مزید خبریں

ہائے کراچی

زیرغور رکشہ تیزی سے چلا جا رہا تھا جھٹکے سے رک گیا شکر خدا کا رکشے والے نے روک لیا ورنہ گٹر کے آدھے ٹوٹے ڈھکن میں وہ ضرور پھنس جاتا اور ہوتا کچھ نہیں بیٹھنے والوں کی تھوڑی بہت ہڈیاں ٹوٹتی ۔ ایسا شاید کراچی میں رہنے والے ہر شخص کے ساتھ ہوا ہو لیکنداد دینی پڑے گی کراچی والوں کوگرتے پڑتے ہنستے بستے اپنی زندگی گزار ہی رہے ہیں ۔۔۔۔۔3کڑوڑ20 لاکھ لوگوں کی رہائش والے اس شہر میں دن بہ دن لوگوں کی حالت بد سے بد حالی کی طرف رواں دواں ہے گو کہ تمام ملک کے حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں لیکن سب سے زیادہ فائدہ دینے والے شہر کراچی کےباسیوں کی حالت ابتر ہے بجلی کے بلوں سے پریشان پانی کی عدم موجودگی، ٹوٹی سڑکیں ،ٹریفک، دہشت گردی، چوری، لوٹ مارکے ساتھ ساتھ اب گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔

مسائل جو سلجھے تو باہر دیکھوں
رنگ کائنات کے ہزار دیکھوں
دیکھوں اور کئی کئی بار دیکھوں
ڈھلتی شام ، صبح کا خمار دیکھوں

الیکشن اور پھر سلیکشن ۔۔۔۔غور سے نظریں اٹھائیں کراچی تا خیبر ائی ٹی کی تعلیم سے لے کر زلزلوں میں بنا رنگ و نسل اور جماعت کی تفریق کے ہر جگہ برے وقت میں کس کے والنٹرز کیا کام کر رہے ہیں؟کسی سے پوچھا نہیں جاتا کہ اپ کا تعلق کون سی جماعت سے ہے ۔سب کی خدمت کے لیے ہمہ تن پیش پیش اور قیادت بھی عوامی اور سادگی کی نظیر ۔دعا ہے اس بار جو بھی کراچی کاوالی بنے تو اس کو وراثت کا مال سمجھنے کے بجائے امانت سمجھتے ہوئے اس کے غریب اور مجبور لاچار عوام پر باپ کی سی شفقت کا نظرانہ دے ۔کراچی ایسا کراچی ہو جہاں بیٹیاں تھانوں میں بجلی کے بلوں سے پریشان ہو کر مصیبت زدہ حالات میں دکھائی نہ دیں ،جہاں بچے دن میں پڑھائی کر کے راتوں کو فوڈ پانڈا سروسز دینے کے بجائے ارام کی نیند سو سکیں تنگ گلیوں میں لوگ بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ سے گرمی میں پریشان نہ ہوں، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی کے سبب جہاں کے لوگ بھوکے نہ سوئیں ،جہاں ہر طبقے کے بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان موجود ہوں ۔گھر کے قریب پارکس ہوں ۔غرض کہ زندگی زندگی کی طرح گزاری جا سکے۔اور پھر کراچی یہ نہ کہے ۔

میں کراچی ہوں میری حالت زار دیکھو
آج کچھ میرے دل کا غبار دیکھو
سنو لوگو! آج میری روداد سنو
بیتی ہوئی تباہی کی داستان سنو
میں تھا کلاچی شاندار بہت
روشنیوں کا شہر تھا میرا نام بہت
جگ میں مشہور ہوا غریب نواز بہت
پھر ہر کوئی یہاں آتا ہی گیا
اور اپنا گھر بار بساتا ہی گیا
سب کو میں اپنے اندر سماتا گیا
دکھوں میں بھی سب کو ہنساتا گیا
پھر جانے کس کی نظر کھا گئی مجھ کو
دہشت گردی یا سیاست مار گئی مجھ کو
ہر ایک مجھ کو کچلنے لگا
مونگ سینے پہ میرے دلنے لگا
وار پیٹھ پہ میری کرنےلگا
موقع پا کر مال میرا کھاتا گیا
میرا ہے کراچی کہہ کر ستاتا گیا
کاش رکھتا گھر اپنا سمجھ کر میرا خیال بہت
نہ پہنچاتا مجھے وہ آزار بہت
زمیں کا ایک ٹکڑا تو سمجھا مجھے
نہ دیا ماں جیسا رتبہ مجھے
نہ تھا ٹوکیو، نیویارک مجھ جیسا کبھی
میری حالت کو آج دیکھ کر ہنستے ہیں سبھی
آج میرا حال بد سے بدتر ہوا
خدایا رحم کرمجھ پر ہر پل سدا
مضبوط اور اچھے ہوں میرے نگہبان بھی
ہماری دعا ہے اور یہ ارمان بھی