے کہا کہ مسائل کی جہاں تک بات ہے تو وہی مسائل ہیں جو کراچی بھر کے مسائل ہیں، اس میں سب سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے بہت لوگ اذیت ناک زندگی بسر کر رہے ہیں خاص طور پہ غریب علاقے ہیں اور کچی آبادیاں ہے گیس کی لوڈ شیڈنگ اب تو ہمارے شہری علاقوں میں بھی ہو رہی ہے اور پانی اور سیوریج کے مسائل ہیں اچھی سڑکیں اورتعلیم اور صحت کے مراکز نہیں ہے یہ ہمارے بڑے بڑے مسائل ہیں،
انہوں نے سابق رکن اسمبلی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے حلقہ انتخاب سے اس سے قبل ایم کیوایم پاکستان کے محمد حسین ایم پی اے رہے ہیں اور اگر موصوف حلقے میں کام کرتے تو یقینا حلقے میں کچھ نہ کچھ تو نظر آتا ، ہمارے حلقے کے لوگوں کی اور میری بھی یہی رائے ہے کہ ہمارے علاقوں میں کام نہیں ہوئے کوئی توجہ نہیںدی گئی مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔
ہمیں لوگ ووٹ کیوں دیں؟کے سوال پر ان کاکہنا تھا کہ بھائی ہمیں لوگ ووٹ اس لیے دیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کریں ہم نے تو اپنی زندگی گزار لی اگر ایماندار دیانت دار اور اہل لوگ آئیں گے تو آپ کے وسائل آپ پر خرچ ہوں گے اگر آپ نے جماعت اسلامی اور ترازو کے نشان کے علاوہ کسی کو بھی ووٹ دیا تو یاد رکھیے گا یہ ووٹ پلٹ کر پیپلز پارٹی کے پاس آ جائے گا اورپیپلز پارٹی اس کام میں بہت ماہر ہے بلکہ چمپئن ہیں کہ وہ ووٹ خریدتی ہے اور حکومت بناتی ہے یہی کام انہوں نے میئر کے الیکشن میں بھی کیا تھا اور بلکہ ان کو حکومت بنانے کا تو اتنا شوق ہے وہ ملک کی پروا بھی نہیں کرتی ہے ۔1971 میں شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی نے زیادہ سٹیں لی تھی ان کا حق تھا کہ وزارت عظمیٰ ان کو دی جائے اور حکومت وہ بنائیں لیکن پیپلزپارٹی نے ملک کو توڑنا گوارا کیا لیکن جس کا حق تھا اس کو نہیں دیا تو لہٰذا کسی اور پارٹی کے بجائے آپ کا اور کراچی کا صرف ایک ہی چوائس اور ایک ہی نشان ہے وہ ترازو اور ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے چھ سال سے حافظ نعیم الرحمن حق دو کراچی کے مہم چلا رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ کراچی جو جائز مقام اور جائز حق ہے اس کو دیا جائے کراچی اپنی جگہ پر آئے گا تو پاکستان اپنی جگہ پر آئے گا کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا اور سب سے امپورٹنٹ یہ ہے کہ اس وقت ہم نے یوتھ کو ٹارگٹ کیا ہے بنو قابل کا پروگرام ہمارا چل رہا ہے 25 ہزار بچے اور بچیاں آ ئی ٹی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
