مزید خبریں

طلاق: مفہوم، جواز و اختیار

زوجیت کے رشتے کو ختم کرنے کا نام طلاق ہے، جیسے کوئی شخص کہے تُو طلاق والی ہے (یا تجھے طلاق ہے) اس کو طلاق صریح کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا (دفع ہو جا) یا (برقع اوڑھ لے)اور اس میں طلاق کی نیت کر لے، تو طلاق ہو جا ئے گی اسے طلاق کنایہ کہتے ہیں۔ طلاق سے پہلے، عورت کو سمجھانا، نصیحت کرنا، بستر الگ کردینا، یا بڑوں (حکمین) سے فیصلہ کرانا ضروری ہے۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے حالت طُہر میںدو مرتبہ طلاق دینا مناسب ہے، ایک ساتھ تین طلاق دینا مناسب نہیں، کیونکہ اس سے رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ طلاق میاں بیوی سے ضرر دور کرنے کے لیے مشروع اور جائز ہے، اس کے بہت سے دلائل ہیں۔ جیسے قرآن کی آیت:

’’طلاق دو بار ہے پھر یا تو بطریق شائستہ رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور یہ جا ئز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو، اگر زن وشوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں، یہ خدا کی (مقرّر کی ہوئی) حدیں ہیں۔ ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں وہ گنہگار ہو ں گے‘‘۔ (الطلاق 2)
اسی سے متعلق قرآن کریم کی ایک اور آیت پیش نظر ہے: ’’اے پیغمبرؐ!: جب تم عورت کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شماررکھو‘‘۔ (الطلاق: 3)

طلاق کا جواز:

حدیث میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ماہواری کے دوران طلاق دے دی تھی، آپؐ نے انھیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کے طہر تک انتظار کرو۔ وہ پاک ہوجائے تو جی چاہے تو اسے رکھ لو ورنہ اسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدو۔
طلاق کے جواز پر اجماع ہے اور عقلی دلیل یہ ہے کہ کبھی کبھی میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہتی اور کسی ایک کو کافی مشکلوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے، اور ایسی صورت میں شادی کو باقی رکھنا خرابی کا سبب ہوتا ہے۔ شوہر پر خرچے اور رہائش کا انتظام لازم کرنا اس کے لیے باعث ضرر ہوتا ہے۔ بیوی کو اس صورت میں روکے رکھنا سوئے معاشرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو دونوں کے درمیان جھگڑے کا باعث ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسی حالت میں طلاق کو جائز قرار دیا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے آپؐ سے اپنی بیوی کی بد زبانی کی شکایت کی تو آپؐ نے اسے طلاق دینے کا اِذن دیا۔ البتہ آپؐ نے فرمایا کہ جو عورت بغیر کسی وجہ کے شوہر سے طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘۔ (الطلاق: 4)

قرآن کریم نے زوجین کو آداب معاشرت بتائے جن سے اچھی گھریلو زندگی اور ازدواجی زندگی کے فیوض بحسن خوبی حاصل ہو سکتے ہیں۔ طلاق کا اختیار تو اسلام نے دیا ہے مگر حتی الامکان اسے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر معاملات بہت زیادہ بگڑ جائیں اور ازدواجی زندگی متاثر ہو اور اصلاح کا امکان نہ ہو تو ایسی صورت میں علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔
طلاق کی اجازت میں حکمت پوشیدہ ہے، اس کی اجازت ناپسندیدگی کے ساتھ چند قیود لگادی گئی ہے۔

مثلاً: اگر میاں بیوی میں ایک دوسرے کی طرف سے زیادتی کا خوف ہو تو اس کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مرد عورت کو سمجھائے، بڑوں سے مشورہ کرے، اگر پھر بھی بات نہ بنے تو مرد چاہے تو اسے طلاق دیدے۔ مگر کوئی بھی چیز جو اس نے بیوی کو دی ہو اسے واپس لینا جائز نہیں، اور نہ بچوں کی پرورش کا حق اس سے چھیننا درست ہے، البتہ اگر عورت تفریق چاہتی ہو تو بعض حقوق مالیہ سے دستبردار ہو نے کی شرط مرد لگا سکتا ہے۔
احادیث نبویہ میں طلاق کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، اور خوامخواہ طلاق مانگنے پر وعید وارد ہوئی، ارشاد نبویؐ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کو حلال اشیاء میں سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے‘‘۔ (ابوداؤد)

طلاق کا اختیار:
طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں دینے کی کچھ وجہیں ہیں، عموماً وہ عورت کے مقابلے میں زیادہ صابر ہوتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو بھی فیصلہ کرتا سوچ سمجھ کے کرتا ہے۔ اور اسی بنا پر عموماً عقد نکاح قائم رہتا ہے، جبکہ عورت حساس ہوتی ہے۔ نرم دل ہونے کی وجہ سے بسااوقات درست فیصلہ نہیں کر پاتی اور جلد ہی طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہے۔ اگر اس کے ہا تھ میں یہ اختیار ہوتا تو جلد طلاق دے دیتی۔

یاد رہے کہ عورت کو اپنی مرضی سے شادی کر نے کا اختیار دیا گیا ہے۔ نکاح کے وقت وہ شوہر پر شرائط عائد کرسکتی ہے، لیکن وہ شرائط عقد کی حکمتوں کے خلاف نہ ہوں۔
مثلاً: اسی شہر میں رہنے کی شرط وغیرہ۔ اسی طرح شوہر بیوی کو طلاق کا اختیار دے سکتا ہے۔ ( شادی کے بعد بھی دے سکتا ہے۔) ازواج مطہرات نے آپؐ سے نفقے کا شکوہ کیا تو اللہ نے فرمایا:

’’اے نبی! کہہ دو اپنی بیویوں سے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں کچھ سامان دوں اور احسن طریقے سے تمہیں چھوڑ دوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے احسا ن کرنے والیوں کے لیے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے‘‘۔ (اسلام و دیگر مذاہب و معاشروں میں عورت کے حقوق و مسائل از عبداللہ مرعی)
اس آیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اختیار دے سکتا ہے یعنی اسے ساتھ رہنے یا جدا ہو جانے کا اختیار ہے۔ عورت علیٰحدگی چاہے تو وہ اسے طلاق کا جوڑا دے، اور اس کے واجبات ادا کردے اور اس کو جدا کردے۔ عورت کو نصیحت کی گئی ہے کہ محض تنگدستی کی بنیاد پر تفریق کے مطالبے میں جلدی نہ کرے۔
اگر عورت کو شوہر کی جا نب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو تو اسلام نے آزادی دی ہے کہ وہ اپنا معاملہ قاضی کے پاس لے جائے اور قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کا فیصلہ کر دے۔