مزید خبریں

محنت کش ملازمین کے کیسز براہ راست دکھائے جائیں

ویسے توملک کا کوئی بھی طبقہ عدالتی نظام سے مطمئن نظر نہیں آتا، نچلی سطح پرکام کرنے والے محنت کشوں کی شکایات توعام ہیں۔ جن ملازمین کے مقدمات کے فیصلے دنوں یا مہینوں میں ہونے چاہئیں، سالہاسال گزرنے کے بعد بھی نہیں ہوتے، شاید اسی وجہ سے عالمی جسٹس پراجیکٹ کے رول آف لا انڈیکس میں پاکستان کی عدلیہ کو 139ملکوں کی فہرست میں 130واں نمبر دیا گیا ہے۔قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ کی تین ماہ والی کارکردگی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ17ستمبر 2023ء سے 16دسمبر تک عدالت عظمیٰ نے 859 مقدمات نمٹائے۔ 17 ستمبر کو زیر التوا مقدمات کی تعداد 56503تھی جو 16 دسمبر کو 55644 رہ گئی۔ اس عرصے میں 466 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ 5305 نمٹائے گئے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملازمین سے متعلق کیسز کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ ملک کے تمام وفاقی سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اینڈ کنٹریکٹ ملازمین کی انٹرا کورٹ اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی تھی اب سماعت 14 فروری کو ہوگی۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے تمام کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی کیس معزز لارجر بینچ ہائی کورٹ آف سندھ کراچی کے سامنے 22 جنوری 2024 تھی مگر جج/بنچ کی عدم دستیابی کی وجہ سے 12 فروری 2024 پر چلی گئی۔ جس طرح مخصوص طبقوں کے لیے رات کو عدالتیں کھلتی ہیں ججز صاحبان آکر فیصلہ صادرفرماتے ہیں، کئی گھنٹے لائیو دکھایا بھی جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے دوست محنت کشوں کے کیسز کو بھی لائیو دکھایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کارکردگی کا جو نیا معیار قائم کیا ہے وہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک نئے مثبت رجحان کا غماز ہے جس سے ملک کے نظام عدل پر ملازمین کے اعتماد میں اضافہ تب ہو گا جب محنت کش ملازمین کے کیسز کو ترجیح دی جائے گی۔