کامیابی کے بعد ترجیحات کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جیتنے کے بعد ہماری ترجیحات میں آئی ٹی یونیورسٹی کا قیام ہے اور سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کرائیں گے اپنے بچے اور بچیوںکو پڑھائیں گے، کراچی کا انفراسٹرکچر صحیح کریں گے ۔اس گئے گزرے حالات میں بھی کراچی ملک کا 67 فیصد ریوینیو دیتا ہے تو ہم کراچی کو اپنی جگہ پر لا ئے گے اور پاکستان کو اپنی جگہ پہ لا ئے گے ۔آنے کے بعد جو خصوصی توجہ ہوگی اور جو ہمارے مسائل ہیں اس کو حل کرنے کی کوشش کریں گے بنیادی سہولت کو بہتر بنایا جائے گا لوگوں کو بنیادی سہولتیں ملیں اوردو بڑے اہم مسلئے ہیں تعلیم اور صحت اس پہ خصوصی توجہ دیں گے اور صحت کے اندر ایک معاملہ بہت اہم ہے، ہمارے حلقے کھوکھراپار میں گورنمنٹ کا بہت بڑا اسپتال ہے اور اس کے مختلف شعبہ جات بنے ہوئے ہیں اس کے اندر، ٹروما سینٹر کی پوری بلڈنگ بنی ہوئی ہے اس میں جدید آلات موجود ہیں ۔ایک چیز ہوتی ہے ایس این ای جس کے ذریعے ڈاکٹرز اور اسٹاف کو بھرتی کیا جاتا ہے بس اس کی اجازت کی ضرورت ہے۔ تو ابھی معاملہ کیا ہو رہا ہے کہ ملیر میں اور اس پاس کے علاقوں میں اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے ،خدانخواستہ فٹل انجری اور خاص طور پر ہیڈ انجری ہوجائے تو فوری طور پر مریض کوجناح اور سول اسپتال لیکربھاگنا پڑتا ہے اور جنا ح ، سول اسپتال میں کم از کم ہمارے گھر سے بہت تیز بھی چلائیں تو 45 منٹ کا راستہ ہے ورنہ ایک گھنٹہ تقریبا لگتا ہے اور زندگی بچانے کے لیے جو شروع کے 30 منٹ ہیں وہ بڑے قیمتی ہوتے ہے تو انشاء اللہ سب سے پہلے ترجیح یہ ہوگی کہ یہاں پہ ٹراما سینٹر کا آغاز کیا جائے تاکہ بہت ساری قیمتی جانیں ان کو بچایا جا سکے ۔ایک آخری بات رہ گئی تھی وہ یہ کہ میری یو سی جس کا میں چیئرمین ہوں اس میں دو بڑے مسئلے تھے ایک تو جب واٹر بورڈ کے خلاف دھرنا ہوا تھا وہاں میں نے کہا تھا کہ ہمارے ہاں سیوریج کی ایک جھیل ہے تو ایک باؤنڈری ہے اس کے اندر تین گورنمنٹ کے اسکول بنے ہوئے ہیں بلکہ اسکول چل رہے ہیں اور اس میں چوتھی عمارت تیار ہو رہی ہے آج کل یعنی آپ سمجھیں جو بچے ہیں ان کے لیے اسکول جانے کی بھی جگہ نہیں تھی، اتنا برا حال تھا اور الحمدللہ ابھی جو گزشتہ دن گزرا اتوار کا دن وہ الحمدللہ ہم نے سیوریج کا پورا مسئلہ حل کیا ہے۔ پوری آبادی کے اندر لوگوں کے گھروں میںپانی تھا وہ نکالا ہے نئی لائنیں ڈالی ہے ، پانی خشک ہوا اس کے بعد وہاں گراؤنڈ بنایا گیا پچ بنایا گیا اور گزشتہ روز اس گرائوند میں کرکٹ کا ٹورنامنٹ تھا جو ہم نے کروایا الحمدللہ اور اس میں جا کے جب پھر مہمان خصوصی اور ٹرافی وغیرہ دی گئی ایک بات تو یہ دوسرا یہ کھوکھراپار ڈاکخانہ جو کئی برس سے ایک ایک فٹ پانی وہاں کھڑا ہوا تھا ڈاکخانہ مین ہمارا چوراہا بنتا ہے ایسی صورتحال ہو گئی تھی کہ لوگ وہاں سے منتقیل ہورہے تھے اور آنا جانا ناممکن تھا الحمدللہ یہ ایسا کام ہے جو بھول نہیں سکتے لوگ یعنی دونوں ناممکن کام اللہ کی مدد سے اور ہمارے بھائیوں کی محنت کی وجہ سے ہوئے ہیںجو گراؤنڈ تھا جہاں بچے بچیوں کے ا سکول تھے جہاں عید گاہ کی نماز ہوتی تھی اور پچھلے پانچ سال سے عید کی نماز نہیں ہو رہی تھی اسی گٹر کے پانی کی وجہ سے انشاء اللہ اس سال عید کی نماز ہوگی یہ بہت بہت بڑا کام ہے جو الحمدللہ ہوا ہے۔