مزید خبریں

الیکشن کے بعد والی حکومت کو مہنگائی اور بے روزگاری کےبڑے چیلنج ہونگے

نگران وفاقی وزیر خزانہ و محصولات ڈاکٹر شمشاداختر نے کہا ہے کہ پائیدار اقتصادی ترقی و نمو کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، اسمگلنگ ، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ان خیالات کااظہار انہوں کے کسٹم کے عالمی دن کیموقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتیہوئے کیا۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ ملکی معیشت کی ترقی اور نمو کے لئے مسلسل کام جاری ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ضروری ہے۔ اس وقت ملک میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 8 سے 9 فیصد ہے جس میں اضافہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات کے عمل میں ڈیوٹیوں اور ایس آر او کو کم کرنے کی سفارشات کی جائیں گی۔بارڈر ٹریڈ کے حوالے سے کسٹم اصلاحات ایک مشکل مرحلہ ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے لئے گزشتہ 5 ماہ مشاورت کا عمل جاری ہے۔ ایف بی آر ممبران کی تجاویز بھی لی گئی ہے اور چیئرمین ایف بی آر بھی آن بورڈ ہے۔

یف بی آر نے اصلاحات کے لئے کچھ سکیمیں بھی پیش کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر جاری مالی سال کے دوران 9.4 ٹریلین روپے محصولات کا ہدف حاصل کر لے گا۔ ایف بی آر کے ریونیو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ریونیو کے حصول اور اس میں اضافے کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا اوراس مقصد کے لئے آگاہی مہم بھی ضروری ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قوم کی معاشی اور سماجی ترقی کے لئے ریونیو میں اضافہ ضروری ہے۔اس کے لئے تمام شراکت داروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تقریب سے وفاقی وزیر مواصلات شاہد اشرف تارڑ نے بھی خطاب کیا۔

اس بارالیکشن میں وہ گہما گہمی نظرنہیں آرہی جوکہ پہلے ہوتی تھی کیونکہ عوام سر سے پیر تک اپنے مسائل میں ڈوبی ہوئی ہے عوام کو پانی، بجلی، گیس اور روزگار کے مسائل نے اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے اس لیے عوام کی ایک بڑی تعداد الیکشن سے لاتعلق نظرآتی ہے تاہم کاروباری برادری کو امید ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اورمعیشت بہتری کی طرف گامزن ہوجائے گی۔ یہ سلسلہ نیا نہیں ہے حقیقت میں گزرے دس برسوں سے یہ کچھ ملک میں ہو رہا ہے سال سے ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے عام آدمی بنیادی ضروریات کے حصول کی جنگ میں مصروف ہے بجلی اورگیس کے بلوں کی ادائیگی بہت مشکل ہوگئی ہے اور بیوی بچوں کو روٹی کھلانا بھی ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ان حالات میں عوام کو اس بات سے کیا غرض ہوسکتی ہے کہ اگلی حکومت کون بناتا ہے اور اپوزیشن میں کون بیٹھے گا۔ انھیں ساری پریشانی کھانے، پینے، دواؤں کے حصول اور بچوں کی فیس ادا کرنے کی ہے۔ معلوم ہے کہ ان پر جو اثرات پڑرہے ہیں وہ ناکام سیاستدانوں کے کارناموں کا نتیجہ ہیں اس لئے انکی دلچسپی کم ہوگئی ہے جسے سیاستدان بھی محسوس کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی ہیں لیکن بد انتظامی اور منافع خوری کے سبب عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ کاروباری برادری کے ایک بڑے حصے کا خیال ہے کہ اس بار ن لیگ وفاقی اور پنجاب کی حکومت بنائے گی اور وہ عوام کے دکھوں کا کچھ مداوا کرسکے گی کیونکہ یہ پارٹی معیشت کو دیگر سیاسی جماعتوں سے نہ صرف زیادہ توجہ دیتی ہے بلکہ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں اسکے نتائج بھی کچھ بہتر ہوتے ہیں۔ توقع ہے کہ ن لیگ کے دور میں عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے، عوامی فلاح کے لیے ترقیاتی کاموں پر توجہ دی جائے گی، تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلا جائے گا، جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کیا جائے گا اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی لائی جائے گی۔ جب تک سیاست مستحکم نہیں ہوگی اس وقت تک معیشت کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی جس کے لئے سیاسی جماعتوں کا مستحکم ہونا ضروری ہے اس مقصد کے لئے سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی ڈکٹیٹرشپ کو ختم کرکے جمہوریت کو رواج دینا ہوگا۔ الیکشن کے نتیجے میں آنے والی حکومت کے لئے مہنگائی اور بے روزگاری بڑے چیلنج ہونگے جس سے نمٹنا مشکل ہوگا تاہم اگر معیشت اور معاشی اصلاحات کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے، قانونی کاروبار کی حوصلہ افزائی، سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی جاری رکھی جائے تو حالات بہتر ہوجائیں گے۔

انڈسٹری مالکان نے نگراں حکومت کی جانب سے صنعتوں کیلئے بجلی کی قیمت 9 سینٹ مقرر کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوگی اور انڈسٹری عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوگی، جس کے نتیجے میں ملک معاشی طور پر مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ قائم مقام صدر کاٹی نے کہا کہ نگراں حکومت کا صنعتوں کی بحالی اور ترقی کے اقدامات قابل تعریف ہیں اور امید ہے کہ اس اقدام سے انڈسٹریلائزیشن کو فروغ ملے گا، گیس کے استعمال میں کمی آئے گی جس سے کیپسٹی چارجز اور گردشی قرضوں کا بوجھ کم ہوگا۔ نگہت اعوان نے کہا کہ ہماری برآمدات بہت کم ہیں اور 16 سینٹ کی بجلی ملنے کے باعث درآمدات کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو چکی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک میں درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ صنعتوں کو سستی اور بلا تعطل بجلی کی فراہمی کی یہ تجویز سب سے پہلے کاٹی نے دی تھی کیونکہ اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ اضافی بجلی کی کھپت اور بلوں کی بروقت ادائیگی سے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کم اور کیپسٹی چارجز ختم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کورنگی سمیت دیگر صنعتی علاقوں میں پیداواری عمل بڑھے گا جس پر کاٹی اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے برآمدات میں اضافہ اور مہنگائی، افراط زر میں کمی ہوگی۔ نگہت اعوان نے حکومت سے درخواست کی کہ بجلی کی قیمت 9 سینٹ کرنے کے فیصلے پر فوری عملدرآمد کیا جائے۔

ثاقب فیاض مگوں، قائم مقا م صدر، ایف پی سی سی آئی، نے کہا ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (EFP) نے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسی وکالت کی کاوشوں؛ اسکل ڈویلپمنٹ اور آگاہی کے پروگرام اور ریسر چ اینڈ ڈویلپمنٹ کے وسائل کو مشترکہ طور پر پاکستان کو یورپی یونین (EU) کے ساتھ اپنے جی ایس پی پلس ا سٹیٹس کو جاری و برقرار رکھنے میں مدد دینے کے لیے استعمال کریں گے۔واضح رہے کہ ، جون 2024 تک نئی EU پارلیمنٹ اور EU کمیشن قائم ہو جائے گا اور پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے لیے قواعد کے فریم ورک میں کچھ نظرثانی یا پالیسی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کو انسانی حقوق سے متعلق یورپی یونین کے معیارات پر قائم رہنا چاہیے؛انسانی حقوق؛ مزدوروں کے حقوق؛ ماحولیاتی معیارات اور گڈ گورننس، یہ بنیادی طور پر وہ چار شعبے ہیں جس پرپاکستان کی جی ایس پی پلس میں کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پاکستان کے جی ایس پی پلس ا سٹیٹس کی بابت اگلی مانیٹرنگ رپورٹ نومبر 2024 میں جاری کی جائے گی ۔

ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (EFP) کے صدر ملک طاہر جاوید نے روشنی ڈالی کہ ایمپلائرز فیڈریشن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے رہنما اصولوں اور کنونشنز کے تحت انڈسٹریل ریلیشنز؛ اسکل ڈویلپمنٹ ؛ لیبر قوانین اور پاکستان کی معیشت کے تمام شعبوں کے آجروں اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام زیادہ تر حکومت کی طرف سے چلائے جاتے ہیں؛ تاہم، عالمی رجحانات کے پیش نظر، نجی شعبے کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو مسابقتی بنانے کے لیے ہنر مندی کے فروغ کے پروگراموں کو فعال طور پر شروع کرنا چاہیے۔ ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (EFP) کے سیکرٹری جنرل سید نذر علی نے حکومت پاکستان کے نیشنل اسکلز پاسپورٹ (NSP) پروگرام کے بارے میں بریفنگ دی؛ جس کے تحت روائتی تعلیمی ڈپلومہ اور سرٹیفیکیشن سے محروم ہنر مند کارکنوں کو اس شناختی کارڈ کی طرز پر رائج ڈاکیومنٹ کے ذریعے تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کی رجسٹریشن کی جاتی ہے ۔ EFP اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو سہولت فراہم کر رہا ہے تاکہ نہ صرف کارکنوں اور آجروں کو سہولت فراہم کی جا سکے؛ بلکہ انہیں بیرون ملک کام حاصل کرنے کے قابل بھی بنایا جا سکے۔ ایمپلائرز فیڈریشن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)کے آجروں کی سرگرمیوں کے سینئر اسپیشلسٹRavi Peiris نے زور دیا کہ ایف پی سی سی آئی کا تعاون بین الاقوامی لیبر کنونشنز کی تعمیل اور پاکستان کی برآمدات میں اضافے کے لیے عین ضروری ہے؛ کیونکہ ایپکس باڈی ہونے کے ناطے ایف پی سی سی آئی پاکستان کی پوری کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کا دستخط کنندہ ہے اور حکومت اور نجی شعبہ کو ان کے حصول کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیے ۔ای ایف پی کے سابق صدر مجید عزیز نے کہا کہ مختلف چیمبرز اور ایسوسی ایشنز ای ایف پی کے ساتھ آن بورڈ ہیںلیکن، ایف پی سی سی آئی EFP کے پروگراموں کا سب سے اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور اسے قومی معیشت کی ترقی کے لیے مشترکہ سرگرمیوں اور پروگراموں کے انعقاد کے لیے EFP کی کمیٹی میں اپنے3 اراکین کو نامزد کرنا چاہیے۔